سیاسی عدم استحکام ہو اور انتظامی بگاڑ نہ ہو‘ یہ کیسے ممکن ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا سیاسی اشرافیہ کہیں طولِ اقتدار تو کہیں حصولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ تعجب ہے سبھی سیاسی جماعتیں بیک وقت اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہی ہیں اور اپوزیشن کا سٹیج بھی لگائے ہوئے ہیں۔ ہر سُو سیاسی سرکس کا سماں ہے۔ اس منظر نامے کی اصل تماشائی اور بینی فشری انتظامی اشرافیہ خوب مزے میں ہے۔ سرکاری بابوؤں کے لیے ایسی صورتحال کسی جنت سے کم نہیں ہوتی۔ ایسا اندھیر چھایا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لینے والے انتظامی افسران بلدیاتی اداروں کے اضافی چارج سے اس قدر چارج ہو چکے ہیں کہ پکڑے ہی نہیں جا رہے۔ مراعات اور سہولتوں کے علاوہ خطیر رقوم کے فنڈز پر اپنی دنیا سنوارنے والوں نے کیسے کیسے اجاڑے ڈال رکھے ہیں۔ بس! کچھ نہ پوچھئے۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں آج بھی وہی افسران موجیں مار رہے ہیں جن کی کاریگری کے بارے میں بزدار دور میں طرح طرح کی داستانیں زبان زدِ عام تھیں۔ بزدار سرکار کے آخری دو پرنسپل سیکرٹری تو ایسے ایسے چوکے چھکے لگاگئے کہ اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اُن میں سے ایک صاحب وفاق کو پیارے ہو گئے اور اب اس کوشش میں ہیں کہ کب اُن کا داؤ لگے اور وہ کسی طرح پنجاب کے انتظامی سربراہ بن جائیں۔ جبکہ دوسرے صاحب اب بھی لاہور میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں یہ ہوش ہی نہیں کہ ان کی اصل ذمہ داریاں اور فرائضِ منصبی کیا ہے۔ انہوں نے غیرقانونی تعمیرات سے لے کر نقشوں اور کمرشل فیسوں سمیت زمینوں کی خرید و فروخت کے نظام میں ایسے ایسے نقش و نگار بنا ڈالے ہیں کہ قانون اور ضابطے بھی انہیں پہچاننے سے انکاری ہیں۔ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ شہر کی صفائی پر مامور جب ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا لیں تو شہر کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ محکمہ مال جب مال بنانے کو فرائضِ منصبی سمجھ لے تو پٹوار کا باوا آدم نرالا کیوں نہ ہو؟ اسی طرح پرائس کنٹرول کا انوکھا فارمولا ایجاد کرنے والی ضلعی انتظامیہ شاباش کی مستحق اس لیے ہے کہ چھوٹے دکانداروں کو چھوڑتی نہیں اور بڑوں کو پکڑتی نہیں۔ کارکردگی کی فائل کو ناقابلِ برداشت جرمانوں سے بھاری کرنے کے لیے وہ غریب ماری کی جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔
بزدار سرکار میں کئی لاڈلے افسران پرانی شکار گاہوں پر اور کئی نئی شکار گاہوں پر اپنی اپنی مچان ڈال چکے ہیں۔ لاہور کی ہریالی اور خوبصورتی کے ذمہ دار افسر واپسی کے بعد مزید دیدہ دلیری کے ساتھ ماضی کے اپنے ہی ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور کا نوحہ یہ ہے تو دیگر اضلاع اور دور دراز علاقوں کا پرسان حال کون ہوگا؟ اسی طرح انسدادِ ملاوٹ کے ذمہ دار افسران بھی بڑی فوڈ چینز اور فیکٹریوں سے میل ملاپ بڑھائے ہوئے ہیں اور تنوروں سمیت چھوٹے دکانداروں اور ہوٹل والوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ دکاندار اتنی کمائی نہیں کرتے جتنا جرمانوں اور کاروبار کی بندش کی صورت میں خسارہ برداشت کرتے ہیں۔ کس کس کا نام لیں‘ کس کس کا رونا روئیں۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پے دہلے پائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اردگرد دو چار لوگ نہیں بلکہ ایک ہجوم نظر آتا ہے جن کا ماضی اور سماجی و مالی پس منظر ثانوی سے بھی کم درجے کا حامل تھا لیکن آج کوئی بڑا افسر بن چکا ہے توکوئی سرکاری سہولت کار۔ کوئی تاجر رہنما ہے تو کوئی عوامی رہنما‘ کوئی سیاستدان تو کوئی بزنس ٹائیکون بن کر اترائے پھر رہا ہے۔ مال منہ کالا کرکے کمایا ہو یا ہاتھ رنگ کر‘ بنامِ دین مال بنایا ہو یا بنامِ وطن‘ سہولت کاری کی ہو یا ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلایا ہو‘ بھتہ خوری کی ہو یا کمیشن وصول کی ہو‘ دھوکہ دہی کی فنکاری ہو یا اخلاقی و سماجی قدروں کی گراوٹ‘ کسی کی دنیا اُجاڑ کر اپنی دنیا سنواری ہو یا دیگر غیرقانونی ذرائع سے دولت کمائی ہو‘ یہ سبھی کالے دَھن کے روپ بہروپ ہیں۔
اراکینِ اسمبلی ہوں یا وزرا یا پھر سرکاری افسران‘ سبھی نے تاجر رہنماؤں کو بطور انجن اپنے ساتھ لگا رکھا ہے۔ سبھی مل کر کھیلتے اور کھاتے ہیں۔ یہ تاجر اور صنعتکار ان کی ضروریات‘ ذوق و شوق اور تام جھام کا خیال رکھتے ہیں جس کے عوض یہ رہنما شٹرپاور کے اَن داتا بن کر سرکاری مراعات پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ من مانیوں کے ساتھ قانون اور ضابطے بھی توڑ ڈالتے ہیں۔ مال روڈ سے ملحقہ بڑی مارکیٹ میں غیر قانونی تعمیرات‘ سرکاری اراضی پر پلازے جبکہ اندرون شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں دکانیں اور مختصر ترین جگہ پر جان لیوا تہہ خانوں اور کثیر منزلہ پلازوں کی بھرمار اسی سہولت کاری کا نتیجہ ہے۔ اندورنِ لاہور کی مارکیٹوں میں کوئی ایک ایسا پلازہ نہیں جو قواعد و ضوابط کے عین مطابق بنایا گیا ہو۔ بڑے بڑے پلازے‘ عمارتیں اور تہہ خانے بنانے پر پابندی کے باوجود کثیر منزلہ تیار شدہ پلازوں میں تہہ خانے بنائے گئے اور ان تہہ خانوں کی تعمیر کے دوران درجنوں مزدور‘ محنت کش اور راہ گیر ہوسِ زَرّ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کچھ مارکیٹوں کو ناجائز تعمیرات اور قبضوں نے بھول بھلیاں بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ شیر خوار بچوں کے دودھ سے لے کر سر بمہر مشروبات‘ بسکٹ‘ چاکلیٹ سمیت دیگر زائد المیعاد اشیائے خورونوش پر نئی تاریخ پرنٹ کرکے انتہائی سفاکی اور ڈھٹائی سے انسانی جانوں سے کھیلنا ان کا ذریعۂ معاش ہے۔ اسی طرح ادویات کی پیکنگ‘ پرنٹنگ اور تیاری سے لے کر خرید و فروخت تک کچھ بھی سرکاری بابوؤں کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔
اپنی ہوشربا امارت اور غیرمعمولی ترقی سمیت لوٹ مار اور مار دھاڑ کی ایسی ایسی توجیہات اور وضاحتیں پیش کرتے اور اس طرح کہانیاں بناتے ہیں کہ ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پولیس نے دورانِ تفتیش اسے کہا کہ اپنے گھر فون کرو اور کسی بڑے کو گھر سے بلائو۔ چور بولا: میرے گھر کوئی بڑا نہیں۔ والدہ بیمار ہیں اور چل پھر نہیں سکتیں۔ بہن بھائی ہے کوئی نہیں اور والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ تفتیشی افسر کو اُس کے اس بیان پر شک گزرا تو اُس نے چور کو کہا کہ تمہارے باپ کی قبر کہاں ہے‘ مجھے وہاں لے چلو۔ چور تفتیشی افسر کو قبرستان لے آیا‘ ایک بچے کی قبر پر آکر ٹھہر گیا اور بولا: یہ ہے میرے باپ کی قبر۔ تفتیشی افسر نے حیران ہوکر کہا کہ یہ تو کسی بچے کی قبر ہے۔ تم اپنے باپ کی قبر دکھاؤ۔ چور نے جواباً کہا‘ میرے باپ کی قبر یہی ہے‘ دراصل وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
چلتے چلتے ایک اور بڑے سرکاری بابو کا ذکر بھی کرتا چلوں جن کے کیریئر کے آخری ایام اسیری کی نذر ہوگئے۔ گزشتہ روز ایک معاصر میں ان کا وہ شکوہ شائع ہوا جسے پڑھ کر ہر واقفِ حال میری طرح یقینا ششدر رہ گیا ہوگا۔ اس حوالے سے اگر تفصیل میں جاؤں تو ایسے چند کالم ضرور درکار ہوں گے۔ اربوں کے اثاثوں سے لے کر ان کے اُن ہم عصر افسران کا بھی ذرا پتا کریں جنہیں ذاتی عناد پر عتاب کا سامنا رہا۔ کسی کی تقرری ہو یا ترقی‘ جو صاحب کے من سے اتر گیا ‘ دربدر ہوگیا۔ اکثر افسران کا تو کیریئر بھی خراب کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ ان کے متاثرین کے حوالے سے ناقابلِ تردید مزید تفصیلات درکار ہوں تو بندہ کی طرف سے ہوم ڈِلیوری کی آفر پیشِ خدمت ہے؛ تاہم بطور استعارہ یہ شعر پیش خدمت ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ