اقتدار کی چھینا جھپٹی جاری ہے۔ خاطر جمع رکھیے‘ حالاتِ پریشاں مزید پریشانی لیے جوں کے توں چلتے رہیں گے۔ بہتری کا امکان تو درکنار شاید سوچنا بھی بعید از قیاس ہے۔ اپنے کالموں میں اکثر حکمرانوں کی ''مردم شناسی‘‘ کا ذکر کرتا ہوںکہ وزیروں اور مشیروں سے لے کر سرکاری بابوؤں کے انتخاب تک دور دور تک مردم شناسی اور وژن کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ خوشامدیوں‘ چاپلوسوں اور سہولت کاروں سمیت نجانے کیسے کیسے کاری گروں کو عوام کے سروں پر لا بٹھاتے ہیں‘ جن کی اہلیت نامعلوم اور کارکردگی ہمیشہ ہی صفر رہی ہے۔ اکثر حکمرانوں کو تو اپنے اردگرد پائے جانے والے مشیروں اور ترجمانوں کی زبان و بیان کی قیمت سبکی‘ جگ ہنسائی او ررسوائی سمیٹ کر یوں چکانا پڑتی ہے کہ ان کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ لمبی زبان اور عقل کا فقدان۔ یہ تماشا ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ عوام دیکھتے اور بھگتتے چلے آئے ہیں۔ میرٹ اور گورننس کی ایسی تیسی پھیرنے سے لے کر صادق اور امین کے معانی الٹانے والوں نے باریاں لگاکر مملکتِ خداداد پر اس طرح شوقِ حکمرانی پورے کیے کہ بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ سرکاری وسائل اڑانے سے لے کر قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے اور اقتدار کے بٹوارے تک شاید ہی کوئی شوق ایسا ہو جو پورا ہونے سے رہ گیا ہو۔
اگر حکمران مردم شناس نہیں تو عوام کون سے بندہ شناس ہیں‘ وہ بھی تو ایک ہی بندے اور ایک ہی ایجنڈے سے کتنی دہائیوں سے لٹتے اور پٹتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں کون سا ہوش ہے کہ ایک مرتبہ غلطی کرنے کے بعد‘ ایک مرتبہ دھوکہ کھانے کے بعد‘ دوسری مرتبہ حقِ رائے دہی استعمال کرتے وقت اپنی حالتِ زار اور ان حکمرانوں کی نیتوں پر لمحہ بھر تو غور کر لیتے۔ ہر بار بلکہ بار بار کئی دہائیاں ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد وہی پہلا‘ اور اس کے بعد اس کا پیش رو‘ اس طرح یہ میوزیکل چیئر چلتی رہی اور لٹنے لٹانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر‘ پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری‘عمران خان کا دورہو یانئی شریف سرکار‘ کس کے پلے کیا ہے؟ کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں کارکردگی اور گورننس کے بجائے بیانیوں اور سہانے خواب دکھا کر مینڈیٹ ہتھیایا جاتا ہو۔ صفر کارکردگی اور نامعلوم وژن کے حامل یہ سیاسی رہنما دعووں‘ وعدوں اور جھانسوں سے عوام کو مسلسل بیوقوف بنائے چلے جارہے ہیں۔ نہ کسی کے کریڈٹ پر کوئی اصلاحات ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی کارکردگی جس کی بنیاد پر انہیں دوبارہ ووٹ دینے کا کوئی جواز بنتا ہے۔ جو سیاسی رہنما اپنی دنیا سنوارنے نکلا ہو وہ عوام کے دن کیا بدلے گا؟ ضرورت مندوں کا ایک ہجوم ہے جو حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک ہر وہ حربہ اور ہتھکنڈا آزمانے پر آمادہ اور بضد ہے جو اس کی لامحدود خواہشات اور مفادات کی ضمانت بن سکتا ہو۔
عوام کے نصیب میں کہیں مرچنٹ تو کہیں پاور گیم کے منجھے ہوئے کاریگر حکمران ہوں تو اُن کی بدنصیبی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اور آئین توڑنے والے خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوں اور طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہو تو بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ بندر بانٹ سے لے کر لوٹ مار تک‘ ساز باز سے لے کر خورد برد تک‘ اقربا پروری سے لے کر لوٹ مارتک‘ بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک اور ذخیرہ اندوی سے لے کر چور بازاری تک‘ بدلحاظی سے لے کر بہتان تراشی تک‘ بدتہذیبی سے لے کر زبان درازی تک اور ریفارمز کے نام پر ہونے والی ڈیفامز تک کس کس کا رونا روئیں۔ ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہیں۔ کئی بار کوشش کی کہ ان ڈیروں اور گھیروں سے بچ کر اس لیے نکل جاؤں کہ مجہول سیاست اور مذموم قیادت ہر کالم کواس طرح کھا جاتی ہے کہ حالاتِ بد دلچسپ اور پُرکیف خیالات سے لے کر سبھی جذبوں اور احساسات کو نگلتے چلے جارہے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے گہما گہمی تک۔ تادیر چلنے والی بیٹھکوں سے لے کر قہقہوں اور مباحثوں سے بھری مجلسوں تک۔ محفلِ یاراں سے لے کر بزم ناز تک۔ سبھی کچھ تو ناپید اور خواب و خیال ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں حالات پریشاں ہیں تو کہیں گردشِ ایام کا پہیہ رکنے کو تیار نہیں۔ کہیں زبوں حالی ہے تو کہیں بدحالی کا دور دورہ ہے۔ ضروریات وسائل کی چادر سے اس قدر دراز ہیں کہ کھینچ تان کر بھی جسم برہنہ ہی رہتا ہے۔ کہیں بھوک و افلاس کے ڈیرے ہیں تو کہیں بیماری مرض الموت بنتی چلی جارہی ہے۔ کہیں بدانتظامی بال کھولے سورہی ہے تو کہیں بدنیتی پاؤں پسارے بیٹھی ہے۔ سماجی قدریں معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں۔ طرزِ حکمرانی اور مسلسل من مانی حالات کو مزید مایوس کن بنائے چلے جا رہی ہے۔ اداسی اور بددلی نے ماحول کو سوگوار بنا ڈالا ہے کہ اس پریشاں حالی اور بڑھتی ہوئی بدحالی کا جیسے کوئی انت ہی نہ ہو۔ انجانے وسوسوں اور نامعلوم خوف نے کچھ اس طرح عدم تحفظ سے دوچار کر ڈالا ہے کہ کوئی خوشی خوشی نہ لگے۔ غم برا نہ لگے۔ ان حالاتِ پریشاں میں کالم کے موضوعات سیاست اور ریاست سے گریز کیسے اور فرار کہاں تک حاصل کر سکتے ہیں۔
حکمران ہوں یا افراد‘ غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔ غلطیوں پر ڈھٹائی اور ضد نہ صرف واپسی کے راستے مسدود کر دیتی ہے بلکہ بہتری کے امکانات بھی ختم کر ڈالتی ہے۔عوام وہی‘ مسائل اور مصائب بھی وہی۔ نہ عوام کے حالات بدل رہے ہیں اور نہ ہی ان کے مصائب کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو پھر موضوعات کیسے بدل سکتے ہیں؟ جب تک حالتِ زار یہی رہے گی تو حالات بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔ کبھی بنامِ وطن‘ تو کبھی بنامِ مذہب‘کبھی روٹی کپڑا اور مکان‘ کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو... کبھی پاکستان کھپے تو کبھی تبدیلی کے ساتھ سماجی انصاف اور کڑا احتساب‘ کبھی ووٹ کو عزت دو۔ تو کبھی امپورٹڈ حکومت نامنظور۔کارکردگی اور ساکھ سے بے نیاز بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کے ماہرین عوام کو کھلا دھوکا دیتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت علیؓ سے یہ قول منسوب ہے کہ لوگوں کو ان کے معاملات سے پہچانو۔ معاملات کے معاملے میں حکمران ہوں یا عوام‘ کس کے پلے کیا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان بھی کارِ بد کا مقابلہ زوروں پر ہے۔ اپنی اپنی دنیا سنوارنے کے چکر میں سبھی حصہ بقدر جثہ وصول کیے چلے جارہے ہیں۔
حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کردے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی معجزہ ہوتا ہے۔ اس کا معجزہ اور مسیحائی اس کی مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ وژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔ مُردوں کو بھلے زندہ نہ کرسکے‘ لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ انہی خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کُل نہیں۔حالات کا یہ ماتم کالم سے کہیں بڑھ کر ایک ایسی پہیلی ہے جس میں مملکت خداداد کی نہ ختم ہونے والی بربادیوں کے ذمہ داروں کے نام اور کارِبد پوشیدہ ہونے کے باوجود صاف پہچانے جاسکتے ہیں۔سمجھنے والے سمجھ گئے جو ہ سمجھے وہ اناڑی ہے۔