جنرل عاصم منیرکے کمان سنبھالنے کے بعد نہ صرف ملک بھر میں جاری مباحثے کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ دور کی کوڑی لانے والوں اور سیاسی پنڈتوں کو بھی خاصا آرام آچکا ہوگا۔ عمران خان اپنی کمان سے ایسے ایسے تیر نکال رہے ہیں جو حالات کو ایک نئے ڈیڈ لاک کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ تحریک انصاف صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا وفاقی حکومت گورنر راج لگانے کا کوئی جگاڑ لگانے میں‘ دونوں صورتوں میں سیاسی بحران اور بدانتظامی یقینی ہے۔ تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کے لیے اس قدر ڈٹ چکی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار سے دوری سہی نہیں جارہی۔ انتخابات بروقت ہوتے ہیں یا قبل از وقت‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سبھی جدوجہد اور بھاگ دوڑ محض اقتدار کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ انتخابات اس سے پہلے بھی ہوتے رہے رہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ یہ سبھی آتے جاتے اور اپنی اپنی باریاں لگاتے رہیں گے۔ عوام اسی طرح اپنا سر پیٹتے خاک اڑاتے رہیں گے۔ دعووں اور جھانسوںسے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والوں نے کب مینڈیٹ کی خرید و فروخت اور اپنی ضرورتوں کی دلالی نہیں کی۔ جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں۔ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو۔ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملدرآمد ہوا ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسر اقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفادِ عامہ نصب العین بنایا گیا ہو۔ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا گیا ہو۔ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے گئے ہوں۔ داد رسی کے لیے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں۔ سربلند کو سرنگوں کرنے کے لیے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا گیا ہو۔ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو۔ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں۔ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو۔ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا گیا ہو۔ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابلِ تردید تلخ حقائق اور مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟
مملکتِ خدادا د کے حالات اور منظر نامہ اس قدر پریشان کن ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اقبال کی روح بھی پریشان یقینا یہ کہتی ہو گی کہ میں نے ایسے ملک کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جس ملک کا خواب دیکھا تھا وہ تو چند سالوں میں آدھا گنوا دیا۔ باقی ملک کو برباد کرنے والے اس طرح بھنبھوڑے چلے جا رہے ہیں کہ نہ پاکستان وہ رہا نہ نظریۂ پاکستان۔ نیتِ بد اور نظرِ بد دونوں ہی ان سبھی کو کھاتی چلی گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ کھانے والے تو اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور اس کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑا۔ کوئی ڈپریشن ہے یا کوئی ناسٹلجیا‘ اور یہ خیال تو دل کا کام تمام کیے دیتا ہے کہ اس دھرتی پر کیسا کیسا ادھم اور کہرام مچایا جا رہا ہے۔ ان کیفیات میں پیدا ہونے والے وسوسے ہوں یا واہمے‘ یہ سبھی کیسے کیسے اندیشوں اور خدشات سے دوچار کر ڈالتے ہیں۔ بے یقینی کی تاریکی اور اندھیروں کے ڈیروں نے ماحول اس قدر سوگوار اور مایوس کن بنا ڈالا ہے کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے یا الٰہی! بس تیرا ہی آسرا ہے۔ اس ملک میں بسنے والوں نے اسے ایک ایسی بستی میں بدل ڈالا ہے جہاں سبھی اپنی اپنی مستی میں جی رہے ہیں۔ کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ‘ کیا حاکم کیا محکوم‘ کیا آجر کیا اجیر‘ سبھی اس دھرتی سے خدا جانے کون سا خراج وصول کر رہے ہیں۔ انہیں اس سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ کوئی خدائی قہر ہے۔
یوں لگتا ہے کہ یہ اقتدار کے لیے نہیں‘ اپنے باپ دادا کی جائیداد کے لیے لڑے جا رہے ہیں۔ اقتدار کو اپنا حق سمجھنے والے حقوق العوام کے معاملے میں صفر پائے گئے ہیں۔ یہ جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے مینڈیٹ دینے والی رعایا کو کبھی ثانوی حیثیت بھی نہ دی۔ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے اس گورکھ دھندے کو اس طرح پروان چڑھایا کہ آئین اور قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک‘ سب زمیں بوس ہوتا چلا گیا۔ کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی بد ترین بحران کے بعد انگار وادی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جمہوریت کے حسن کو مزید چار چاند لگانے کے لیے عوام کو مزید صدمات بھی ملتے رہیں گے۔ ایسے میں دھرتی بھی غم اور صدمے سے نڈھال ہو کر صرف بین کرتی ہو گی کہ اس کے سینے پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں۔ صدمات اور سانحات ہیں کہ عذابِ مسلسل کی طرح نجانے کب سے مسلط چلے آ رہے ہیں۔ اب تو کہیں آسمان گرتا ہے اور نہ ہی زمین پھٹتی ہے۔ آسمان کہاں کہاں گرے اور زمین کہاں کہاں سے پھٹے؟
اقتدار تو کسی ایک فریق کو ملنا ہی ہوتا ہے۔ الیکشن کے بجائے اگر آکشن کروا لی جائے تو انتظامی مشینری کو متنازع ہونے سے بھی نہ صرف بچایا جا سکتا ہے بلکہ جگہ جگہ لگی منڈی میں صبح شام اپنے اپنے اراکین کی گنتی اور تعداد پوری کرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے اور اراکین کی خریدو فروخت پر خرچ ہونے والا کالا دھن بذریعہ بولی سرکاری خزانے میں جمع ہونے سے سفید بھی کروایا جا سکتا ہے۔ جو زیادہ بولی لگائے‘ اسے اقتدار منتقل کردیا جائے اور ایک طے شدہ مدت کے بعد دوبارہ بولی لگا کر انتقالِ اقتدار کے عمل کو دہرایا جا سکتا ہے۔ اس طرح انتخابات پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور ہارس ٹریڈنگ سے آنے والی خطیر رقم کی لاگت قومی خزانے کا حصہ بن کر معیشت کو سنبھالا دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ایک دوسرے پر سنگین اور شرمناک الزام لگانے کے بجائے سیاستدان آپس میں پول کرکے‘ بولی بول کر اقتدار حاصل کرکے حصہ بقدرِ جثہ کے فارمولا کے تحت اقتدار کا بٹوارہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور آئے روز کے سخت مطالبات سے بھی جان چھوٹی رہے گی۔ گویا جو لگائے گا وہی حکومت چلائے گا۔ نہ وضاحتوں کی حجت نہ روٹھوں کو منانے کا جھنجٹ۔ نہ کسی کو خریدنے کی ضرورت۔ نہ کسی کو استعفے پر آمادہ کرنے کے ترلے۔ الغرض ان سبھی بدعتوں سے مکمل جان چھوٹنے کے علاوہ صادق اور امین کا ڈھونگ رچانے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بس انتقالِ اقتدار الیکشن کے بجائے آکشن کے ذریعے کرنا ہوگا۔ کرسٹل کلیئر اور صاف شفاف بولی کے بعد نہ کسی کو بولنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی الزام تراشی کا۔ نہ جانے کتنے بکھیڑوں اور بھاری اخراجات سے جان چھوٹنے کے ساتھ ساتھ ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ بھی مندے کا شکار ہو جائے گا۔ اصطبل ویران اور برائے فروخت اراکین سستے ہو جائیں گے۔ نہ ان کے پاس پیسے ہوں گے نہ یہ موج مستیاں اورسیرسپاٹے کرتے پھریں گے۔ لگژری گاڑیاں ہوں گی اور نہ وسیع و عریض محلات میں نوکروں کی فوج۔ اسمبلی کے اجلاس کے عوض ملنے والے الائونسز اور اعزازیے پر گزارا کرنا یقینا مجبوری تو ہوگی ہی لیکن ذاتی کاروبار اور پیسے سے اللے تللے کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ہوگا۔ نہ مال مفت ہوگا نہ دل بے رحم ہوگا۔