"AAC" (space) message & send to 7575

بس دعا ہی کی جا سکتی ہے

بلوچستان میں سیلاب زدگان کی امداد کے مشن پر مامور پاک فوج کے اعلیٰ افسران نے قربانیوں کی داستان میں ایک اور باب رقم کر ڈالا۔ سیلاب زدگان کی امداد کے مشن پر مامور افسران کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت سے جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے‘ پوری قوم اُس پر غمزدہ ہے۔ اس حادثے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والے‘ ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے اور بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں جو ملکی اداروں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایسے عناصر ذہنی اور فکری طور پر یرغمال ہوتے ہیں۔ اُن کم عقلوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پاک فوج مملکتِ خدا داد کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر بھی برسر پیکار ہے۔ افغانستان پر روس کے حملے کے بعد ملک و قوم کو افغان مہاجرین کے ساتھ خیر سگالی اور ایثار کی جو قیمت چکانا پڑی اس کی ادائیگیاں دہشت گردی کی کارروائیوں کا شکار ہونے کی صورت میں آج بھی جاری ہیں‘ جس کے خلاف پاک فوج سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کر رہی ہے۔
افغان جہاد کے بعد معیشت کی بدحالی سے لے کر اخلاقی اور سماجی مسائل سمیت اسلحہ اور بارود کی ریل پیل نے فرقہ واریت کی آگ پر اس طرح تیل کا کام کیا کہ سب کچھ خاکستر ہوکر رہ گیا۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد چند فیصلوں کی قیمت عوام کے ساتھ ساتھ ملکی ادارے بھی برابر چکا رہے ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسران سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک سبھی نے دہشتگردی کے خلاف وہ جنگ لڑی ہے کہ جس کی تفصیل میں جائیں تو ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ ضربِ عضب ہو یا رد الفساد پاک فوج کی لازوال قربانیاں سرفروشوں کے خون سے رنگین اور زخم آج بھی تازہ ہیں۔ حالیہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جامِ شہادت نوش کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی بھی چھ افسران و جوانوں سمیت بلوچستان میں بے رحم سیلابی ریلوں کے رحم و کرم پر پڑے بے بس عوام کے ریلیف مشن پر مامور تھے۔ ویسے بھی فوج تو نام ہی مشن کا ہے۔ مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں کوئی سانحہ ہو یا حادثہ‘ کوئی قدرتی آفت ہو یا دہشت گردی‘ سرحدی خطرات ہوں یا داخلی چیلنجز‘ پاک فوج ملک و قوم کے لیے ہر اول دستہ بن کر میدانِ عمل میں کب نہیں اتری؟
جس ملک کے سیاستدانوں کی کارکردگی تقریباً صفر ہو‘ سیاسی اشرافیہ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کی دھن میں اس قدر مست ہو جائے کہ غیرتِ قومی کے تقاضے بھی بھولتی چلی جائے‘ زبان اور قول کی اہمیت سے ناآشنا نمائشی دعوے اور جھوٹے وعدے کرتے نہ تھکتی ہو تو اُس کی حالت قابلِ رحم ہو جاتی ہے۔ اُس کی زبان پر جو آتا ہے بس کہے چلے جاتی ہے۔ بیشتر سیاسی رہنما اعلانات کے بادشاہ نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہی قول و فعل سے انحراف کے علاوہ حلف اور آئین سے بھی منحرف ہوتے ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ حکمرانوں کی بدعہدیوں‘ جفاؤں اور ناکامیوں کے نتیجے میں جب عوام کے یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سجائے خوابوں کی جگہ کرچیاں لے لیتی ہیں۔
مایوسی کے اندھیروں میں صرف ایک ادارہ ہے جس کی قابلیت اور مہارت ہی اسے دنیا بھر میں ممتاز کیے ہوئے ہے اور حالیہ عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر بہترین افواج میں شمار کی جانے والی پاک فوج نے یہ اعزاز دنیا بھر کی 142افواج میں یونہی نہیں حاصل کیا۔ یہ اعزاز بھی پاک فوج ہی کا ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہر اندرونی محاذ پر سول انتظامیہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ مردم شماری کا مرحلہ درپیش ہو‘ کوئی قدرتی آفت ہو یا حادثہ یا پھر کوئی سانحہ‘ امن و امان کا قیام ہو یا دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہو‘ داخلی انتشار ہو یا جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت‘ کون سا ایسا محاذ ہے جہاں پاک فوج قوم کے ہم قدم اور اس کی مددگار نہیں رہی؟ ملکی معیشت کی بدحالی کے پیش نظر پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل امریکی ڈپٹی وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی جلد ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کریں۔ اس فون کال پر بے جا سوالات کرنے والے عقل و دانش سے عاری دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاک فوج جب دیگر اندرونی مسائل اور محاذوں پر سول حکومت کی معاون اور مددگار ہو سکتی ہے تو درپیش معاشی مسائل میں ہاتھ بٹانے پر کیا اعتراضِ دیوانگی ہے؟ عرب ممالک سمیت چین اور دیگر ہمسائے اور دوست ممالک کے ساتھ خارجی امور پر پاک فوج گزشتہ کئی برسوں سے پیش پیش ہے۔ اکثر ممالک کسی بھی سول حکومت سے زیادہ اُس کے اداروں کی ساکھ اور زبان پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ریاستی ادارے کئی ممالک کے خارجی محاذ سنبھالتے رہے ہیں۔ اب اگر ملک کو درپیش سنگین مالی بحران سے نکالنے کے لیے امریکی حکام کو فون کیا گیا ہے تو اس پر کسی کو تنقید کرنے کا کوئی جواز حاصل نہیں ہے۔ اپنے ملک و قوم کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا کہاں کا جرم ہے؟ اس پر سبکی کا پہلو ڈھونڈ نکالنے والوں کی عقل اور غیرت قومی پر بس ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
بیانیہ سازوں اور بیانیہ فروشوں کو خبر ہو کہ ان کے یہ پراپیگنڈے ملکی وقار کے سراسر منافی ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ادارے خارجی محاذ پر معاونت کریں تو سب ایک پیج پر لیکن اگر یہی معاونت کسی اور دورِ حکومت میں کی جائے تو یہ حکومتی رٹ کی کمزوری کیوں قرار پاتی ہے؟ واہ! کیا دہرے تہرے معیار ہیں۔ اداروں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے میں سبھی بیانیہ سازوں کے ہاتھ برابر کے رنگے ہوئے ہیں۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی اور گھمسان کے اس رن میں سیاسی اشرافیہ نے پورے ملک کو سیاسی اکھاڑا تو کہیں انگار وادی بنا ڈالا ہے۔ انہیں نہ عوام سے کوئی سروکار ہے نہ عوام کے مسائل سے۔ بس اقتدار چاہیے۔ اس کے لیے بھلے سیاسی قلابازیاں لگانی پڑیں یا جھانسوں اور دعوؤں کا جال بچھانا پڑے۔ عوام بھی کیا سادہ ہیں کہ ہر بار سیاسی بازی گروں کے اُسی جال میں پھنس جاتے ہیں جس میں کئی نسلوں سے پھنستے چلے آرہے ہیں۔ ایسے حالات میں تو بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ دوائیں توسبھی بے اثر ہو چکیں۔
''اے ہمارے رب بے شک تو اپنے عندیے اور فرمان کے برعکس نہیں کرتا۔ ہمارے حکمرانوں کو ہمت‘ استطاعت‘ طاقت اور استقامت عطا فرما کہ وہ مملکتِ خدادا د میں بسنے والے کمزور اور ناتواں عوام کی حفاظت اور کفالت کر سکیں ... آمین۔ اے رب العالمین! ادھر قدم قدم پر جعل ساز مسلط‘ ہول طاری‘ مصائب منتظر اور عفریت ایستادہ ہیں۔ ایسے میں سیاہ بخت اور بے کس عوام چلیں بھی تو کہاں تک؟ نتیجتاً وہ راتوں کو لٹتے ہیں۔ دن دیہاڑے دبوچ لیے جاتے ہیں۔ ان کی جان‘ مال اور عزت کو ایک تیرا ہی سہارا ہے۔ زوالِ عصر کے ملگجے میں مارے جاتے ہیں۔ جو حشر مملکتِ خداداد کا ہو چکا ہے اس کے بعد تاخیر‘ انتظار اور کتنا انتظار؟ تو اَلصَّبُور‘‘ بھی ہے‘ اَلمُقَدَّم‘‘بھی ہے اور اَلمُؤخَّر بھی۔ اے رب تُو اَلعَدَل بھی ہے۔ عدل بھی تیری ہی ذات سے منسوب ہے۔ تیرے بلاتاخیر عدل کی صفت کے اطلاق کی سب سے زیادہ ضرورت آن پڑی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں