تاحیات نااہلی سے متعلق عدالتی ریمارکس ہوں یا نیب ترامیم سے متعلق‘ دونوں ہی خبریں سیاسی اشرافیہ کے اس گٹھ جوڑ کا استعارہ ہیں جو ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ وسائل کی بندر بانٹ‘ اقتدار کا بٹوارہ اور ملک وقوم سے نت نئے کھلواڑکرنے والے ایک دوسرے کے بدترین مخالف ہونے کے باوجود اس پیج پر اکٹھے ہیں کہ لوٹ مار کے معرکے میں ہم سب ایک ہیں۔ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد کلین چٹ کے علاوہ پلی بارگیننگ کی رقم کی واپسی کا کیس بھی مضبوط ہوگیا ہے۔ گویا ریاست کو وہ تمام رقوم واپس کرنا پڑ سکتی ہیں جو بھاری کرپشن کیسز کے نتیجے میں ملزمان سے وصول کی تھیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ اسی طرح سیاستدانوں کی نا اہلی اور اہلیت کا درمیانی فاصلہ کب ختم ہوجائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں پل بھر میں نصیب بدلتے ہیں۔ صبح کے تخت نشیں شام کو ملزم ٹھہرا دیے جاتے ہیں اور شام کے ملزم رات کو تخت نشیں نظر آتے ہیں۔ مملکتِ خداداد کو یہ احتساب ہمیشہ ہی اس قدر مہنگا پڑا ہے کہ سارے ہی رنگے ہاتھوں کے باوجود سستے چھوٹ جاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کافی حد تک عدالتوں میں پیشیوں اور ریمانڈ سے لے کر قیدو بند کی صعوبتوں کے علاوہ ان تمام عذابوں سے بھی محفوظ رہی جو احتساب کے نام پر جھیلنا پڑتے ہیں۔ ان کی باری آنے کو ہی تھی کہ زیر احتساب حکمرانوں کو قوانین میں ترمیم کی اشد ضرورت محسوس ہوئی تو تحریک انصاف کے کچھ رہنما بھی ضرورت مند بن کر ان کے ہم آواز بن گئے۔ اسی طرح جب بھی سیاستدانوں کی نااہلی کی بات سنتا ہوں تو مجھے یہ سبھی معصوم اور بے قصور لگتے ہیں۔ ان بے چاروں کا بھلا کیا قصور۔ شکاری کا کام تو جال ڈالنا ہوتا ہے اب کوئی پرندہ جانتے بوجھتے اس میں خود آن پھنسے تو شکاری پر الزام کیسا۔ اصل نااہل تو وہ عوام ہیں جو انہیں نسل در نسل آزماتے اور موقع دیے چلے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو دھوکوں‘ جھانسوں کی لت پڑ چکی ہے اور وہ اسی لت میں لت پت پون صدی سے پڑے ہوئے ہیں۔
جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل‘ پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقت ور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور روا داری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے حکمرانوں کو باربار اپنے اوپر مسلط کرنے والوں سے بڑھ کر کون نااہل ہوگا۔
پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے ورنہ ہوسِ اقتدار کے ماروں کے منہ کو عوام کی آسوں کا خون لگ چکا ہے۔ ان کے بیانیوں‘ بھاشنوں‘ دعووں اور وعدوں کے پیچھے ایک ہی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آدم بو‘ آدم بو۔ نسل در نسل مخصوص خاندان نجانے کتنی نسلوں کو اپنے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھا کر یہ شوق اپنی اگلی نسل کو منتقل کر جائیں گے اور عوام کی بوٹیاں اسی طرح نوچتے رہیں گے‘ اور اپنے محبوب رہنمائوں کی پرستش اور طواف بھی برابر کرتے رہیں گے۔ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے‘ قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں جیسے دلفریب نعرے لگا کر خود فریبی کے ساتھ ساتھ اپنی بربادیوں کی داستانیں رقم کرتے رہیں گے۔ عوام الناس کو انتہائی قیمتی اور مفید مشورہ دینے تو جا رہا ہوں لیکن اس پر عمل درآمد کی امید اور امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ عوام کو مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہیے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اتر آئے سارے درشنی پہلوان اپنے لنگوٹ سنبھالتے اور سرپٹ بھاگتے نظر آئیں گے۔ عوام کو اُس مقدمے میں بھی فریق بن جانا چاہیے جو ملک و قوم کی دولت اور وسائل کو بھنبھوڑنے سے منسوب ہے۔ پیسہ عوام کا اور ملک عوام کا ہے تو عوام مدعی کیوں نہ بنیں؟ ملک اور خزانوں پر ڈاکا ڈالنے والے ہوں یا ان سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے‘ سبھی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے ڈرامے میں کون کیا ہے؟ سرکاری وسائل پر موجیں اور کلیدی عہدوں کی منڈی لگا کر گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے والے ہوں یا سستے چھوٹ جانے والے‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ خدا جانے عوام ہر بارکھلا دھوکا دینے والے ان بازی گروں کو کیوں نہیں پہچانتے۔ جانتے بوجھتے کیوں انجان بن جاتے ہیں۔
کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔ اقتدار کے جوہر آزمانے والے خاندان بھی وہی ہیں اور شوقِ حکمرانی کا شکار ہونے والے عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔ خوش حالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔ نسل در نسل رُلتے اور دربدر بھٹکتے عوام کو کبھی سوچنے کی توفیق ہی نہ ہوئی کہ ان کے خوابوں‘ امیدوں اور آسوں کا اگر قتل ہوا ہے تو اس کا کوئی قاتل بھی ہوگا۔ انہوں نے اگر پے در پے دھوکے کھائے ہیں تو کوئی دھوکا دینے والا بھی یقینا ہوگا۔ ان کے بچے اگر اچھی تعلیم اور پیٹ بھر روٹی سے محروم رہے تو اس محرومی کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہوگا۔ داد رسی اور انصاف میں کہیں رکاوٹ ہے تو رکاوٹ پیدا کرنے والا بھی ضرور ہوگا۔ ملک و قوم کا خزانہ اگر لوٹا گیا ہے تو لٹیرا بھی تو کوئی ہوگا۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم چلے آرہے ہیں تو محروم کرنے والا بھی کوئی ہوگا۔ ان کے بگڑے نصیب باوجود کوشش کے نہ سنوریں تو انہیں بگاڑنے والا بھی یقینا کوئی ہوگا۔ سڑکوں پر ناحق بہتا ہوا خون ہے تو اسے بہانے والا بھی کوئی ہوگا۔ ان کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیار اور اوزار ہیں تو کتاب چھیننے والا بھی تو کوئی ہوگا۔ کاش عوام کو کہیں ہوش آجائے۔ ہر دور میں مینڈیٹ بیچنے والوں نے کیسی منڈی لگا رکھی ہے۔ عوام کے ووٹ سے ایوانوں میں پہنچنے والوں کے سبھی فیصلے ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات میں نہ صرف لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ ان کے سبھی اقدامات بھی مائنس عوام ہوتے ہیں۔ انہیں عوام سے بس ووٹ کی حد تک سروکار ہوتا ہے کہ کس طرح ووٹ ہتھیانا ہے۔ ووٹ لینے کے بعد تُو کون تے میں کون؟
ایک بار پھر عوام کا مینڈیٹ بیچنے والے اقتدارکے لیے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم‘ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اشرافیہ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔