"AAC" (space) message & send to 7575

جیبیں بھریں یا جیلیں؟

وطنِ عزیز کو کس مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ ڈھٹائی اورسینہ زوری کے کیسے کیسے نمونے سینہ ٹھونک کر دیدہ دلیری سے اپنے اپنے داغدار اور تارتار دامن لیے نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ کسی وبال سے ہرگزکم نہیں۔ مملکتِ خداداد میں ایسے بھوکوں اور بھوک کے ماروں کی حالت دیدنی ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈوں اور حربوں سے لے کر ملکی سالمیت اور استحکام داؤ پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ آڈیو لیکس نے تُوڑی سے بھری اشرافیہ کی پنڈ اس طرح کھول ڈالی ہے کہ تنکا تنکا ہوا کے دوش پر ہے۔ عمران خان کی اپنے معتمدِ خاص اعظم خان کی آڈیو لیک کے بعد ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کی آڈیو سے رہا سہا بھرم بھی جاتا رہا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بیانیے کا چورن وہ آگ والا چورن بنتا جارہا ہے جو بچپن میں سکول کے باہر لگی ریڑھیوں پر لائن میں لگ کر خریدتے اور زبان کی نوک پر رکھ کر آگ کا مزہ لیتے۔ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عمران خان اب اپنے بیانیے سے دستبردار اور شعلہ بیانی پر معافی مانگنے کے بعد اب جیل بھرو تحریک کی باتیں کررہے ہیں۔ حالانکہ اقتدار کی بھوک میں بے حال سیاستدانوں کو جب جیبیں بھرنے کی لت پڑ جائے تو جیلیں نہیں بھرا کرتیں۔
مجہول اور سفاک سیاست ہو یا فرقہ واریت کی آگ‘ حریفوں کو میرصادق اور میر جعفر سے لے کر غدار اور کافر قرار دینے کا وتیرہ آسمان کو چھوتے شعلے بھڑکا چکا ہے۔ اس پر بیانیوں کا تیل بھڑکتی ہوئی آگ کو مزید بڑھاوا دے ریا ہے۔ ایک دوسرے کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے والے کہیں خدا کی قسم کھا کر عوام کو یقین کی گولی ہضم کروانا چاہتے ہیں تو کہیں آڈیو لیکس دلوں کے بھید بھاؤ اور ایجنڈے بے نقاب کررہی ہیں۔کہیں زبانیں پائوں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہیں تو کہیں طرزِ حکمرانی گلے کا طوق بن کر سامنے آن کھڑی ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا سیاسی اشرافیہ جمہوری حسن کے کیسے کیسے جلوے دکھانے پر بضد ہے۔
یہ کیسا خطہ ہے‘ اس میں بسنے والوں نے کیسا نصیب پایا ہے‘ سالہا سال گزر جائیں‘ کتنی ہی رتیں بیت جائیں‘ کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ لیکن عوام کی سیاہ بختی کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ روزِاوّل سے لمحۂ موجود تک‘ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ حالات کا ماتم جوں کا توں ہے۔ عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح و شام‘ جا بجا اور ہر سو‘ کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بوئے سلطانی کے مارے ہوئے سیاستدانوں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔ یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘نیت سے لے کر معیشت تک‘سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ روا داری سے وضع داری تک‘ تحمل و برداشت سے لے کر بردباری تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہو چکا ہے۔ دورِ ضیا میں لگائی گئی پنیری برق رفتاری سے خاردار جنگلی بیل میں تبدیل ہوتے ہوتے سسٹم کو کس بے رحمی سے اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئیں‘کسی کو پتا ہی نہ چل سکا اور نہ ہی کسی کو کبھی ہوش آیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی پنیری ہر دور میں قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ برسراقتدار آکریہ خاردار بیل اور پھرگھنا جنگل بنتی چلی گئی اور آج اس دور کی لگائی گئی پنیری تمام سیاسی پارٹیوں میں گھات لگا کر عوام سے خراج سمیت نجانے کیا کچھ وصول کررہی ہے۔
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کررہے ہیں‘ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کھوکھلا نہیں کیا۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیمِ ہند کے وقت خاک اور خون کی دردناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے؟ سفارش اور سازش کے تحت کوئے اقتدار میں آنے والے میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب اور بے لباس ہوچکے ہیں۔ بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر بقا اور سالمیت کی علامت یہ جماعت ایسے ایسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی جو حصولِ اقتدار سے کر طول اقتدار تک‘ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ ملکی سلامتی دائو پر لگانے سے لے کربھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل تک‘ سبھی کچھ اتنی ڈھٹائی اور آسانی سے کرسکتے ہیں کہ غیرتِ قومی کا جنازہ ہی نکل جائے۔
حصول اقتدار کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی شعلہ بیانی کرنے والے ہوں یاسات سمندر پار احمقوںکی جنت بسانے والے یا اندرونِ ملک ان کے پیروکار۔ ان سبھی کی بوکھلاہٹ‘بے چینی اور پریشانی کا اصل سبب محض اقتدار ہے جس کا ہجر اُن سے کسی صورت برداشت نہیں ہوتا۔یہ اقتدار میں ہوں تو بھلے چنگے‘ ہشاش بشاش اور ہٹے کٹے نظرآتے ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہی نت نئی بیماریوں کے علاوہ ہاتھوں پر رعشہ اور قدم ڈگمانے لگتے ہیں۔ یہ خود اختیاری کمزوری اور خود ساختہ بیماریاں ہماری سیاسی اشرافیہ کا پرانا ڈھونگ اور پرانی روایت ہیں۔ ایسے حالات میں اداروں کی طرف سے برداشت‘تحمل اور بردباری کے مظاہرے کو کمزوری تصور کرنے والے بھی احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ پون صدی کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو یہ عقدہ بھی کھلتا نظرآتا ہے کہ ان سبھی کی موجودگی میں کسی بیرونی سازش اور مداخلت اور کسی میر صادق اور میر جعفر کی قطعی ضرورت نہیں پڑی۔ ہمارے سیاستدانوں کا طرزِ حکمرانی اور طرز سیاست ہی کافی ہے۔ جہاں حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو‘ ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائی بیٹھی ہو‘ کہیں حالات کا ماتم ہو تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوں‘جہاں ذاتی رفقا اور مصاحبین پائوں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے جاتے ہوں‘ جن مشیروں کی وجۂ تقرری بتانے سے حکومت قاصر ہو‘ طرزِ حکمرانی سرکس کا سماں پیش کرتا ہو‘ جہاں حواس گم کر دینے والی ایسی ایسی خبر صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہو جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر دے‘ کہیں گورننس بانجھ نظر آئے تو کہیں میرٹ اپاہج دکھائی دے‘ کہیں قول کی حرمت پامال ہو تو کہیں عمل تضادات کا شکار‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشادکھائی دیتا ہو۔ زبانی جمع خرچ کے ساتھ گمراہ کن اعدادوشمار کا گورکھ دہندہ جاری رہے۔ ایسے میں حالات کے ماتم اور ان کی جفائوں کی داستان بیان کرنے کے لیے افتخار عارف کے ان اشعارکا سہارا بطور استعارہ لینا پڑتا ہے۔
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں‘ وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر! ترے لوگ بھی اب ترے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو سب ترے نظر آتے ہیں‘ سب ترے نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں