اے ربِ کعبہ!تیرے خزانے میں کیا کمی ہے۔توعَلَی کُل شَیء قدیرہے‘ دینے پرآئے تو کیا نہیں دے سکتا۔تیری مرضی کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہل سکتا۔معجزے اور کرشمات سبھی تیرے حکم کے تابع ہیں۔مملکت خداداد میں بسنے والوں کے بگڑے نصیب مزید بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ذاتی خواہشات کے غلام اقتدار کی بھوک میں دیوانہ وار پھرتے نظرآرہے ہیں۔اپنے اپنے ایجنڈوں اور دھندوں سے مجبور دھرتی کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اسے بیان کرنا چاہوں تو الفاظ بھی ہاتھ باندھے زار و قطار روتے نظرآتے ہیں کہ ہم ایسے حالاتِ پریشاں کی ترجمانی سے قاصر ہیں۔ طرزِ حکمرانی ہو یا طرزِ سیاست دونوں ہی مفادات میں اس طرح لتھڑے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے سے آگے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔عوام تو سبھی کی حکمرانی برابر بھگت چکے ہیں۔پھر یہ سارے کس مغالطے اور بھول کا شکار ہیں۔کبھی تاریخ اسلام کے کسی واقعے سے استعاروں کااستعمال کرکے اپنے سیاسی ایجنڈوں کو حق و باطل کا معرکہ ثابت کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں‘ کبھی ریاست ِمدینہ کی مثالیں دے کر یہاں کے ناقابلِ تردید زمینی حقائق چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔شوقِ حکمرانی کے مارے وطنِ عزیز کوایسے حالات سے دوچار کرچکے ہیں کہ عوام کو اب ان کے وعدوں پر اعتبار رہا ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل پر۔ اے رب العالمین‘ یہاں قدم قدم پر جعل ساز مسلط ہیں‘ ہول طاری‘ مصائب منتظر اور عفریت ایستادہ ہیں۔ ایسے میں سیاہ بخت اور بے کس عوام کہاں جائیں؟ نتیجتاً وہ راتوں کو لٹتے ہیں‘ دن دیہاڑے دبوچ لیے جاتے ہیں‘ ان کی جان‘ مال اور عزت کو ایک تیرا ہی سہارا ہے۔ پاؤں ڈھکتے ہیں تو سر ننگا‘سرڈھکتے ہیں تو پاؤں ننگے۔ جو حشر مملکتِ خداداد کا ہو چکا ہے اس کے بعد تاخیر‘ انتظار اور کتنا انتظار؟ تو اَلصَّبْور بھی ہے‘ اَلمْقَدَّم بھی ہے اور اَلمْوخَّر بھی۔ اے رب تْو اَلعَدَل بھی ہے۔ عدل بھی تیری ہی ذات سے منسوب ہے۔ تیرے بلاتاخیر عدل کی صفت کے اطلاق کی بہت ضرورت آن پڑی ہے۔
یہاں پل بھر میں نصیب بگڑتے اور بنتے ہیں۔ صبح کے تخت نشیں شام کو کٹہروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ویسے کیسے کیسے اور کیسے کیسے ایسے ویسے بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ ہماری سیاسی تاریخ ان کھیل تماشوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ اور بات کہ سیاسی رہنماؤں کے یہ کھیل تماشے عوام کے لیے کسی کھلواڑ سے کم نہیں۔ اگر یہ سبھی رہبر اور نجات دہندہ ہیں تو خائن‘ لٹیرے اور باعثِ عذاب کون ہیں؟ اگر ان کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں تو ملکی خزانے اور وسائل پر ہاتھ کی صفائی کون دکھا گیا؟ عوام بنیادی ضروریات سے محروم چلے آرہے ہیں تو ان کے ملکی اور غیر ملکی اثاثے اور انڈے‘ بچے دیتے کاروبار ہوشربا اور ناقابلِ فہم ترقی کا استعارہ کیسے بن گئے؟ ان کا ماضی موجودہ سماجی و معاشی استحکام کی چغلی کیوں کھائے چلا جارہا ہے؟ عوام غریب سے غریب تر اور یہ سبھی امیر سے امیر تر ہونے کے ریکارڈ کیسے توڑتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کی بدحالی ہی میں ان کی خوشحالی پوشیدہ کیوں ہے؟ سبھی سمجھوتے اور ذلتیں عوام کے نصیب میں کیوں؟ شوقِ حکمرانی کے مارے سبھی سیاسی رہنما عوام سے ہی قربانی کیوں مانگتے ہیں؟
احترام آدمیت سے لے کر غیرتِ ملی تک نجانے کیا کچھ تار تار کرنے والی اشرافیہ کا جمہوری حسن بدبودار اور بھیانک ثابت ہو چکا ہے۔آئین اور حلف سے انحراف ہو یا ضابطوں اور اداروں سے تصادم‘ گورننس اور میرٹ کی درگت سے لے کر اخلاقیات کی پامالی تک‘ جھوٹ کا ڈھول بجا کر سچ کی آواز دبانے سے لے کر جائز و ناجائز کا فرق مٹانے تک‘ حرام حلال سے بے نیاز ہوکر سرکاری وسائل کو ناجائز استعمال کرنے سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ تک‘ صادق اور امین کے معانی الٹانے سے لے کر قومی خزانے پر شکم پروری کرنے تک‘ مظلوم کی آواز دبانے سے لے کر ظالم کی سربلندی تک‘ داد رسی اور انصاف کے لیے دربدر بھٹکنے والوں کی دھتکار سے لے کر ان کو خود سوزیوں پر مجبور کرنے تک‘ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک‘کسی بھی حد سے گزر جانے والے سبھی حکمرانوں نے مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں یہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہ ساری موجیں‘ سبھی تام جھام اور اقتدار کے سارے مزے ملک و قوم ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ اے خالق و مالک! بس تیرا ہی آسرا ہے۔یہ سیاسی اشرافیہ ملک کو تباہی کے اس دہانے پر لے آئی ہے کہ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ گویا یہ مملکتِ خداداد نہیں کوئی وراثتی حویلی ہے جس کے حصول کے لیے یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا ہیں۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کے لیے ان کے پاس کیسے کیسے ڈھکوسلے اور کیسے کیسے گھڑے گھڑائے جواز اور حیلے موجود ہوتے ہیں۔ اپنی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں پیش کیے جانے والے سبھی عذر ان کی بے بسی اور نالائقی کا کھلا پتا دیتے ہیں۔اے دو جہانوں کے مالک عوام کو بھی وہ بصیرت عطا فرما جو اِن سبھی کی ظاہری اور پوشیدہ شعبدہ بازیوں سمیت نیت اور ارادوں کو جان سکیں۔ ان کے اصل چہرے پہچان سکیں۔سب کچھ جانتے بوجھتے بھی عوام خدا جانے کس بھول اور مغالطے کا شکار ہیں۔ایک بار پھر الیکشن کے مطالبے کے ساتھ نئی بساط کی تیاریاں ہیں۔ اے رب العالمین‘تو ان سبھی کے دلوں کا حال اور بھید بھاؤ جانتا ہے۔اس بار تو ایسا معجزہ کر کہ سارے داؤ پیچ‘ حربے اور تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں۔دھرتی سے بے وفائی اورآئین اور حلف سے انحراف کرنے والے اپنے کئے کی پاداش میںدھر لیے جائیں۔بساط بچھانے والوں کی ایسی بساط الٹے کہ وہ دوبارہ پلٹ کرعوام کو دھوکا دینے کا تصور بھی نہ کریں۔
ایسے میں سچی مچی کے نازک دور سے گزرتے ہوئے ملک کے نئے سپہ سالارجنرل عاصم منیر سے بجا طور پر توقع ہے کہ ماضی کے ادوار میں در پیش ضرورتوں کی دلالی کرنے والے سماج سیوک نیتا ؤں یا سہولت کاری کے جوہر دکھا کر شیشے میں اتارنے والے موقع پرستوں کو اس بارکھلواڑ نہیں کرنے دیں گے کہ جو اپنی دنیا سنوارنے کے لیے جابجا بربادیوں اور بدنامیوں کے کوہ ہمالیہ بناتے چلے جائیں۔اہم شخصیات سے مخصوص مراسم کا تاثر اجاگر کرنے والے کاریگر ہوں یاموافق اور غیر موافق کی تھیوری کا چورن بیچنے والے‘یہ سبھی ضرورت مندوں کا وہ جتھا ہے جو ہر دور میں کہیں نہ کہیں اپنا جگاڑ لگا ہی لیتا ہے۔جب تک یہ ضرورت مند سسٹم کا حصہ رہیں گے مفاد پرست انواع واقسام کے داؤ پیچ سے سسٹم کو ڈرائیو کرتے رہیں گے۔ کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیر پھاڑ کر رہا ہے۔کسی کا طرزِ حکمرانی خون پینے کے مترادف ہے تو کوئی منافرت پھیلا کر خون چوس رہا ہے۔ کوئی وسائل کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو کوئی ذاتی فائدوں کے لیے مسائل سے دوچار کیے چلا جا رہا ہے۔ کوئی فکری طور پر تباہ و برباد کررہا ہے تو کوئی نفسیاتی طور پر پارہ پارہ۔ اس زمین پر پھرتے یہ سبھی کردار وہ خون شریک بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو جائیں تو خون دھرتی کا ہی پیتے ہیں۔بے بس اور نڈھال عوام کی حالت ِزار کی عکاسی کے لیے ایک شعر پیش خدمت ہے۔
زندگی اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا