27اور 28دسمبر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز میں 254 واں کور کمانڈرز اجلاس منعقد ہوا جس میں فوج کے پیشہ ورانہ اور تنظیمی امور کا مکمل جائزہ لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں عوام کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بلاتفریق لڑنے اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق اس ناسور کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیز فائر کے خاتمے کے اعلان کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاک فوج کی طرف سے عوامی امنگوں کا احساس اور دہشت گردی کے خلاف خدمات یقینا قابلِ قدر ہیں۔ دہشت گردی سمیت نجانے کتنی اور لعنتیں ملک و قوم کے مقدر سے چمٹ کر رہ گئی ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے تو افواجِ پاکستان نمٹ ہی لیں گی لیکن کچھ توجہ اُن ڈرون حملوں کی طرف بھی ہونی چاہیے جو ناقص طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں عوام پر مسلسل جاری ہیں۔
الیکشن کرانے سے پہلے ان سیاسی رہنماؤں سے سابقہ ادوار کے انتخابات کا حساب بھی تو ہونا چاہیے۔ ایک بار پھر الیکشن کا شور ہے۔ ووٹ کی سیاہی ایک بار پھر عوام کے منہ پر ملنے کے لیے میدان سجایا جارہا ہے۔ گورننس کو مزید شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے کے لیے پھر گھات لگائی جارہی ہے۔ قوم کو ایسی طرزِ حکمرانی نہیں چاہیے جس میں عوام ترجیح نہ ہوں۔ اس وقت سبھی جماعتیں اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہی ہیں اور ایک دوسرے کی اپوزیشن کرنے کی نوٹنکی بھی کر رہی ہیں۔ سبھی آزمائے جا چکے ہیں‘ عوام ان کے طرزِ حکمرانی کے مزید روپ بہروپ نہیں بھگت سکتے۔ اگر عوام سیاستدانوں کی ترجیح ہیں تو روز افزوں مہنگائی اور بے روز گاری کی صورت میں اُن کے لیے عرصۂ حیات کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟
جناب وزیراعظم نے قوم سے ایک اور راز شیئر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آٹھ ماہ کی حکومت تیس سال کی خرابیاں ختم نہیں کر سکتی۔ کوئی بتلائے انہیں کہ ہم بتلائیں کیا۔ ہم تو نجانے کب سے کیا کچھ بتلاتے چلے آرہے ہیں مگر جب عوام ہی ایسے بیانات پر ہمہ وقت سر دھننے کو تیار ہیں تو حکمرانوں کو اور کیا چاہیے۔ جب عوام اپنی حالتِ زار کے ذمہ داروں کو پہچاننے سے انکاری ہو جائیں تو ان کے سیاسی رہنما اس چشم پوشی کا فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔ گزشتہ کالم میں بھی یہی رونا رویا تھا کہ چھ مرتبہ وزارتِ اعلیٰ اور چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے والا خاندان زمینی حقائق کس قدر آسانی سے فراموش کرتا چلا آرہا ہے۔ مملکتِ خداداد کی عمر عزیز کا نصف سے زائد عرصہ اقتدار میں گزارنے والے اب عوام کو اس قدر گیا گزرا سمجھتے ہیں کہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ان کے عوام ابھی ذہنی اور فکری بلوغت کی اس عمر کو نہیں پہنچے جہاں کھرے اور کھوٹے‘ سیاہ اور سفید‘ جھوٹ اور سچ میں تمیز کی جا سکتی ہو۔ خیر‘ عوام جانیں یا ان کے حکمران جانیں۔ جب عوام اپنی بدحالی اور بربادی پر مطمئن اور شاکر ہیں تو ان کے حکمران نازاں اور اترائے ہوئے کیوں نہ پھریں۔ اپنا اپنا نقطۂ طمانیت ہے۔ حکمران اپنی بدترین طرزِ حکمرانی کو سنہری دور ثابت کرتے نہیں تھکتے اور عوام ان کے دھوکوں اور جھانسوں کی لت میں اس طرح لت پت ہیں کہ اپنے رہنماؤں کی تمام تر بدعہدیوں اور جفاؤں کے سبھی ادوار کو اپنا نصیب اور مقدر سمجھتے ہیں۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنا مقدر بگاڑتے چلے آنے والے عوام کو ہوش آنا تو دور‘ اس احساس کا گمان تک نہیں ہو سکا۔ جب آقا اور رعایا خوش اور شاداں ہیں تو ایسے کالم کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
تعجب ہے‘ کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے کبھی فرماتے ہیں کہ حلف اٹھاتے وقت معیشت کی تباہی کا اندازہ نہیں تھا تو کبھی فرماتے ہیں کہ تیس سال کی خرابیاں آٹھ ماہ کے اقتدار میں کیسے ختم ہو سکتی ہیں۔ سالہا سال بیت جائیں‘ حکمرانوں کے چہرے بدل جائیں‘ کتنے ہی ادوار گزر جائیں لیکن طرزِ حکمرانی اور من مانی جوں کی توں رہے گی۔ یہ سبھی ایک ہی مائنڈ سیٹ کے تابع اور زیر اثر سیاستدان اپنی اپنی باریاں لگاتے اور آتے جاتے رہیں گے لیکن نہ یہ مائنڈ سیٹ بدلے گا اور نہ عوام کا حال اور مستقبل۔ ان کی طرزِ حکمرانی اور عوام کی بد سے بدتر ہوتی حالتِ زار پر قلم آرائی پر اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت جیسے رک سا گیا ہو‘ تباہیاں اور بربادیاں جمود کا شکار ہوکر ٹس سے مس ہونے کو تیار نہ ہوں‘ بدنصیبی اور سیاہ بختی کے اندھیرے مستقل ڈیرے ڈال چکے ہوں‘ پون صدی کے دوران سبھی ادوار کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ سبھی منظر مستقل اور برابر دہرائے جارہے ہیں۔ ایسے میں قلم بھی سراپا احتجاج رہتا ہے کہ وہی رونا دھونا‘ وہی لٹنا اور مٹنا‘ وہی بوئے سلطانی‘ ہرسُو وہی ویرانی اور جابجا گرانی‘ گویا جہاں گورننس اور میرٹ‘ من مانی کی بھینٹ چڑھا دیے جائیں وہاں سب ادوار بد سے بدتر کیوں نہ ہوں۔
مستقل ملامتی حالات میں کالم بھی ماتمی ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابھی بیس منٹ کی مسافت ساڑھے تین گھنٹے میں طے کرنے کے بعد بمشکل گھر لوٹا ہوں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ایک جمِ غفیر سراپا احتجاج ہے۔ سخت سردی میں کھلے آسمان بیٹھے خواتین اور مرد اساتذہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کے بعد نامراد ہوکر اب تحریک انصاف کے قائد کے در پر آن بیٹھے ہیں۔ پچھتر برسوں میں جو ملک اساتذہ کو ان کا اصل مقام فراہم کرنے میں ناکام رہا ہو اور اساتذہ ناختم ہونے والے احتجاجی سفرکے مسافر ہوں تو وہاں قانون اور ضابطوں سمیت اخلاقی و سماجی قدریں تباہ کیوں نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ اساتذہ اس مغالطے میں ہوں کہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت سچ مچ تبدیلی لانے کی پوزیشن میں ہے اور وہ اپنے دیرینہ مطالبات منوانے کے لیے عمران خان کے در پر آگئے ہوں۔ ایسے میں خون جما دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے سراپا احتجاج مرد و زن سے بے نیاز اربابِ اختیار کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ حضورِ والا محل کی گرماہٹوں سے نکلیں‘ تسلی نہیں‘ دلاسا تو دینے جائیں۔
سروس سٹرکچر کے لیے احتجاج کرنے والے خدا جانے کس بھول میں ہیں‘ جس ملک کا اپنا کوئی مستقل سٹرکچر نہ ہو وہاں سروس سٹرکچر کون بنائے گا۔ جہاں حکمران بدلتے ہی پالیسیاں‘ ضابطے اور قانون بھی بدل جاتے ہوں‘ اخلاقیات اور معیار بدلنے کے ساتھ ساتھ حریف اور حلیف بھی بدل جاتے ہوں‘ روپ اور بہروپ بدل جاتے ہوں‘ وہاں تبدیلی کے خواب دیکھنا دیوانگی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں کسان اپنے خون پسینے سے سینچی فصل کا معاوضہ لینے کے لیے کئی کئی ہفتوں کھلے آسمان تلے احتجاج کرنے پر مجبور ہوں اور شاید ہی کوئی ہفتہ اور مہینہ ایسا گزرتا ہوجس میں مطالبات منوانے کے لیے سڑکیں اور چوراہے بند نہ کیے جاتے ہوں اور اپوزیشن جماعتیں ان مظاہرین کو ہلہ شیری دینے کے علاوہ اظہارِ یکجہتی میں بھی پیش پیش ہوں اور برسراقتدار آنے کے بعد وہی مشقِ ستم دہراتی نظر آئیں جن کا نجانے کتنی دہائیوں سے مظاہرین کو مستقل سامنا ہے۔ جہاںسیاسی رہنما اپنے مطالبات منوانے کے لیے پارلیمنٹ چھوڑ کر شہر کے شہر بند کر ڈالیں۔ کاروبارِ زندگی مفلوج کر ڈالیں۔ سرکاری اور نجی املاک لوٹ کا مال سمجھ کر جلاؤ گھیراؤ سے بھی گریز نہ کریں تو پھر حکمران کس منہ سے احتجاج کرنے والوں کو سڑکیں بند کرنے سے روک سکتے ہیں۔
اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اشرافیہ اور عوام میں کوئی مقابلہ جاری ہے۔ سبھی پر احتجاج سوار ہے۔ ڈائیلاگ اور مکالمہ سے فرار ہو یا منطق اور دلیل سے گریز کرنے والے‘ گویا جیسے عوام ویسے حکمران۔