"AAC" (space) message & send to 7575

خط کے مضمون تراشے میں نہیں آئیں گے

جس ملک میں ایک خط رائے عامہ اور پارلیمان کی بالادستی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دے وہاں ایسی ہی افراتفری اور اودھم کا سماں ہوتا ہے اور اقتدار کی کھینچا تانی کی تان عدالتوں پر آکر ٹوٹتی ہے ۔ اقتدار کے معرکے کا فیصلہ کرنا ہو یا فوری ریلیف ‘ان سبھی رہنماؤں کو عدالتوں کے دروازے دن رات کھلے ملتے ہیں۔ دادرسی ہو یا شنوائی انہیںعوام کی طرح اوقات کار کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔رواں سہ ماہی میں دو خطوط نے سیاسی استحکام سے لے کر امورِ حکومت تک‘ سب کی چولیں ہلا ڈالیں۔ایسے میں عوام کیسے کیسے عذابوں سے دوچار اور لاچار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ڈالر کو لگی آگ نے قومی کرنسی کو ٹکے ٹوکری کرنے کے علاوہ عوام کی قوتِ خرید کو بھی بھسم کرڈالا ہے۔سفید پوشوں کو تو ہوش بھی نہیں آرہا ۔ رسد کی چادر طلب کے آگے رومال سے بھی چھوٹی پڑ چکی ہے۔ایسے حالات میں آفرین ہے اس قوم پر‘ اپنے اپنے خطوط لہراتے‘ بیا نیوں کے ترانے بجائے چلے جا رہے ہیں۔جہاں روٹیوں کے لالے اوریوٹیلٹی بل دیکھ کر غشی کے دورے پڑتے ہوں ‘ پٹرول کی لگائی آگ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے شعلے نکلتے ہوں‘حالات ِزندگانی دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی کا منظر پیش کرتے ہوں وہاں بیانیہ فروشوں کی اندھی تقلید کرنے والوں کے لیے تو بس دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔
تین ماہ قبل قومی اسمبلی میں عدم اعتماد سے بچنے کے لیے تحریک انصاف نے ایک ایسے خط کا سہارا لیاجو دیکھتے ہی دیکھتے ایسی غیر معمولی مقبولیت کا پروانہ بنتا چلا گیاکہ سازش اور مداخلت کے بیانیہ ساز بھی حیران اور ششدر ہیں ۔بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک کے سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف تک سب یکسر فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان سبھی سے انحراف کر کے بھی محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے بھلے اور کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکت خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں‘ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں‘ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایاہو‘ آئین کی پاسداری اور قانون اور ضابطوں کی عملداری ہوئی ہو‘ انتخابی دعوؤں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفادِ عامہ نصب العین بنایا ہو‘ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو‘صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے ہوں‘ دادرسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں‘ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں‘ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں‘ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو‘ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں‘ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو‘ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا ہو‘ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابل ِتردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟ مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟
انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ اپنی لگائی ہوئی آگ کل خود سے بھی نہ بجھے۔ گوڈے گوڈے اندرونی و بیرونی مسائل میں دھنسے اور بال بال قرضوں میں جکڑے ممالک کو تمام تر خودمختاری کے باوجود قرضہ دینے والوں کی شرائط اور ٹکے ٹکے کی باتیں سننا پڑتی ہیں جس ملک میں قرضوں کی قسط کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینے کا رواج ہو‘ ٹیکسز اور بجٹ ان قرضوں کی کڑی شرائط کے گرد گھومتے ہوں۔ جہاں معاشی ڈھانچہ محض ڈھانچہ بن چکا ہو۔ اقتصادی اصلاحات صرف کاغذوں کا پلندہ ہو۔ نیت اور ارادے کارِ بد میں لت پت ہوں وہاں ڈکٹیشنز اور مداخلتوں کے عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔
غداری کا فتویٰ جاری کرکے کسی کی حب الوطنی کو داغدار کرنے کا اختیار اورٹھیکہ کسی جماعت کے پاس نہیں ہونا چاہئے۔محض ایک بیانیے سے کسی کی حب الوطنی اور وطن پرستی کا فیصلہ کرنے والے قوم کو تقسیم اور انتشار کی آگ میں مت دھکیلیں۔امریکہ مخالف بیانیہ مارکیٹ کرنے والے اپنے دورِ اقتدار میں امورِ حکومت چلانے کیلئے ان در آمدی ماہرین پر انحصار کرتے رہے ہیں جن کی اکثریت امریکہ سے آئی تھی۔ ان سبھی کی اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر ہی تھی۔ ان درآمدی مشیروں نے کابینہ میں شامل اچھے اچھے منتخب وزیروں کو اس طرح نکڑے لگایاکہ وہ آج اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کے قابل بھی نہیں۔ عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والے وزیرں پر امریکہ سے درآمدی مشیروں کو فوقیت دینے والے کس منہ سے امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے جیسے بیانیے مارکیٹ کررہے ہیں۔
اب چلتے ہیں چوہدری شجاعت حسین کے اس خط کی طرف جسے بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ( ق) کے دس ووٹ ادھر مسترد کیے‘ اُدھر عدالت کے دروازے ایک بار پھر انصاف کی فراہمی کے لیے کھل گئے۔سماعت کے ابتدائی مرحلے میں حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ قرار دے کر اختیارات محدود کر ڈالے ۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ پر کیا قانونی دلائل سامنے آتے ہیں اور تختِ پنجاب کا فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے ‘اس کے لیے عدالتی فیصلے کا انتظارہے ‘تاہم ایک بات طے ہے کہ دارسی اور شنوائی ہو یا مقدمہ یا استغاثہ ‘ سیاسی اشرافیہ کے لیے عدالتوں کے دروازے جس طرح کھلتے ہیں کاش عوام کے لیے بھی ایسی ہی شنوائی اور داد رسی ہو۔کاش نظام عدل عوام کے حق میں کوئی ایسا حکم ہی جاری کردے کہ ہمیں وہ بنیادی حقوق حاصل ہوجائیں آئین جن کی ضمانت دیتا ہے اور بحیثیت انسان ہمارا پیدائشی حق ہیں۔تاہم ایک مسئلہ ضرور درپیش ہے کہ عوام کا مقدمہ اتنا طویل اور پرانا ہے کہ خط کے مضمون میں کہاں سماں پائے گا۔خالد ندیم شانی کے یہ اشعارحالات کے عین عکاس ہیں؎
خط کے مضمون تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہوسکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے
تعجب ہے حکمران عدالت سے ضمانتوں پرہیں لیکن نصیبوں جلے عوام کی ضمانت تاحال ضبط ہے۔ بے کس اور لاچار عوام بھی رہائی چاہتے ہیں اورپوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رہائی کے لیے کون سی زنجیر ِعدل ہلائیں کہ ان کی سیاہ بختی اور ذلتِ جاریہ کا سلسلہ کچھ تو کم پڑے۔کہیں تو اس کا زور ٹوٹے اور عوام کے اوسان اور سانسیں بحال ہوںاور یہ محسوس کرسکیں کہ وہ بھی حضرتِ انسان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘بیچارے‘ بے قصورعوام نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘وہ پھر بھی ضمانت پر رہائی کے طلبگار پھرتے ہیں۔وہ ان حکمرانوں کے اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو ان کے طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں عوام کوجکڑے ہوئے ہے۔اس طوق سے نجات مانگتے ہیں جو ان کی گردنوں میں مینڈیٹ کی صورت میں پڑ چکا ہے۔یہ عوام آخر کب تک محصور اور یرغمال رہیں گے؟ یہ بھی رہائی اور انصاف مانگتے ہیں۔ کوئی ہے جو عوام کا مقدمہ لڑے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں