سیلاب سے ہولناک تباہی کے بعد جہاں فضا سوگوار ہے وہاں سیاسی شعبدہ بازی بھی برابر جاری ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کی آڑ میں کوئی حاتم طائی تو کوئی سماجی کارکن بن کر فوٹو سیشن کروائے جارہا ہے۔ اپنی نالائقیوں اور بدانتظامیوں پر مبنی اقدامات کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو کبھی آزمائش تو کبھی قدرتی آفت قرار دینے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ یہ سبھی آزمائشیں اور قدرتی آفات صرف غریب عوام کی بستیوں پر ہی کیوں نازل ہوتی ہیں؟ بے رحم سیلابی ریلے اچانک تو کہیں سے نہیں چلے آتے۔ تواتر سے آنے والے جاں لیوا سیلاب ہر بار اُنہی آبادیوں اور بستیوں کو کیوں اجاڑتے ہیں جنہیں نجانے کب سے ملیا میٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سیلابی ریلے اشرافیہ اور فیصلہ ساز طبقے کی آبادیوں کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ موت کا رقص ہر بار مخصوص علاقوں اور شہروں میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ بارش کے پانی سے استفادہ کرنے کے علاوہ سیلاب سے بچاؤ کے کیسے کیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں لیکن کیا فائدہ ایسی ترجیحات اور اقدامات کا جس میں بارش کا قیمتی پانی مسلسل ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کا ذکر تک نہ ہو۔
اگر حکمرانوں نے بروقت ڈیم بنائے ہوتے تو آج مملکتِ خداداد کا نصف سے زیادہ حصہ شہر خموشاں کا منظر نہ پیش کررہا ہوتا۔ خدا بھلا کرے اُن سبھی کا جو ان آفت زدہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم کے لیے وہاں موجود ہیں۔ کس کس کا نام لوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک حصہ بقدر جثہ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ورنہ اگر سیلاب زدگان سرکار کے رحم و کرم پر ہوتے تو اب تک نجانے مزید کتنی مشکلات کا شکار ہو چکے ہوتے کیونکہ سرکار کا تو اپنا ایک طریقہ کار ہے۔ وہ اپنے ایس او پیز اور روایتی بے حسی پر آج بھی قائم اور ڈٹی ہوئی ہے۔ اس کی بلا سے کوئی جیے کوئی مرے۔ تاہم ایک خاتون انتظامی افسر نے جو کر دکھایا ہے کاش ساری انتظامیہ اسے ماڈل بنا لے تو یقینا وہ سارے دھبے دھل سکتے ہیں جو ایسے سانحات اور حادثات کے دوران انتظامیہ پر لگتے چلے آئے ہیں۔ ان سیلابی تباہ کاریوں میں خواتین انتظامی افسران کا کردار مثالی اور قابلِ ستائش رہا ہے۔ جس دلیری اور بہادری کے ساتھ وہ فیلڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں مرد افسران کے لیے مقامِ فکر ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نوشہرہ قرۃ العین وزیر نے جس طرح متوقع سیلابی ریلے کی اطلاع پاتے ہی چند گھنٹوں کے اندر لوگوں کو گھروں سے نکال کر علاقہ خالی کروایا‘ وہ لائقِ تحسین ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی علاقوں میں تو انہیں پولیس کی مدد بھی لینی پڑی کیونکہ اکثریتی آبادی نقل مکانی پر ہرگز تیار نہیں تھی۔ انہوں نے علاقہ مکینوں کو سیلاب کا پانی داخل ہونے سے پہلے محفوظ مقام پر پہنچایا ہی تھا کہ رات گئے سیلابی ریلا اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ نوشہرہ میں داخل ہوا تو کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہوا۔ سلام ہے اس خاتون افسر کو جس نے خطرے کے نشان کو اونچا کرنے کے بجائے لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا۔ خطرے کے نشان کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ایک گاؤں میں سیلاب کا شدید خطرہ تھا‘ سرکار کی طرف سے منادی کروائی گئی کہ بڑے صاحب (اعلیٰ افسر) آ رہے ہیں۔ گاؤں کے تمام لوگ اپنی ہر قسم کی مصروفیت ترک کرکے پنڈال میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ متوقع سیلاب سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی مناسب لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ خیر سارا گاؤں پنڈال میں اکٹھا ہو گیا۔ وقت مقررہ پر بڑے صاحب تشریف لائے اور گاؤں والوں سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ لوگوں کو ''وارننگ‘‘ دینے آیا ہوں کہ ایک بے رحم سیلابی ریلا آپ کے گاؤں کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ دریا کی لہریں خطرے کے نشان کو چھونے کے لیے کس طرح بے تاب ہیں۔ اگر بر وقت آپ لوگوں نے گاؤں نہ چھوڑا تو بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ کل صبح سورج نکلنے سے پہلے آپ سب کو گاؤں چھوڑنا ہوگا۔ آپ کی نقل مکانی کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کر دیے گئے ہیں۔
گاؤں والے بڑے صاحب کی بات سنتے ہی بھڑک اٹھے کہ آپ اچانک ہمیں بتانے آ گئے ہیں کہ ہمیں گاؤں چھوڑنا ہوگا۔ ہم اپنا مال اسباب چھوڑ چھاڑ کر کیسے نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ ہم گاؤں چھوڑنے سے پہلے اپنا مال اسباب اکٹھا کر لیں۔ گاؤں والوں کا جواب سن کر بڑے صاحب سوچ میں پڑ گئے اور کافی گہرا سانس لینے کے بعد بولے کہ آپ کم سے کم وقت میں اپنا قیمتی سامان اکٹھا کر لیں۔ میں آپ کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ دریا میں سیلابی خطرے کی نشاندہی کے لیے لگائے گئے نشان کے اُوپر ایک نیا نشان لگوا دیتا ہوں‘ آپ پرانے نشان کو نظر انداز کرکے نئے نشان پر نظر رکھیں اور نئے نشان تک پانی پہنچنے سے پہلے پہلے گاؤں چھوڑ دیں۔ یعنی گاؤں کے لوگوں کی جان و مال کو محفوظ کرنے کے لیے نہ تو پانی کا رُخ موڑا‘ نہ ہی کوئی حفاظتی بند باندھا‘ بس خطرے کا نشان تبدیل کیا اور بڑے صاحب گاؤں والوں کو بہت بڑا ریلیف دے کر چلتے بنے۔
بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر لینا یا سیلابی ریلے کی نشاندہی کرنے والے نشان کو اوپر کر دینا‘ ایک ہی بات ہے۔ بڑے صاحب خطرے کا نیا نشان لگا کر تام جھام کے ساتھ واپس چلے گئے اور نیا نشان لگنے کے بعد گاؤں کے مکین بھی اُن کے شکر گزار اور ''واری واری‘‘ تھے کہ ان کی وجہ سے خطرہ ٹل گیا۔ گاؤں کے بے چارے لوگوں کو کیا معلوم کہ سیلابی ریلے کسی نشان یا بڑے صاحب کو کب مانتے ہیں؟ پھر وہی ہوا جو ہو کر رہنا تھا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ گاؤں کے عوام نیا نشان لگنے کے بعد مطمئن ہو کر سو گئے اور رات کے کسی پہر بے رحم سیلابی ریلا آیا اور خوابِ خرگوش میں مست سارے گاؤں کو بہا لے گیا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو بھی بڑے صاحب کے طرز پر ہی چلایا جا رہا ہے۔ اپنا اپنا مقامِ طمانیت ہے۔ خود فریبی پر آمادہ اور بضد کب کسی کے کہنے میں آتے ہیں؟ وہ تو زمینی حقائق اور عقل و دانش کی ضد ہوتے ہیں۔
سیلاب زدگان کی بحالی کی کوششوں میں ان سبھی کا ذکر بھی برائے ترغیب اس لیے ضروری ہے کہ ایسے حادثات اور سانحات تو ملک و قوم کا مستقل مقدر بنتے چلے جارہے ہیں اور سرکار تو پھر سرکار ہے۔ اس کے اپنے نخرے اور ایس او پیز ہیں۔ ایسے میں دردِ دل رکھنے والے مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں کا وجود کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں۔ آفت زدہ علاقوں میں سیلاب زدگان کی بحالی کے آپریشن میں غیر سرکاری اور عوامی مدد شامل نہ ہو تو کیسا ریسکیو اور کہاں کا آپریشن۔ خوراک اور لباس کے علاوہ روز مرہ کی ادویات کی فراہمی کے باوجود بے شمار ایسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جو دوچار دنوں کی بات نہیں ہیں۔ جن میں ان کی آبادکاری اور روزگار سمیت صحتِ عامہ بھی شامل ہے۔ سیلاب کے پانی میں سانپ اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑے کثرت سے نکل آئے ہیں۔ سانپ کے کاٹے کی ویکسین سیلاب زدگان کی اہم اور بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے مصروفِ عمل نجانے کتنے نیک دل لوگ مصیبت زدہ خلقِ خدا کے آنسو پونچھنے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ان سبھی کا ذکر تشہیر کے لیے نہیں ترغیب کے لیے اس لیے کیا جارہا ہے کہ درد دل رکھنے والے اس بحالی مشن کا حصہ بن کر دکھی انسانیت کا مداوا کرسکتے ہیں۔ بھلے اگلے سیلاب تک ہی سہی۔