اقتدار کے لیے گتھم گتھا سیاستدانوں نے پورا ملک ہی اکھاڑا بنا ڈالا ہے۔ آئین اور ضابطے عوام اور مملکت کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جب آئین کی کتاب کو حکمران اُلٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کر دیں تو یہی آئین اور ضابطے ثواب کے بجائے عذاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک و ملت کی پاسداری اور خدمت کا حلف اٹھانے والے ہی اس کی بربادی اور بد حالی کے ذمہ دار دِکھائی دیتے ہیں۔ کئی برسوں سے دہائی دے رہا ہوں کہ اگر یہ سب بچ گئے تو اس ملک میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ ہی نظام چلانے والے۔ گویا ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی اور بھاری اخراجات سے بنائے گئے کیسز میں سبھی سستے چھوٹ گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ مملکتِ خداداد پر شوقِ حکمرانی کی لت میں لت پت سبھی سیاستدان اقتدار میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی اپوزیشن بنے وہ تماشا لگائے ہوئے ہیں کہ اچھے اچھے مداری بھی ان کے آگے بونے دکھائی دیتے ہیں۔
آفرین ہے عوام کی عقل اور سمجھداری پر کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی جھوٹے بیانیوں اور جھانسوں پر آج بھی سردھنتے اور دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ سبھی کو آزمانے اور بار بار دھوکے کھانے کے باوجود انہیں دیوتا بنائے سروں پر اس طرح بٹھائے پھرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا انقلاب لے آئیں گے۔ انقلاب کے نام پر اس سے پہلے جو کھلواڑ یہ عوام سے کرتے چلے آئے ہیں اس کے بعد ان کے جھانسوں اور شعلہ بیانیوں سے متاثر ہونے والے یقینا کسی بہت بڑے مغالطے اور خود فریبی کا شکار ہیں۔ خدا جانے یہ خود فریبی کی کیسی لت ہے کہ تواتر سے لٹنے اور مٹنے کے باوجود دھتکار اور پھٹکار کو اپنی خوراک اور نصیب سمجھ بیٹھے ہیں۔ دیوانہ وار پیروکار بنے عوام اپنے اپنے صنم خانوں میں اپنے اپنے بت سجائے اس طرح مست ہیں کہ نہ انہیں اپنے حال کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا احساس۔ شخصیت پرستی کے ماروں نے ان سیاستدانوں کو نجانے کیا سمجھ رکھا ہے۔ یہ کیسے سیاستدان اور نجات دہندہ ہیں جنہیں اپنی ضرورتوں اور خرید و فروخت سے ہی فرصت نہیں۔ وہ عوام کا کیا سوچیں گے اور جن کی اپنی نہ پوری پڑتی ہو وہ عوام کے لیے کیا کر پائیں گے۔
عمران خان ہوں یا کئی برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹنے والی شریف فیملی‘ زرداری اینڈ کمپنی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن سمیت سبھی کی حکمرانی بھگتنے کے باوجود خدا جانے عوام اب کس گمان میں ہیں۔ ان سبھی کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ بھی کھل چکے ہیں۔ اس خطۂ سیاہ بخت میں بسنے والوں کا رونا کوئی ایک دن کا رونا نہیں۔ یہ رونا تو پون صدی سے جاری ہے۔ کبھی روٹی‘ کپڑا اور مکان جیسے جھانسے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے نظامِ مصطفی کے نفاذ کے دعوے۔ کبھی رہائشی منصوبوں کے بد ترین مالی سکینڈلز جس میں لاکھوں افراد نے نہ صرف عمر بھر کی جمع پونجی گنوائی بلکہ سفید پوشی کا بھرم بھی جاتا رہا‘ کوئی بیٹی نہ رُخصت کر سکا تو کسی کا بڑھاپا رُل گیا‘ کوئی کسمپرسی کے عالم میں علاج نہ کروا سکا تو کوئی مفلسی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو گیا۔ کوآپریٹو سکینڈل میں لاکھوں کے کلیم کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے والے کسی اور سیارے کی مخلوق نہیں بلکہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور حکمران ہی تھے۔ کوآپریٹو متاثرین پر ظلم ڈھانے والے چند کردار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ دیگر تمام مرکزی کردار آج بھی زندہ تو ہیں لیکن شرمندہ ہرگز نہیں۔ اسی طرح لانچیں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل اور بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے ساتھ انڈے بچے دیتی کمپنیاں اور فیکٹریاں ہوں یا ماضی کا منہ چڑاتا شاہانہ طرزِ زندگی‘ سرکاری وسائل پر بندہ پروری ہو یا شکم پروری‘ حکومتی اداروں پر مصاحبین کی موجیں ہوں یا لوٹ مار‘ سبھی رنگے ہاتھوں کے ساتھ آج بھی دامن اور ہاتھ صاف ہونے کے دعوے اور اداکاری کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کو سبز باغ دِکھانے والے یہ سبھی آج حکمران بھی ہیں اور ایک دوسرے کی اپوزیشن بھی۔ ان کی رگوں میں دوڑنے والے سفید خون کا گروپ بھلے کوئی بھی ہو‘ پلیٹ لیٹس کی تعداد چڑھی ہو یا گری ہو‘ ان کا خون گاڑھا ہو یا پتلا‘ اس کے اثراتِ بد سے عوام نہ کل محفوظ تھے اور نہ ہی آج محفوظ ہیں۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتا دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک‘ نیت سے معیشت تک‘ بدانتظامی سے بدعنوانی تک‘ بدعہدی سے خود غرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک‘ کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیا۔
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر آج تک‘ تمام حکمرانوں میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے اور وہ ہے ووٹ دینے والوں کی قدر نہ کرنا‘ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ووٹ دینے کی سزا دینا‘ یہ حکمران ایک دوسرے کے حلیف ہوں یا بدترین حریف جن عوام کے ووٹ کی بدولت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہیں تو پھر انہی عوام پر عرصۂ حیات تنگ کرتے چلے جاتے ہیں۔ انتخابی مہم میں جس عوام کے میلے کچیلے کپڑوں سے انہیں خوشبو آتی ہے‘ اقتدار میں آتے ہی انہی کپڑوں سے انہیں گھن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ووٹ کے حصول کے لیے جن کے گھروں کے چکر لگاتے نہ تھکتے ہیں‘ الیکشن جیتتے ہی سب سے پہلے اپنے ڈیروں‘ دفاتر اور کوٹھی بنگلوں کے دروازے انہی عوام پر بند کیے جاتے ہیں۔ جن کی غربت دور کرنے کے لمبے چوڑے بھاشن دیے جاتے ہیں انہی عوام کی غربت میں اضافہ کرکے ذلت اور پچھتاوے کا بونس بھی دے دیا جاتا ہے۔
حکمران کوئی بھی ہو‘ دور کسی کا بھی ہو‘ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے سے بھی دریغ نہ کرنے والے سیاست دانوں کے اقتدار کے ادوار میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے۔ وہ یہ کہ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں‘ غیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے اثراتِ بد‘ ملک کے طول و عرض میں جابجا ہر سو ناچتے نظر آتے ہیں۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقاء اور مصاحبین کے سوا کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔ ہر دور میں عوام کو گمراہ کن اعداد و شمار اور دل فریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دے کر حکمران اپنی اپنی باریاں لگا کر آتے جاتے رہے۔ یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہر دور میں سبھی حکومتی چیمپئنز کی انقلابی اور معاشی پالیسیوں نے بادلوں میں پہلے سے چھپے اور آنکھ مچولی کھیلتے معیشت کے چاندکو مکمل گرہن لگا کر ہی دَم لیا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل یہ سبھی سیاسی رہنما عوام کی ناقابلِ برداشت مشکلات میں نہ صرف مسلسل اضافے کا باعث ہیں بلکہ تا حدِ نظر اُجاڑے ہی اُجاڑے بھی انہی کی وجہ سے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی آئے‘ اپوزیشن میں کوئی بھی ہو‘ معاملات پارلیمنٹ کے بجائے کنٹینروں‘ دھرنوں‘ لانگ مارچوں‘ جلسے جلوسوں کے گرد ہی گھومیں گے۔ گمراہ کن شعلہ بیانیاں ملک کو اسی طرح انگار وادی بنائے رکھیں گی۔ اس پر ستم یہ کہ مہنگائی‘ گرانی اور بدحالی سمیت گورننس اور میرٹ کی تباہی اور بربادی کے بعد ایسا منظر بنتا چلا جارہا ہے جسے وطن عزیز کا مستقل منظر نامہ بھی کہا جارہا ہے جبکہ شخصیت پرستی کی لت میں مبتلا عوام کی خود اپنی حالت کچھ یوں ہے۔
کون پرسانِ حال ہے میرا
زندہ رہنا محال ہے میرا
کالم اختتام پر ہے کہ اسی دوران عمران خان کے قافلے پر فائرنگ کی افسوسناک خبر نے سانحہ کارساز کا منظر چشمِ تصور میں دہرا ڈالا۔ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس اور گنڈا پور کی مبینہ آڈیو کی بازگشت کانوں میں گونج رہی ہے‘ لانگ مارچ میں خونریزی! ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی۔