مملکتِ خداداد کا اعزاز ہے یا اعجاز کہ یہاں نصیب بدلتے دیر نہیں لگتی۔ زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان کے کرشماتی سفر کے مناظر تو عوام دیکھ ہی رہے ہیں لیکن اسحاق ڈار پر تو زندان کی پرچھائی بھی نہ پڑی اور وہ قسمت کے دھنی بن کر‘ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جوڑنے آن پہنچے۔ کیسے الزامات؟ کہاں کی چارج شیٹ؟ کون سا احتساب؟ عقل حیران‘ منطق ششدر اور قانون و ضابطے شرمسار‘ منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا فرمان ہے کہ اسحاق ڈار کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے حالانکہ عوام کو ماضی میں کبھی اسحاق ڈار کے تجربے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ ڈالر کی قدر مصنوعی طور پر قابو میں رکھنے کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثر پڑتا رہا۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اسحاق ڈار اس دفعہ کوئی گیدڑ سنگھی نکالتے ہیں یا الہ دین کا چراغ رگڑتے ہیں۔ جہاں مل بانٹ کر کھانے کا رواج ہو اور وسائل کی بندر بانٹ نصب العین بنا لیا جائے وہاں کیسی اصلاحات اور کون سے اقدامات۔ کس کس کا نام لوں۔ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ ایوان بھرا پڑا ہے ایسے سیاستدانوں سے۔ سکوٹروں اور سائیکلوں سے جہازوں کا سفر ہو یا پسماندہ اور کم مایا بستیوں سے وسیع و عریض محلات کا۔ بیرون ملک جائیدادیں‘ اکاؤنٹس اور بچوں کی مہنگی تعلیم و شاہانہ ٹھاٹ باٹ جہاں ماضی کا منہ چڑاتے ہوں وہاں انقلاب اور عوامی ریلیف کی باتیں دھوکے اور جھانسے کے سوا کچھ نہیں۔ کھانے والوں نے سرکاری وسائل اور قومی خزانے کو اس طرح کھایا ہے کہ پورا پیندا ہی چاٹ گئے۔
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کررہے ہیں‘ آزادی کے بعد چند خاندانوں کے ہتھے اس طرح چڑھ جائے گا کہ عوام کو نسل در نسل انہیں بھگتنا پڑے گا۔ مملکتِ خداداد کی عمرِ عزیز کی نصف مدت تو ایک ہی خاندان کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کھوکھلا نہیں کیا۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیمِ ہند کی خاک اور خون کی دردناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے؟ سفارش اور سازش کے تحت اقتدار میں آنے والوں کا میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہونا قدرت کا وہ نظارہ ہے جو کوئی احتسابی ادارہ نہ کر سکا۔ بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر بقا اور سالمیت کی علامت یہ جماعت ایسے ایسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی جو حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک‘ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ ملکی سلامتی داؤ پر لگانے سے لے کربھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل تک‘ سبھی کچھ اتنی ڈھٹائی اور آسانی سے کر سکتے ہیں کہ غیرتِ قومی کا جنازہ ہی نکل جائے۔
یہ کیسا خطہ ہے‘ اس میں بسنے والوں نے کیسا نصیب پایا ہے‘ سالہا سال گزر جائیں‘ کتنی ہی رُتیں بیت جائیں‘ کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ لیکن عوام کی مشکلات کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح و شام‘ جا بجا اور ہر سو‘ کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بدعنوان سیاستدانوں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔ یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘ میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہو چکا ہے۔ کیا حزبِ اقتدار‘ کیا حزبِ اختلاف‘ کیا حریف‘ کیا حلیف سبھی کے دلوں میں نہ صرف لڈو پھوٹ رہے ہیں بلکہ یہ بغلیں بھی بجاتے پھرتے ہیں۔ لاکھ اختلافات کے باوجود نیب قوانین کے دھڑن تختے پر سب شاداں اور مطمئن ہیں کہ اب نیب پچاس کروڑ سے کم کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا جس کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ اربوں روپے کا ہاتھ مارنے کے بجائے پچاس کروڑ سے کم مالیت کی جتنی چاہے وارداتیں کی جا سکتی ہیں اور ویسے بھی یہاں تو بڑا سیدھا سا فارمولا ہے کہ پیسے لیتے پکڑے جائو تو پیسے دے کر چھوٹ جائو۔ نوازے ہوئے اور پروردہ افسر کی کیا مجال۔ ویسے بھی مل کر کھانے والوں نے کب کسی کو کرپشن میں سزا ہونے دی ہے۔ چوروں کو تحفظ دینے والے چوروں نے کرپشن کو جرم کے بجائے رواج تو بنا ہی ڈالا ہے۔ ان سبھی کی لوٹ مار کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ ہی کسی منصب دار نے۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف نظر آرہا ہے۔
دورِ حکومت مسلم لیگ(ن) کا ہو یا پیپلز پارٹی کا یا پرویز مشرف کا۔ درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ کون کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے‘ کیسے آیا ہے اور کس مقصد سے آیا ہے‘ یہ حقیقتیں اب ظاہر ہو چکی ہیں‘ تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ عوام دربدر اور زندہ درگور نظر آتے ہیں۔ اس منظر کا پس منظر کون نہیں جانتا۔ کسے نہیں معلوم کہ اس بخت کی سیاہی بے کس اور لاچار عوام کے منہ پر کس نے ملی ہے؟ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا کیوں مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ احتسابی عمل سے خائف کیا حریف کیا حلیف‘ سبھی باہمی مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر نیب کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ موجاں ای موجاں! بلے بلے!
بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ کسی وبال سے ہرگزکم نہیں۔ مملکتِ خداداد میں ایسے بھوکوں اور بھوک کے ماروں کی حالت دیدنی ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈوں اور حربوں سے لے کر ملکی سالمیت اور استحکام دائو پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس خطے میں پیدا ہونے والے تو پہلا سانس لیتے ہی زندگی کی آدھی بازی ہار جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا عوام اپنے اپنے بت اور اپنے اپنے صنم خانے سجائے ان سیاستدانوں کی اندھی تقلید میں اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ اب تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ محبوب رہنمائوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھائو کھلنے کے باوجود کوئی ہوش میں آنے کو تیار نہیں۔ کمال مہارت ہے کہ ان کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں ہوتی‘ انتظامی بھی ہوتی ہے۔ دونوں طرف دونوں ہاتھوں سے صفایا کرنے والے ہوں یا لوٹ مار اور بدعنوانیوں کی داستانوں کے مرکزی اور زندہ کردار‘ سب شاداں اور نازاں پھرتے ہیں۔
ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ کئی بار کوشش کی کہ ان ڈیروں اور گھیروں سے بچ کر اس لیے نکل جاؤں کہ یہ کالم درد کہیں بڑھا نہ دے۔ باوجود ہزار کوشش کے‘ اس بار بھی ناکام اور بے بس ہی رہا۔ کوئی کتنا ہی ڈھیٹ اور سخت جان کیوں نہ ہو ان حالات‘ مایوسیوں اور اندیشوں سے کیسے بچ سکتا ہے؟ کوئی ریزہ ریزہ ٹوٹ رہا ہے تو کوئی دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ کوئی قطرہ قطرہ مررہا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ سسک رہاہے۔ یہ سبھی اپنے مرنے تک اسی طرح لمحہ لمحہ‘ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ مرتے رہیں گے اور ان کے سیاسی رہنماؤں کی زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان میں آنیاں جانیاں جاری رہیں گی۔