چودھری پرویز الٰہی نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں عمران خان صاحب کے قمر جاوید باجوہ صاحب کے حوالے سے اختیار کیے گئے رویے پر جس شدید ردِ عمل کا اظہار کیا‘ وہ تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا طرزِ حکمرانی اور طرزِ سیاست جہاں اتحادیوں سمیت خود تحریک انصاف کے لیے آزمائش رہا ہوگا‘ وہاں اب تحریک انصاف کے نت نئے اعلانات اور فی البدیہہ شعلہ بیانی مزید کڑے حالات سے دوچار کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی کو بچانے کے لیے تحریک عدم اعتماد اور گورنر کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مراسلہ کارگر ثابت ہوا تو عمران خان اعلانات کے بادشاہ بن کر رہ جائیں گے۔ بظاہر عمران خان کے اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے آگے بند باندھا جا چکا ہے لیکن مملکتِ خداداد کی سیاست اصولوں‘ وضع داری اور اخلاقیات سے کوسوں دور ہونے کی وجہ سے ایسا بے رحم کھیل بن چکی ہے جس میں ملک و قوم کے مفادات ہوں یا قانون اور ضابطے‘ سبھی کو فراموش کرکے صرف اہداف اور خواہشات کو نصب العین بنا لیا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے کھلواڑوں سے بھری پڑی ہے۔ عوامی مینڈیٹ کو تماشا بنانے سے لے کر خرید وفروخت کے لیے منڈی لگانے والوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے لے کر عوام کی حالتِ زار سے بے نیاز سیاستدانوں کو صرف اقتدار چاہیے۔ ریاست کے استحکام سمیت آئین و قانون کے علاوہ گورننس اور میرٹ کسی دور میں کسی بھی حکمران کی کبھی ترجیح نہیں رہے۔ بس اقتدار چاہیے۔ حصولِ اقتدار کے لیے خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب کہنے سے لے کر وفاداریاں اور پارٹیاں بدلنے اور حلیفوں کو حریف اور حریفوں کو حلیف بنانے والے اپنے قول اور زبان سے پھرنے کیلئے طرح طرح کی توجیہات اور جواز پیش کرتے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
چودھری پرویز الٰہی عمران خان کی طرزِ سیاست سے پہلے ہی نالاں نظر آتے تھے لیکن انہیں ساتھ بٹھا کر قمر جاوید باجوہ صاحب کے خلاف بیان بازی پر چودھری صاحب تو جیسے پھٹ ہی پڑے‘ جس کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے پورا سچ باور کرایا ہے کہ باجوہ صاحب خان صاحب کو کہاں سے اٹھا کر کہاں لے آئے تھے۔ عمران خان نے آئینہ دکھانے والوں کوہمیشہ باہر کا رستہ ہی دکھایا ہے لیکن اس بار عمران خان کو یہ زحمت ہرگز نہیں کرنا پڑے گی کیونکہ مسلم لیگ (ق) اپنے اگلے راستے اور منزل کا فیصلہ شایدکر چکی ہے؛ تاہم چودھری پرویز الٰہی کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے وضع داری کو مصلحتوں اور مجبوریوں کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے عمران خان کو احسان اور اس کی اہمیت کو باور کرانا زیادہ اہم سمجھا؛ تاہم خان صاحب کی اپنی پالیسی ہے اور (ق) لیگ کی اپنی پالیسی۔ حالات کوئی بھی رخ اختیار کر جائیں‘ چودھری پرویز الٰہی دونوں صورتوں میں ضرورت رہیں گے۔
اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خا ن نے ملک بھر میں احتجاجی جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ پارلیمنٹ کو خیرباد کہہ کر سڑکوں اور چوراہوں پر میدان لگا کر عوام کو برابر بتاتے چلے آرہے ہیں کہ ان کی حکومت کس طرح ختم کی گئی۔ سازش میں کون کون شریک تھا۔ اس کے بینی فشریز کون کون ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خان صاحب کبھی وقت نکال کر قوم کو یہ بھی بتائیں کہ وہ اقتدار میں آئے کیسے تھے۔ الیکٹ ایبلز کو جناب کی طرف راغب کرنے سے لے کر حکومت سازی کے کٹھن اور دشوار گزار مراحل کو موافق اور سازگار بنانے میں کس کا کیا کردار تھا۔ ان ناقابلِ تردید حقیقتوں کو فراموش کرکے خدا جانے وہ یہ گمان کیوں کر بیٹھے کہ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی اور حکومت سازی صرف ان کی سیاسی مقبولیت کا نتیجہ تھا۔ آفرین ہے‘ مملکتِ خداداد میں بسنے والے عوام کو کسی دور میں بھی طاقت کا سر چشمہ تسلیم نہیں کیا گیا‘ نہ ہی اُنہیں وہ تمام حقوق دیے گئے جو بحیثیت انسان ان کا بنیادی حق ہے‘ اُنہیں صرف رائے دہی کا حق حاصل ہے‘ اس کے بعد تو کون اور میں کون؟ اُس کے بعد عوام کا دیا گیا مینڈیٹ سیاستدان بے شک کسی بیچ چوراہے میں بیچ ڈالیں یا ایوان میں بیٹھ کر اپنی ضرورتوں اور خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ عوام اس حقیقت کو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ووٹ لینے کے بعد ان کا سیاسی رہنما انہیں کچھ نہیں دے گا۔ اس کے باوجود وعدوں اور دعووں کے جھانسوں سے لے کر بیانیوں کی پھکی برابر ہضم کیے چلے جارہے ہیں۔ ملک و قوم کے بد سے بدتر ہوتے حالات کی ذمہ دار جہاں سیاسی اشرافیہ اور فیصلہ سازہیں‘ وہاں عوام بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ باریاں لگا کر حکمرانوں کا کون سا روپ اور کون سا بہروپ بے نقاب نہیں ہوا۔ ان کی نیتوں اور ارادوں سے لے کر طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں تباہیوں اور بربادیوں کے جابجا مناظر ہر دور میں کب مزید بھیانک نہیں ہوئے۔
نسل در نسل لٹنے کے باوجود عوام اب اپنی اگلی نسلوں کو بھی ان کے رحم و کرم پر ہنسی خوشی چھوڑنے کو تیار ہیں۔ ان پچھتر برسوں میں ہونے والے انتخابات میں عوام کے کون سے دن پھرے تھے جو اب پھر جائیں گے۔ الیکشن کا مطالبہ کرنے والوں سے عوام یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ پہلے اپنا اعمال نامہ تو دکھاؤ۔ تمہارے پلے کیا ہے۔ تمہارے وعدے‘ تمہارے دعوے کیا ہوئے؟ وہ معاشی انقلاب اور اقتصادی اصلاحات کس کنویں میں دفن ہیں؟ سماجی انصاف اور کڑا احتساب کیوں نہ ہوسکا؟ سابقہ ادوار کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکاڑد مدت میں کیوں توڑے گئے؟ سرکاری وسائل اور اہم ترین ادارے سر چڑھے مصاحبین کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑے گئے؟ لوٹ مار اور بندر بانٹ سے آنکھیں کیوں چراتے رہے؟ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے باوجود گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی کارکردگی کا گورکھ دھندہ کیوں کرتے رہے؟ اہم سرکاری عہدوں کی بولی کیوں لگتی رہی؟ میرٹ تار تار اور گورننس شرمسار کیوں ہوتی رہی؟ ان سبھی سوالات پر لاجواب سیاستدانوں کے پیروکار کب ہوش میں آئیں گے؟ جس دن عوام ہوش میں آگئے‘ ان سبھی کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
خدا جانے کوئی آسیب ہے یا نہ ختم ہونے والی سیاہ بختی۔ پون صدی بیت گئی‘ وہی خاندان‘ وہی وعدے‘ وہی دعوے‘ وہی جھانسے‘ وہی لارے‘ وہی الیکشن‘ وہی دھاندلیاں‘ وہی الزامات‘ وہی احتجاج‘ وہی دھرنے‘ وہی لانگ مارچ‘ وہی شعلہ بیانیاں‘ کیا بدلا ہے؟ صرف چہرے ہی تو بدل رہے ہیں۔ باپ کی جگہ بیٹا‘ دادا کی جگہ پوتا۔ شوقِ حکمرانی بھی وہی‘ بوئے سلطانی بھی وہی۔ عوام کا رونا پیٹنا بھی جوں کا توں ہے۔ دھتکار اور پھٹکار کے سبھی مناظر بھی جاری ہیں۔ طلب کی چادر رسد کے آگے آج بھی رومال ہی دکھائی دیتی ہے۔ شنوائی اور دادرسی کے لیے بھٹکنے والے بے وسیلہ فریادیوں کے مقدمات زمین کے بجائے آسمانوں پر درج ہورہے ہیں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے آج بھی بھٹک رہی ہیں۔ طرزِ حکمرانی من مانی ہی بن کر رہ گئی ہے۔ جزا و سزا کا تصورخواب و خیال بن چکا ہے۔ پون صدی سے جاری اس ذلتِ جاریہ کے سبھی مناظر مزید دردناک ہوتے چلے جارہے ہیں۔ الیکشن کے بعد زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ حاکم بھی یہی ہوں گے‘ محکوم بھی یہی ہوں گے۔ جال بھی وہی ہوگا‘ شکاری بھی وہی ہوں گے۔ کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔ عوام کو کب سے ہوش دلاتا چلا جارہا ہوں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں‘ آج بھی منت ہی ہے۔ ماضی تو برباد کر ہی چکے ہو‘ خدارا اپنے حال اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا خیال کرلو۔ حکمرانوں کی آنیاں جانیاں اور باریاں اسی طرح لگی رہیں گی۔ کارکردگی اور ساکھ کے بغیر ووٹ مانگنے والوں کو اگلا راستہ دکھائے بغیر عوام کا راستہ کھوٹا ہی رہے گا۔