تختِ پنجاب پر کون براجمان ہوگا‘ کالم کی اشاعت تک یہ معرکہ بھی سر ہوچکا ہوگا‘ تاہم میں نہ مانوں یا کھیلیں گے نا کھیلنے دیں گے جیسی تھیوری اپلائی کرنے کے امکانات بھی روشن اور بدستور ہیں ۔کیسے کیسے مغالطے دور ہونے کے ساتھ ساتھ روپ بہروپ بھی کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ خاندانی روایات سے لے کر سیاسی رواداری تک‘ رکھ رکھائو سے لے کر مان سمان تک سبھی کی قلعی کھلنے کے ساتھ ساتھ زمانوں سے بنے بھرم بھی شرم سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا معاملہ اکھاڑے سے اگلے مرحلے میں داخل ہوکر وار زون بن چکا ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں کیسے کیسے قد کاٹھ والے بونوں کو مات دے چکے ہیں۔ سکیورٹی اور انتظامی مشینری کے کل پرزے سرکار کے ملازمین بننے کے بجائے ذاتی ملازم بنے پھر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسمبلی کی عمارت بھی سراپا احتجاج ہو گی کہ اس کے سینے پر مونگ دلنے والوں نے کہاں کمی چھوڑی ہے۔ ان سبھی کو خدا جانے کس بات کا زعم ہے۔ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر ایک بار پھر لوٹ کر آنے والوں تک سبھی نے مملکتِ خداداد کو خدا جانے کیا سمجھ رکھا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ یہ اقتدار کے لیے نہیں‘ اپنے باپ دادا کی جائیداد کے لیے لڑے جا رہے ہیں۔ اقتدار کو اپنا حق سمجھنے والے حقوق العوام کے معاملے میں صفر پائے گئے ہیں۔ یہ جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے مینڈیٹ دینے والی رعایا کو کبھی ثانوی حیثیت بھی نہ دی۔ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے اس گورکھ دھندے کو اس طرح پروان چڑھایا کہ آئین اور قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدریں تک زمیں بوس ہوتی چلی گئیں۔ کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی بد ترین بحران کے بعد انگار وادی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جمہوریت کے حسن کو مزید چار چاند لگانے کے لیے مزید کارنامے بھی جاری ہیں۔ ایسے میں دھرتی بھی غم اور صدمے سے صرف نڈھال ہو کر بین کرتی ہو گی کہ اس کے سینے پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں۔ صدمات اور سانحات ہیں کہ عذابِ مسلسل کی طرح نجانے کب سے مسلط چلے آ رہے ہیں۔ اب تو کہیں آسمان گرتا ہے اور نہ ہی زمین پھٹتی ہے۔ آسمان کہاں کہاں گریں اور زمین کہاں کہاں سے پھٹے؟ہر طرف افراتفری‘ نفسا نفسی‘ مارومار اور ادھم کا سماں ہے۔ سماجی قدریں لیرولیر ہیں تو اخلاقیا ت پامال ہو چکی ہیں۔ کہیں آئین لب بستہ ہے تو کہیں قانون اور ضابطے گونگے بہرے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک دوسرے پر ارکان کی خرید و فروخت کے الزامات لگانے والوں نے جمہوری حسن کا ایساچاند چڑھایا ہے کہ اخلاقی قدریں گہنا کر رہ گئی ہیں۔آئین قانون اور ضابطوں کو لیرولیر کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے کیسی کیسی شہ مات کا بندوبست کیے ہوئے ہیں۔ارکان اسمبلی کی منڈی لگائے یہ سماج سیوک نیتا خوامخوہ پنجاب اسمبلی کو اکھاڑا بنائے ہوئے ہیں۔ارب ہا روپے لگا کرجو تخت پنجاب پر بیٹھے گاوہ ملک و قوم سے کیسی کیسی قیمت وصول کرے گا۔ہمارے ہاں نوٹوں سے ووٹ خریدنے کا دھندا نیا نہیں ۔عوام سے لے کر ارکانِ اسمبلی تک کے ووٹ خریدنے والے سوداگر بخوبی جانتے ہیں کہ خوب کو نا خوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا ہنر کیا ہے۔ارکان اسمبلی کے ہاتھوں بلیک میل ہونے اور اربوں روپے لگانے کے بجائے براہ راست بولی کیوں نہیں لگا لیتے کہ کر اقتدار کا فیصلہ اگر اس طرح کرلیا جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ کھربوں روپیہ عوام کا مینڈیٹ بیچنے والوں کی جیبوں اور تجوریوں میں جانے کے بجائے قومی خزانے میں جائے گا۔دوسرا فائدہ یہ کہ ارکان اسمبلی کی آئے روز کی بلیک میلنگ سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔
اقتدار تو کسی ایک فریق کو ملنا ہی ہوتاہے ۔ الیکشن کے بجائے اگر آکشن کروالی جائے تو انتظامی مشینری کو متنازع ہونے سے بھی نہ صرف بچایا جاسکتا ہے بلکہ جگہ جگہ لگی منڈی میں صبح شام اپنے اپنے ارکان کی گنتی اور تعداد پوری کرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے اور ارکان کی خریدوفروخت پر خرچ ہونے والا کالا دھن بذریعہ بولی (Auction) سرکاری خزانے میں جمع ہونے سے سفید بھی کروایا جاسکتا ہے۔جو زیادہ بولی لگائے اسے اقتدار منتقل کردیا جائے اور ایک طے شدہ مدت کے بعد دوبارہ بولی لگا کر انتقال اقتدار کے عمل کو دہرایا جاسکتا ہے۔ اس طرح انتخابات پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور ہارس ٹریڈنگ پر آنے والی خطیر رقوم کی لاگت قومی خزانے کا حصہ بن کر معیشت کو سنبھالا دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ایک دوسرے پر سنگین اور شرمناک الزام لگانے کے بجائے آپس میں سماج سیوک نیتا پُول کرکے‘ بولی بول کر اقتدار حاصل کرکے حصہ بقدر ِجثہ کے فارمولا کے تحت اقتدار کا بٹوارہ بھی کرسکیں گے۔اس طرح اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور آئے روز کے سخت مطالبات سے بھی جان چھوٹی رہے گی۔گویا جو لگائے گا وہی حکومت چلائے گا۔نہ وضاحتوں کی حجت نہ روٹھوں کو منانے کا جھنجٹ۔نہ کسی کو خریدنے کی ضرورت ۔ نہ کسی کو استعفیٰ پر آمادہ کرنے کے ترلے۔الغرض ان سبھی بدعتوں سے مکمل جان چھوٹنے کے علاوہ صادق اور امین کا ڈھونگ رچانے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔بس انتقالِ اقتدار الیکشن کے بجائے آکشن کے ذریعے کرنا ہوگا۔کرسٹل کلیئر اور صاف شفاف بولی کے بعدنہ کسی کو بولنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی الزام تراشی کا۔نہ جانے کتنے بکھیڑوں اور بھاری اخراجات سے جان چھوٹنے کے ساتھ ساتھ ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ بھی مندے کا شکار ہوکراصطبل ویران اور برائے فروخت ارکان ٹکے ٹوکری ہوجائیں گے۔نہ ان کے پاس پیسے ہوں گے نہ یہ موج مستیاں ‘ سیرسپاٹے کرتے پھریں گے۔لگژری گاڑیاں ہوں گی اور نہ ہی وسیع و عریض محلات میں نوکروں کی فوج ۔اسمبلی کے اجلاس کے عوض ملنے والے الائونسز اور اعزازیے پر گزارا کرنا یقینا مجبوری تو ہوگی ہی لیکن ذاتی کاروبار اور پیسے سے اللے تللے کا حوصلہ بھی نہیں ہوگا۔نہ مال مفت ہوگا نہ دل بے رحم ہوگا۔
تاہم مملکتِ خدادا د کے حالات اور منظر نامہ اس قدر ہولناک ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اقبال کی روح بھی پریشان اور سراپا احتجاج ہو کر یقینا یہ کہتی ہو گی‘ بخدا میں نے ایسے ملک کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جس مملکت کا خواب دیکھا تھا وہ تو بنا ہی نہیں‘ اور جو بنا اسے چند سالوں میں آدھا گنوادیا۔بچے کھچے ملک کوبرباد کرنے والے اس طرح بھنبھوڑے چلے جارہے ہیں کہ نہ پاکستان وہ رہا نہ نظریہ پاکستان۔ نیتِ بد اور نظر بد دونوں ہی ان سبھی کو کھاتی چلی گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ کھانے والے تو اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور اس کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑا۔ملول دل اور اداس طبیعت کے ساتھ گھنٹوں اکثر عجیب و غریب سی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی ڈپریشن ہے یا کوئی ناسٹلجیا‘ اور یہ خیال تو دل کا کام تمام کئے دیتا ہے کہ اس دھرتی پر کیسا کیسا ادھم اور کہرام مچایا جا رہا ہے۔ ان کیفیات میں پیدا ہونے والے وسوسے ہوں یا واہمے‘ یہ سبھی کیسے کیسے اندیشوں اور خدشات سے دوچار کر ڈالتے ہیں۔ بے یقینی کی تاریکی اور اندھیروں کے ڈیروں نے ماحول اس قدر سوگوار اور مایوس کن بنا ڈالا ہے کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے‘ یا الٰہی بس تیرا ہی آسرا ہے۔ اس ملک میں بسنے والوں نے اسے ایک ایسی بستی میں بدل ڈالا ہے جہاں سبھی اپنی اپنی مستی میں جی رہے ہیں۔ کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ‘ کیا حاکم کیا محکوم‘ کیا آجر کیا اجیر‘ سبھی اس دھرتی سے خدا جانے کون سا خراج وصول کر رہے ہیں۔ انہیں اس سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ کوئی خدائی قہر ہے۔