گلی محلوں سے لے کرچوکوں اور چوراہوں تک۔انتخابی حلقوں سے لے کر حکومتی ایوانوں تک۔سرکاری بابوؤں سے لے کرحکمرانوں تک۔ خوبصورت نقاب چڑھائے کیسے کیسے بدصورت چہرے ملک و قوم کے مقدر کوآسیب کی طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ پون صدی سے جاری عوام کی سیاہ بختی اور بدحالی کے ذمہ دار نیتِ بد سے لے کر ارادوں اور دلوں کے بھید بھاؤ کھلنے کے باوجود کیسے کیسے کھوکھلے عذر تراشتے اورمضحکہ خیز جواز گھڑتے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔حصولِ اقتدار اورطولِ اقتدار کے معرکے میں ضرورت مندوں کی فوج مختلف روپ بہروپ دھارے نجانے کب سے اقتدار کے بٹوارے کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کوذاتی ترقی اور اللوں تللوں میں اڑائے چلی جارہی ہے۔ کھانے والوں نے اس ڈھٹائی سے کھایا ہے کہ ملکی معیشت کا پیندا ہی چاٹ گئے ہیں۔بے پیندے کی معیشت کے برتن میں اقدامات اور اصلاحات کے سمندر انڈیل دیں تو بھی ایک قطرہ ٹھہرنے والا نہیں۔بخدا اسے کھانا اور بھنبھوڑنا چھوڑ دیں تو نہ کسی اقتصادی ارسطو کی ضرورت ہے نہ ہی معاشی پنڈت کی۔خدارا !دھرتی کو کھانا چھوڑ دیں۔
ہر الیکشن کو عوام کی فتح سے منسوب کرنے والی سیاسی اشرافیہ کے سامنے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ عوام اور ان کے درمیان بس ایک ووٹ کا رشتہ ہے‘ ادھر ووٹ حاصل کیا اُدھر تم کون اور ہم کون۔ ووٹ کے بدلے بے کس عوام ان سے مانگتے ہی کیا ہیں؟ حکومت انہیں اُن بنیادی ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیت انسان ان کاحق ہیں۔ عوام کیلئے بس یہی کافی ہے‘ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی نہیں مانگتے۔مگر عوام کے یہ حکمران انہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ عوام کو انسان کے مرتبے پر فائز کریں گے شاید اُس دن انہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے جن کی جستجو میں نجانے کتنی دہائیوں کا سفر کرنے کے باوجود عوام آج بھی ہلکان اور لہولہان ہیں۔ تمام عمر گنوانے کے باوجود عوام کا وہ گھر نہیں آیا جس کے سہانے خواب انتخابات میں ان کے مسیحا انہیں دکھاتے آئے ہیں۔ بیچارے بھولے عوام جنہیں بے پناہ چاہتے ہیں‘ ان کے برسرِ اقتدارآنے کے بعد پھر انہی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں پھر انہی سے نجات کیلئے منتیں مانگتے نظرآتے ہیں۔
کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے ہوں یا تقریباً چار سال گورننس کے جوہر دکھانے والے۔کس کے پلے کیا ہے؟ ان کے اقدامات سے لے کر اصلاحات اور فیصلے گلے کے طوق اور پائوں کی بیڑیاں بنتے رہے ہیں‘ اس کے باوجودخدا جانے کس زعم میں اترائے پھررہے ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اس پر کنبہ پروری سمیت نجانے کیسے کیسے اللے تللے کرنے والے یہ رہنماملک کو بالآخر اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سیاست سے لے کر اخلاقیات‘ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور تک سبھی کچھ شکستہ حال ہو چکا ہے۔ نہ احترامِ آدمیت ہے نہ تہذیب کا پاس‘ نہ کہیں برداشت ہے اور نہ ہی تحمل اور بردباری‘ نہ منصب کا احترام ہے نہ مرتبے کا لحاظ۔ قول و فعل سے لے کر زبان و بیان تک انہوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں سیاسی اکھاڑے میں کشیدگی اور تنائو بڑھتا چلا جا رہا ہے توں توں اس اکھاڑے کے اثراتِ بد گلی محلوں اور سڑکوں پر نمودار ہونے کے خطرات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
منافرت‘ تشدد‘ کینہ اور بغض میں لتھڑا ہوا سیاسی کلچر مستقل منظر نامہ بننے جا رہا ہے۔حکومت مدت پوری کرتی ہے یا نہیں‘ عمران خان کے مطالبات پورے ہوتے ہیں یا نہیں‘الیکشن قبل ازوقت ہوتے ہیں یا مقررہ وقت پر‘ہمارا سیاسی کلچر جوں کا توں رہے گا۔ زبانیں شعلے اگلتی رہیں گی‘گالم گلوچ اور کردار کشی یونہی جاری رہے گی۔تشدد اور اشتعال انگیزی کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے جاری رہے گا۔انتخابات جیتنے والے عوامی مینڈیٹ کے زعم میں تو ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگا کر اسی طرح سڑکوں پر دھمال ڈالتے رہیں گے۔لانگ مارچ نئی برانڈنگ کے ساتھ لشکر کشی کرتے رہیں گے۔بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کے کارخانے چلتے رہیں گے۔ایسے میں مایوسی اورخوش گمانی کے درمیان پنڈولم بنے عوام کی حالتِ زار پر افسوس ہوتا ہے۔
ایک بار پھر عوام کا مینڈیٹ بیچنے والے اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کوآزمانے پر مجبور نظرآتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہر گزرتا دن جہاں مایوسیوں کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہاں یہ سوال بھی روز بروز اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔آخر کب تک؟
سپہ سالار اس عزم کا اعادہ کیے ہوئے ہیں کہ کسی کو بھی سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دیں گے۔دوسری طرف صدرِ مملکت نے امریکی سازش والے بیانیے سے غیر متفق ہوکراپنی پوزیشن اور لائن بھی واضح کردی ہے۔عارف علوی صاحب نے تو تحریک انصاف کا اسمبلی میں نہ جانے کے فیصلے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے عمران خان صاحب کا مایوسی میں کیا گیا ذاتی فیصلہ قرار دیا ہے۔بقول ان کے اگر ان سے مشورہ کیا جاتا تو یقینامختلف ہوتا۔صدر ِمملکت نے تو بیانیے کی شطرنج ایک بیان میں ہی الٹ کے رکھ دی ہے۔عارف علوی صاحب کا یہ طرزِ عمل ہوشمندی اور معاملہ فہمی کا استعارہ ہے جبکہ خان صاحب کا رونا یہ ہے کہ اقتدار میںآدھا اختیار بھی نہیں ملا تھا‘ذمہ داری میرے سر پر تھی اور پاور کسی اور کے پاس۔اس تناظر میں اس سوال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وفاقی کابینہ میں دو درجن سے زائد غیر منتخب مصاحبین اور مشیروں کو شامل کرنے کافیصلہ کس کا تھا؟عمران خان روزِ اوّل سے ہی دو ٹیمیں لے کر میدانِ اقتدار میں اُترے تھے۔ ایک ٹیم منتخب نمائندوں پر مشتمل‘ جو عوام کا ووٹ لے کرآئے تھے جبکہ دوسری ٹیم کپتان کے ذاتی رفقا اور مصاحبین پر مشتمل تھی جن میں اکثریت کی اہلیت اور قابلیت تاحال نامعلوم اور کار کردگی صفر رہی۔ بیان بازی سے لے کر زبان دانی تک ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا۔ کئی ایک کی شعلہ بیانوں نے وہ کام کردکھایا کہ صاف نظرآتا تھا کہ اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ غیر منتخب ذاتی رفقا کار اور مصاحبین کے انتخاب سے لے کر اُن کے مشوروں اور فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کو کئی بار سبکی کا سامنا بھی رہا ہے۔ کپتان نے انہیں ہرسبکی کے بدلے تھپکی دے کر ان کے حوصلے بلند اور جھاکے اتارے ہی رکھے۔معروف کاروباری شخصیت کے ذاتی طیارے پرسفر کرنے والے ان کے مشیرِ احتساب کے دورۂ لاہور کے دوران پُرتعیش قیام وطعام کا انتظام اور دیگر شوق کہاں اور کون پورے کرتا تھا۔احتساب کے نام پر جو کھلواڑ سرکاری وسائل کے ساتھ کیا گیا اس کا حساب کون دے گا؟بھاری اخراجات سے بنائے گئے سبھی کیسز میں سارے ہی سستے چھوٹ گئے۔سر چڑھے سرکاری بابو ہوں یا کانوں میں زہر گھولنے والے وزیر اور مشیر‘ سبھی کی اہلیت اور کارکردگی آج بھی معمہ اور عمران خان کے لیے کڑا سوال ہے۔