نظرِ بد کھا گئی ہے یا اعمال۔ یہ کیسا آسیب ہے کہ مملکتِ خداداد کی عمر عزیز پون صدی گزار چکی ہے لیکن شوقِ حکمرانی کے ماروں نے اسے مستقل اکھاڑا بنا رکھا ہے۔ ہر دور میں اپوزیشن نے حزبِ اقتدار کو غیر آئینی‘ غیر جمہوری‘ غیر اخلاقی‘ غیر منطقی سمیت نجانے کیا کچھ ثابت کرنے کے لیے وہ اُدھم مچائے رکھا ہے کہ بس کسی طرح حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آجائے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں نہ کسی کو اخلاقی قدروں کا پاس رہا نہ ہی آئین و قانون کا۔ آج بھی ایک نیا میدان لگ رہا ہے۔ تحریک انصاف اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے جارہی ہے۔ صدر ایوب خان کے خلاف چینی کو بنیاد بنا کر چلائی گئی احتجاجی تحریک ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں شامل نو جماعتی اتحاد‘ صدر ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک ہو یا بینظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کی تحریکِ نجات‘ نواز شریف کے خلاف بینظیرکی لانگ مارچ کی کال ہو یا صدر پرویز مشرف کے خلاف بینظیر بھٹو کے احتجاجی جلسے ہوں‘ بطور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو آڑے ہاتھوں لینے اور شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان ہوں یا چور ڈاکو کہہ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کہنے والے شریف برادران‘ نوازشریف پر دھاندلی کا الزام لگا کر اُن کی حکومت گرانے کے لیے 126دن کا دھرنا دینے والے عمران خان آج پھردوصوبوں میں برسراقتدار ہونے کے باوجود حصولِ اقتدار کے لیے بے تاب ہوکر اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے کو ہیں۔ احتجاجی کالیں ہوں یا جلسے‘ مزاحمتی بیانیہ ہو یا شعلہ بیانیاں یہ سبھی اقتدار کے گرد ہی گھومتی ہیں جبکہ دوسری طرف ارشد شریف کی ناگہانی موت پر اتنے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں کہ جواب کم پڑ گئے ہیں۔ ایسے میں ریاستی اداروں کے بڑے عہدیداران کی مشترکہ پریس کانفرنس نے سچ کی چپ توڑ دی ہے۔
انہوں نے یہ عقدہ بھی کھول ڈالا ہے کہ رات کی تاریکی میں ملنے والے دن کی روشنی میں اداروں پر الزامات اورگمراہ کن پروپیگنڈا کے مرتکب‘ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی پیشکش بھی کرتے رہے ہیں۔ اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ جھوٹ کا پروپیگنڈا نوجوان ذہنوں پر بری طرح اثراندازہونے کے علاوہ انہیں گمراہ بھی کررہا ہے۔ ماضی میں جن غلطیوں کی وجہ سے اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں اس کے ازالے کے لیے آئندہ صرف آئینی اور قانونی کردار تک محدود رہنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا گیا کہ خواہشات کی تکمیل کے لیے آئینی اور قانونی راستہ ہی اختیار کیا جائے۔ تاہم آزادیٔ رائے اور سیاسی اختلاف بحیثیت پاکستانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ میر صادق اور میر جعفر کا استعارہ استعمال کرنے والے تنقید میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ کسی بھی قسم کے تضحیک آمیز الفاظ سے گریز نہیں کر رہے۔
لانگ مارچ کے ذریعے استحکامِ پاکستان کو لاحق خطرات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قوم کو یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ وطن عزیز کے لیے بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ اندرونی انتشار عدم استحکام کا باعث ہے؛ تاہم بوقتِ ضرورت حکومت کی درخواست پر ناگزیر صورتحال میں متعلقہ ادارے اپنا آئینی اور قانونی کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں۔ ارشد شریف کے بہیمانہ قتل پر غیر ضروری قیافوں اور قیاس آرائیوں کے بجائے تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ ارشد شریف کے قتل کی پیشگی اطلاع اور انہیں بیرونِ ملک جانے کا مشورہ دینے سے متعلق عمران خان کے بیان پر ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ تحقیقاتی کمیشن نے کرنا ہے کہ وہ انہیں بلاتا ہے یا نہیں۔ اپنے اپنے سچ کے بجائے ان پوشیدہ پہلوؤں پر بھی توجہ دلائی گئی جو اصل سچ ہے۔ گویا:
سچ بڑھے یا گھٹے‘ سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
یہ پریس بریفنگ کئی حوالوں سے بروقت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی ہے کہ ادارے مفادِ پاکستان اور آئینی حدود کے پابند ہیں۔ آرمی چیف پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ملکی اور معاشی عدم استحکام کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی؛ تاہم اداروں کی طرف سے اپنے کردار اور حدود کی وضاحت کے بعد سیاسی اشرافیہ کو بھی ہوش کے ناخن لینے کے علاوہ جوشِ خطابت میں بھی ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عوام کا جم غفیر دیکھ کر نفرت‘ انتشار اور اشتعال کی ترغیب دینے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی لگائی ہوئی آگ کیا کچھ بھسم کر سکتی ہے۔ اس ملک کی خیر مانگیں۔ سارے ٹھاٹ بھاٹ‘ تام جھام اور اقتدار کی موج مستی مملکتِ خداداد کے ہی مرہونِ منت ہے۔ ہر قیمت پر اقتدار کی تمنا رکھنے والوں کو دراصل حکمرانی کا چسکا لگ چکا ہے۔ انہیں چار دن اپوزیشن میں گزارنے پڑیں تو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اقتدار کے ہجر میں اُن کی حالت اِس قدر دیدنی ہے کہ الفاظ میں بیان ہی ممکن نہیں۔
جہاں آنے والے کل کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہ کہا جا سکے تو وہاں کہاں کا مستقبل اور کیسا استحکام۔ اب تو گلی محلوں‘ تھڑوں اور چوراہوں سے لے کر ایوانوں تک سبھی ایک دوسرے سے ایک ہی سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اچھے بھلے سیاسی پنڈت اور دور کی کوڑی لانے والے بھی ششدر اور حیران ہیں کہ ان کی پیشگوئیاں اور سیاسی ٹوٹکے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اپنے مستقبل سے پریشان عوام وطن عزیز کے مستقبل سے خوفزدہ نظر آتے ہیں جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں‘ اسی طرح فیصلے اور ان کے نتائج حکمرانوں کی نیت اور ارادوں کا پتا دیتے ہیں۔ اسی تناظر میں ماضی اور حال بھی مستقبل کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ماضی کی کھیتی حال اور حال کی کھیتی مستقبل میں کاٹنا پڑتی ہے۔ ایسی فصلوں کی کٹائی میں خدا جانے کتنی نسلوں کے ہاتھ لہولہان ہونا ابھی باقی ہیں۔ کہیں ہم کوڑھ کی کاشت تو نہیں کررہے؟ یہ سوال روز بروز اس لیے اہم ہوتا چلا جا رہا ہے کہ فصل کاٹنے والوں کے ہاتھوں سے رِستا ہوا خون کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا اور یہ سوال بھی دن کا چین اور رات کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے کہ اب کیا ہوگا؟
ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں؟ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں؟ تحمل‘ برداشت اور برد باری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو؟ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو؟ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسر اقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو؟ مفادِ عامہ نصب العین بنایا گیا ہو؟ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو؟ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے گئے ہوں؟ داد رسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں؟ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں؟ سربلند کو سرنگوں کرنے کے لیے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو؟ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو؟ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو؟ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں؟ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو؟ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو؟ مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔