ضمنی انتخابات کا میدان سج چکا۔کالم کی اشاعت تک نتائج بھی آچکے ہوں گے۔تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جانے سے انکاری اور ضمنی انتخابات کے معرکے میں پرجوش اور پُرعزم تھی۔انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ فتح کی صورت میں اسمبلی میں جائے بغیر حلف کیسے اور کہاں اٹھائیں گے۔ اصل فورم کو چھوڑ کر جلسوں اور جلوسوں میں اپوزیشن کرنے والی تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کو صاف راستہ خود فراہم کیا ہے۔ اب وہ اپنے ہی بنائے ہوئے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر چیئر مین نیب سے لے کر وہ تمام تقرریاں اور فیصلے کیے چلی جارہی ہے جواسمبلی میں تحریک انصاف کی موجودگی میں آسان مرحلہ نہ ہوتے۔ صدر علوی برملا کہہ چکے ہیں کہ اسمبلی میں نہ جانے کا فیصلہ پارٹی چیئر مین کااپنا اور اقتدار سے محرومی کے بعد پیدا ہونے والی مایوسی کا نتیجہ تھا۔ویسے بھی فتح کسی کی بھی ہو اصل ہار عوام کی ہوگی۔ سیاسی پنڈت ہوں یا دور کی کوڑی لانے والے سبھی کے اپنے اپنے قیافے اور اپنی اپنی پیش گوئیاں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومتی امیدوار کامیاب ہوا تو سیاسی منظر نامہ اس طرح ہو گا‘ کسی کا دعویٰ ہے‘ تحریک انصاف کامیاب ہوگئی تو سیاسی میدان کا نقشہ کچھ یوں ہو گا‘ سیاسی بیانیوں سے لے کر دعووں تک اخبارات ہوں یا ٹاک شوز ضمنی الیکشن ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا ہے۔ گویا ملک بھر میں سیاسی تماشے کا سماں تھا‘ یوں لگتا ہے کہ دونوں طرف کارکنوں سے لے کر اعلیٰ قیادت تک سبھی کو سب کچھ پتا تھا۔ سبھی پر اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کو عوام کی فتح سے منسوب کرنے کی دھن سوار تھی جبکہ عوام تو کبھی جیتے ہی نہیں۔
سیاسی اشرافیہ آپس میں مل بانٹ کر ہمیشہ سے ہی کھیلتے چلے آئے ہیں۔ کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حلیف کل کے حریف بن جائیں‘کچھ پتا نہیں چلتا۔اصل ہدف فتح اور اقتدار ہے۔بھلے کوئی پارٹی ہو یا کوئی بھی قائد۔نہ کوئی نظریات ہیں نہ ہی اخلاق۔عوام اور اس کی حالت زار سے سروکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کوئی مائی کا لعل ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے شہادت دی جاسکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا۔عوام کے چولہے گرم اور روٹی پوری کرنے کا کوئی سامان کیا ہو۔ اکثریت ایسی ہے کہ پاؤں ڈھکتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے‘ چادر سے سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے نظر آتے ہیں جبکہ ایسی مخلوق بھی ان حکمرانوں کی ہی رعایا ہے کہ جو چادر سے بے نیاز اور چھت سے محروم‘ کھلے آسمان تلے اس طرزِ حکمرانی کی راہ تک رہی ہے کہ جو ان کی حالتِ زار بدل سکے۔ جب تک عوام کو موافق طرز ِحکمرانی میسر نہیں آجاتااس وقت تک جنگل کاماڈل بھی کسی غنیمت سے کم نہیں جوعوام کی حالت کو سنبھالا اور سہارا دے سکتا ہو۔ زہرہ نگاہ کی شہرہ آفاق نظم یاد آ رہی ہے:
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے/سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا/درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے/ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں تو مینا اپنے بچے چھوڑ کرکوے کے انڈوں کو پَروں سے ڈھانپ لیتی ہے/سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے/سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی رو پہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں/کوئی طوفان آ جائے‘ کوئی پُل ٹوٹ جائے تو لکڑی کے کسی تختے پرگلہری‘ سانپ‘ بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں/سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے/خداوندا‘ جلیل و معتبر‘ دانا و بینا‘ منصف و اکبر/میرے اس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر۔
دورِ حکومت شریف برادران کا ہو یاچوہدری برادران کا‘ بینظیر کاہو یا پرویز مشرف کا‘آصف علی زرداری کا ہویا عمران خان کا‘ درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیزسے لے کر لمحۂ موجودتک‘ کون کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے‘ کیسے آیا ہے اور کس مقصد سے آیا ہے‘ یہ حقیقتیں اب ظاہر ہو چکی ہیں‘ تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ عوام دربدر اور زندہ درگور نظر آتے ہیں۔اس منظر کا پس منظر کون نہیں جانتا۔ کسے نہیں معلوم کہ ہر دور میں ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ پرکالک بن کرکیوں نظر آتی ہے ؟ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا کیوں مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ احتسابی عمل سے خائف کیا حریف کیا حلیف سبھی باہمی مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر احتساب کا دھڑن تختہ کرچکے ہیں۔ اگر یہ سبھی اپنے اپنے ایجنڈوں میں کامیاب اور دودھ کے دھلے بن کر ایک بار پھر کھلا دھوکا دینے کے لیے جگہ جگہ سٹیج لگائے ہوئے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ جزا اور سزا سمیت مکافاتِ عمل کے تصور سے عوام کا یقین بھی اٹھتا چلا جارہا ہے۔
جہاں حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو‘ ہر طرف مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہو‘ کہیں حالات کا ماتم ہو تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوں‘ جہاں ذاتی رفقا اور مصاحبین پائوں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے جاتے ہوں‘ مشیروں کی وجۂ تقرری بتانے سے حکومت قاصر ہو‘ عدالت ان کی گورننس پر آئے روز سوال اٹھا دیتی ہو۔ طرزِحکمرانی سرکس کا سماں پیش کرتی ہو اور اعلیٰ عدالتوں کو یہ باور کروانا پڑے کہ حکمرانوں کا معاون وہی ہو سکتا ہے جو متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھتا ہو۔ نامعلوم مہارت اور صفر کارکردگی کے ساتھ قومی خزانہ اقربا پروری اور بندہ پروری کا ناقابلِ برداشت بوجھ کب تک اٹھاسکتا ہے؟حکمران تو سارے دودھ کے دھلے بیٹھے ہیں۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک ان کے مسائل اور حالات جوں کے توں ہیں۔ نجانے یہ آسیب اس ملک و قوم کی قسمت میں کیوں ہے؟ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ حکومتِ وقت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کبھی لانگ مارچ کیے گئے‘ کبھی تحریک نجات چلائی گئی تو کبھی دھرنوں میں ایسی دھمال ڈالی گئی کہ کچھ نہ پوچھئے۔ یوں لگتا تھا کوئی نجات دہندہ اتر آیا ہے اور قدرت نے عوام کی مشکل کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اب جلد ہی عوام کے دن پھر جائیں گے۔ تبدیلی کا سونامی تو زوروشور سے آیا لیکن نہ تو عوام کے دن پھرے اور نہ ہی ان کی قسمت بدلی۔ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی سماجی انصاف اور گڈ گورننس۔ میرٹ کا جو حشرنشر ہوا اس کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ یہ سونامی بیانیے کی لہروں کے زور پرایک بار پھر راستہ بنا رہا ہے۔مردم شناسی ایسا ہنر اور ایسی صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے‘ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ وطنِ عزیز کو کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کا ہنر جانتا ہو۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حکمران مردم شناس نہیں تو عوام بھی کسی سے کم نہیں۔وہ اگر مردم شناس ہوتے توکیا یہ سبھی بار بار حکمران اور باریاں لگا سکتے تھے؟