حکمران اور عوام‘ اقبال ڈے کی چھٹی منانے کے بعد اپنے اپنے معمولات کی طرف لوٹ چکے ہیں؛ تاہم علامہ اقبال خلدِ بریں سے مملکتِ خداداد میں لگا تماشا دیکھ کر ضرور بے چین اور ملول ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح سے بھی شکوہ کیا ہو کہ یہ کیسا پاکستان بنا ہے؟ میں نے ایسے پاکستان کا خواب تو نہیں دیکھا تھا۔ جواب میں قائداعظم بھی بس تاسف سے ہاتھ ہی ملتے ہوں گے کہ میرے بعد وطن عزیز کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ عوام پون صدی سے جن کی بوئے سلطانی اور شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھتے چلے آ ئے ہیں‘ اب اُن کی نسلیں یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا اقتدار کی لت کو اگلی نسل میں منتقل کرکے عوام کو اپنی رعایا سمجھ کر یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ اکثر احباب اور قارئین کا شکوہ ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بھی بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ میں مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتا ہوں کہ ہر طرف اندھیرا ہی چھایا دکھائی دیتا ہے۔ میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں بس ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔
کیسے کیسے مسیحا آئے اور عوام کا درد بڑھانے کے بعد اپنی دکان بڑھا گئے‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے رہے ان سے نجات کی دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا انہی سے پناہ مانگتے پھرے۔ انسانی حقوق کے علمبردار غیر انسانی معاشرے میں انسانی حقوق کی بات کرتے کس قدر کھوکھلے اور نمائشی دکھائی دیتے ہیں۔ طرح طرح کی دکانیں سجائے اپنی دنیا سنوارنے والے حکمران ہوں یا حقوقِ انسانی کا دھندہ کرنے والے‘ سبھی اپنی ضرورتوں کے غلام اور بے حسی کا کوہ ہمالیہ بنے کس ڈھٹائی اور بے حیائی سے عوام کو ان حقوق سے طے شدہ پلان کے تحت محروم رکھے ہوئے ہیں جو بحیثیت انسان ان کا بنیادی حق ہے۔ حکمرانوں اور سرکاری بابوؤں سے گپ شپ اکثر مباحثے کا رنگ اس لیے پکڑ جاتی ہے کہ وہ اپنی نامعلوم گورننس اور نام نہاد مہارت پر مبنی الفاظ کا گورکھ دھندہ استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتے۔ میرا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ عوام اپنی ضرورت سے زیادہ بھلا کیا مانگتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے حکومت انہیں اُن بنیادی ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیت انسان ان کا حق ہیں لیکن وہ اپنی جگہ سچے اور دھن کے پکے ہیں۔ انسانی حقوق تو انسانوں کیلئے ہوتے ہیں‘ ہمارے مسیحا اور نجات دہندہ حکمران انہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ عوام کو انسان کے مرتبے پر فائز کردیں گے‘ اس دن شاید انہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے جن سے وہ روزِ اول سے محروم ہیں۔ میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اجالا کیسے لکھ دوں‘ کالے کرتوت اور اندھیر نگری میں پھیلے ان اندھیروں کو اجلا سویرا کیسے کہہ سکتا ہوں؟ میرے اس جواب پر وہ کہتے ہیں کہ تمہاری یہی باتیں کتابی اور نان پریکٹیکل ہیں۔ تم سسٹم کے ساتھ مل کر چلو تو تمہیں نہ ایسے خیالات آئیں گے اور نہ ہی تم حالاتِ پریشاں سے پریشان ہوا کرو گے۔ میں جواباً ان کی اس پیشکش پر تین حرف بھیج دیتا ہوں۔
ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں جو صاحبِ اقتدار و اختیار ہو اور گردن جھکا کر چلتا ہو۔ انگلی اٹھا کر جس کی شہادت دی جا سکتی ہو کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر کے عوام کے مینڈیٹ کا مان رکھا۔ یہ کسی آسیب کا سایہ ہے یا کوئی نحوست ہے کہ یوں لگتا ہے ہماری زمین قہر زدہ ہو چکی ہے۔ زمین قحط زدہ ہو تو امید اور بہتری کا امکان بہرحال رہتا ہے لیکن ہماری زمین کا کیس قحط کا نہیں قہر کا ہے۔ قحط زدہ زمین سے بہتری کا گمان کیا جا سکتا ہے لیکن قہر زدہ زمین سے امکان اور امید کی توقع نہیں لگائی جا سکتی۔
کرموں جلے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے‘ انہیں ملیا میٹ کیا‘ وسائل کو لوٹا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ بندہ پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ جب سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک نہ انصاف ہو سکا‘ نہ گورننس پروان چڑھ سکی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہو سکا۔ ہر دور میں حکمرانوں کو ماضی کے حکمرانوں کی طرح نا اہل پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار میسر آتے رہے ہیں۔ ایسی ایسی خبر صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو اعصاب سے لے کر نفسیات تک سبھی پر نجانے کون کون سے ڈراؤنے حملوں کا باعث بنتی ہے۔
اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور خون کے پیاسے دکھائی دینے والے بھی اپنی اپنی خواہشات حسرتوں اور ضرورتوں کے مارے ہیں۔ مملکت خداداد کا جو حشر نشر یہ کر چکے ہیں‘ اس کا مداوا اور ازالہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے‘ اس سوال کا جواب ملک کے طول و ارض میں شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے؛ تاہم تباہی اور بربادی کے سبھی ذمہ دار ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا تے ہیں تو مولانا جلال الدین رومی کا یہ قول بے اختیار یاد آجاتا ہے کہ رونے دھونے اور شکوے شکایتیں کرنے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ جب ہرکوئی کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کررہا ہو تو پھر یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا تھا‘ اس لیے کشتی ڈوب گئی۔ سبھی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار اور ایک دوسرے کی اپوزیشن کے نام پر پورے ملک کو انگار وادی بنائے ہوئے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ یہ سبھی سیاستدان خشک تُوڑی کے ڈھیر پر بیٹھے آتش بازی کے کرتب دکھا رہے ہیں۔ کب کوئی چنگاری تُوڑی کے ڈھیر پر آگرے اور کب سب کچھ جل کر خاکستر ہو جائے۔ کسی کو بھی حالات کی اس نزاکت اور سنگینی کا کوئی احساس ہے نہ کوئی ہوش۔ ہوسِ اقتدار میں ہوش تو یہ سبھی کب کے گنوا چکے ہیں۔ ان کی طرزِ حکمرانی ہو یا طرزِ سیاست‘ دونوں ہی عوام کے لیے مسلسل عذاب بن چکی ہیں۔ گورننس بانجھ اور میرٹ تار تار ہو چکا ہے۔ سسٹم پولیو زدہ اور امن و امان کی صورتحال الامان‘ الحفیظ ہو چکی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت کے عوام ڈاکوؤں‘ رہزنوں اور چوروں کے رحم و کرم پر ہیں جبکہ تختِ پنجاب کے حکمران پولیس کو ذاتی خواہشات اور سیاسی مقاصد کے حصول میں اس قدر الجھا چکے ہیں کہ پولیس افسران صرف ان کے جوگے رہ گئے ہیں۔ عام آدمی کے لیے اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوگی کہ دن دہاڑے کوئی بیٹی کا جہیز لوٹ کر لے جائے۔ تنکا تنکا جوڑ کر بنائے آشیانے پر کوئی طاقت کے نشے میں چور قبضہ کرلے۔ گلیوں اور چوراہوں پر راہ گیر گن پوائنٹ پر لوٹ لیے جائیں۔ ڈاکو راج سے خوفزدہ عوام نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ گھر سے باہر۔ تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر دیگر سرکاری اداروں میں عوام کے لیے دھتکار‘ پھٹکار اور ذلتِ جاریہ کے مناظر جاری و ساری ہیں لیکن ضرورتوں کے غلام حکمران بقائے اقتدار کے لیے ایسے ایسے سمجھوتے کررہے ہیں جو ان کی طرزِ سیاست اور خاندانی روایت کے برعکس ہیں۔ خدا خدا کرکے دورِ بزداریت سے جان چھوٹی تھی۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسران کی پوسٹنگ سے لے کر دیگر پیداواری سیٹوں کی بولیاں اور ریٹ کھولنے کا دور ختم ہوا تھا لیکن تخت پنجاب کی تبدیلی کے بعد طرزِ حکمرانی کا وہ روپ سامنے آیا ہے کہ عوام برملا کہتے ہیں کہ یہ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی نکلے۔