میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ سوشل میڈیا پرٹاپ ٹرینڈ بننے والے اکثر واقعات اور موضوعات اور ان کے ''پرچارکوں‘‘ سے دور رہوں‘ اسی لیے میں ان سے لاتعلقی قائم رکھنے کی بھی بھرپور کوشش کیے رکھتا ہوں۔ مسلسل کڑھنے اور اندر ہی اندر ملامت کرنے کے بعد اب اکثر انتہائی بوجھل دل اور منتشر خیالات کے ساتھ ہی ایسے موضوعات پر خود کو لکھنے پر آمادہ کرتا ہوں۔ ''میری پارٹی‘ میری مرضی‘‘، ''میرا صوبہ‘ میری مرضی‘‘، ''میری گاڑی‘ میری مرضی‘‘، ''میرا بیانیہ‘ میری مرضی‘‘ وغیرہ وغیرہ کے بعد اب سوشل میڈیا پر ''میرا کیمرہ‘ میری مرضی‘‘ والوں نے من مرضی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ یہ مرضی اب من مرضی اور خود غرضی کی تمام حدیں پار کرکے اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر کیمرے کے توسط سے دانشوری کے نام پر طرح طرح کے بھاشن دکھا کر ہماری اخلاقی اور سماجی قدروں پر سوالات اٹھا کر ریٹنگ حاصل کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ ٹاپ ٹرینڈنگ کی دوڑ میں غیرتِ قومی کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اخلاقی و سماجی قدروں سے بے نیاز سیاستدان ہوں یا دانشوری کے زعم میں مبتلا تجزیہ کار‘ ملک کو کیسی کیسی آزمائش سے دوچار کررہے ہیں۔ بیانیہ ہو یا وڈیو‘ ہٹ ہونی چاہیے بس‘ زبان اخلاق باختہ ہو یا حواس باختہ‘ سب چل رہا ہے۔ مگر جہاں سب چلتا ہے تو پھر وہاں ایسے واقعات بھی رونما ہو ہی جاتے ہیں۔ جہاں غیرتِ قومی اور تہذیب بے معنی ہوکر رہ جائیں وہاں ٹاپ ٹرینڈنگ اور اہداف کے حصول کے لیے عقل کا فقدان ہی کافی ہوتا ہے۔
شامتِ اعمال ہو یا شامتِ زبان‘ یہ دونوں صورتیں مکافاتِ عمل کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں۔ ٹاپ ٹرینڈنگ کی اندھی دوڑ ہو یا بھیڑ چال‘ خواہشات کے ماروں نے غیرتِ قومی سے لے کر خود داری اور اخلاقی قدروں کو پامال کر ڈالا ہے۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ہوں یا شہدا کی بے توقیری کرنے والے‘ نجی محفلوں میں ہنسی اڑانے والے ہوں یا تمسخر اڑانے والے۔ یہ سبھی اس مٹی سے بے وفائی کے مرتکب ہیں جس پر اترائے اور سینہ پھلائے پھرتے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت اداروں کے بارے پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف جے آئی ٹی کا قیام ناگزیر اقدام ہے۔ اداروں کے تحمل و برداشت اور حوصلے کو سلام ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے نجانے کیا کچھ برداشت اور درگزر کرتے چلے آرہے ہیں۔ پاک فوج ہمارا فخر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا بھرم بھی ہے۔ خارجی محاذ ہو یا دوست ممالک سے معاملات اور معاہدات‘ اندرونی انتشار ہو یا دہشت گردی‘ قدرتی آفات ہوں یا سانحات اور حادثات‘ پاک فوج ہر قدم پر حکومت کی معاون اور شانہ بشانہ نظر آتی ہے۔
ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کو نااہل ہوکر کوئے اقتدار سے نکلنا پڑا تو اپنے اعمال اور الفاظ پر غور کرنے کے بجائے نواز شریف صاحب نے اداروں کے بارے ہرزہ سرائی کو باقاعدہ پالیسی بنا لیا۔ ہر دور میں ووٹر کی تذلیل اور مینڈیٹ کی خرید و فروخت کرنے والوں کو ووٹ کو عزت دلانے کا وہ بخار چڑھا کہ علاج کے نام پر بیرونِ ملک جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اسی طرح عمران خان بھی یقینا کسی مغالطے کا شکار ہیں جو 2018ء کے انتخابات میں عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے۔ الیکٹ ایبلز بھی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف میں جوق در جوق شامل ہوتے چلے گئے تھے۔ زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے والوںکو حالات اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ خود پرستی کے سحر میں اس قدر مبتلا ہو چکے ہیں کہ یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کر پا رہے کہ وہ اب اقتدار میں نہیں رہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد تختِ پنجاب پر عثمان بزدار کو بٹھانے کے بعد اس فیصلے پر نظر ثانی سے مسلسل انکار‘ ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی فیصلوں نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ جن بیساکھیوں کے سہارے وہ کوئے اقتدار میں داخل ہوئے تھے انہی پر تنقید اور ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ یقینا مردم شناسی میں کہیں بھول یا کوتاہی ضرور ہوئی ہوگی کہ خان صاحب آج ایسے شعلے بھڑکا رہے ہیں جن سے لگی آگ شاید وہ خود بھی نہ بجھا پائیں۔ تقریباً چار سالہ اقتدار میںسماجی انصاف اور کڑے احتساب جیسے بیانیوں سے لے کر پولیس ریفارمز اور معاشی استحکام جیسے سبھی دعوؤں کو آج بھی انتخابی وعدوں کے طور پر استعمال کرنے والے میرٹ اور گورننس کے معنی الٹا کرکیسی کیسی بدنامیوں اور ناکامیوں کے طوق گلے میں ڈالے نجانے کس بوتے پر مملکتِ خداداد کو انگار وادی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کے اس دور میں قانون‘ ضابطوں‘ آئین اور حلف سے لے کر سبھی دعوؤں اور وعدوں سے انحراف کر نے والے محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے اور بھلے کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں‘ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو‘ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفادِ عامہ نصب العین بنایا ہو۔ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو‘ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے ہوں‘ داد رسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں‘ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں‘ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں‘ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو‘ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں‘ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو‘ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کو فروغ نہ دیا ہو‘ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابلِ تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟
خیبر پختونخوا میں امریکی سفیر کی غیر معمولی آؤ بھگت‘ ناز برداریاں اور پس منظر میں یو ایس ایڈ کی برانڈنگ کے ساتھ فوٹو سیشن کروانے والے تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پھولے نہیں سما رہے۔ تحریک انصاف کے رہنما 'امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ اور امریکہ مخالف بیانیے ٹاپ ٹرینڈ بنا کر نہ صرف خود فریبی کا شکار ہیں بلکہ عوام کو بھی مسلسل گمراہ اور بیوقوف بنائے چلے جارہے ہیں۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بیچنے والے اپنی صفوں میں درجنوں گرین کارڈ چھپائے اور امریکی سفیر کی جی حضوری پر مجبور ہیں۔ سارے پردے ہٹتے چلے جارہے ہیں۔ چہرے بے نقاب اور نیتیں عیاں ہو چکی ہیں لیکن بیانیوں کے سحر میں مبتلا عوام کی آنکھوں سے وہ پردہ ہٹتا نظر نہیں آتا جو ان کی عقل پر ڈالا جا چکا ہے۔ حالانکہ ان سبھی کے روپ بہروپ اور تضادات عوام اپنی آنکھوں سے روز دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اداروں کے بارے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے والے ہوں یا ٹی وی سکرین پر‘ دونوں اپنی دکانداری چمکانے کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں جو اس دھرتی کے خلاف سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ خدا جانے کون کس ایجنڈے پر اور کس کے اشاروں پر کام کررہا ہے؛ تاہم ایک معمہ اب بھی حل طلب ہے کہ سازش کا شور مچانے والے اکثر افراد چور مچائے شور کا مصداق کیوں نظر آتے ہیں؟