عمران خان نے جیل بھرو تحریک کو انتخابات میں تاخیر سے مشروط کر دیا ہے کہ اگر 90روز کے اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات نہ کروائے گئے تو جیل بھرو تحریک کی کال دے دوں گا۔ چلو گرفتاریاں دینے کا عمل فی الحال تو ٹل گیا۔ خان صاحب کی طرزِ حکومت ہو یا طرزِ سیاست‘ وہ اکثر و بیشتر خود ہی اپنے پھینکے ہوئے جال میں پھنستے رہے ہیں۔ وہ اگر فی البدیہ گفتگو سے گریز کرتے تو شاید حالات اس قدر پریشان کن نہ ہوتے جس قدر آج ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آئے تو خدا جانے کس گمان میں تھے کہ 100دن میں کارکردگی دکھانے کا ہدف دے ڈالا۔ یہ بیانیہ بھی نہ صرف گلے پڑا رہا بلکہ اگلے کئی 100دن تک بھی کارکردگی کی ''کاف‘‘ تک نہ پہنچ سکے۔
اکثر سیاستدانوں کے بیانات سن کر یہ سوچتا ہوں کہ زمینی حقائق سے کوسوں دور اُن کے اِن خیالاتِ عالیہ کے پیچھے کیا عوامل کارفرما رہے ہوں گے؟ وہ کس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جب وہ ایسے اعلانات کر بیٹھتے ہیں۔ اکتوبر 2022ء میں بھی خان صاحب نے جیل بھرو تحریک کی دھمکی دی تھی لیکن گرفتاریاں دینے کی نوبت شاید اس لیے نہ آئی کہ حکومت نے ان کی خواہش کے احترام میں ان کے قریبی افراد کی گرفتاریاں خود ہی شروع کر دیں۔ گرفتاری کسی بھی سیاست دان کا وہ آخری ڈر ہوتا ہے جس کے نکلتے ہی وہ نڈر ہو جاتا ہے یا پھر ساری عمر اس ڈر سے باہر ہی نہیں نکل پاتا کہ کہیں پھر نہ پکڑا جاؤں۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں خان صاحب چند دن کے لیے جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ شاید وہ آج بھی اسی ڈر میں مبتلا ہوں کہ کہیں ویسا دوبارہ نہ ہو جائے۔ کارکنوں کے حفاظتی حصار میں بیٹھے خان صاحب نے جیل بھرو تحریک کا اعلان تو کر ڈالا ہے لیکن لگتا نہیں کہ یہ تحریک عملی شکل اختیار کر سکے گی۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے خان صاحب نے کارکنان کو گھر کے باہر کھڑا کر رکھا ہے‘ وہ اِنہیں ہٹا کر تو دیکھیں! بسم اللہ زمان پارک ہی سے ہونی چاہئے‘ سب سے پہلے خان صاحب خود گرفتاری پیش کریں‘ آپ کو بھی پتا چلے کہ جیل کیا ہوتی ہے۔ جیل میں شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔
تحریک انصاف والے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی ہی حکومتیں قبل از وقت تحلیل کرکے اب پنجاب کی نگران حکومت پر جانبداری کے الزامات لگاتے اور گرفتاریوں سے بچتے پھرتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی ایک آڈیو لیک نے یہ عقدہ بھی کھول ڈالا تھا کہ انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط بادلِ نخواستہ اور دباؤ میں آکر کیے تھے جبکہ صوبائی وزراء بھی گاڑیوں سے جھنڈے اُترنے اور موجیں ختم ہونے کے بعد خاصے بجھے بجھے اور ڈرے ہوئے بھی ہیں۔ ان میں مگر پارٹی قیادت سے اختلافِ رائے کی جرأت کل تھی‘ نہ آج ہے۔ چند وزیروں کے بارے میں تو بجا طو رپہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ایجنڈے ادھورے رہ گئے اور دھندے بند ہو گئے ہیں۔ بالخصوص تعمیراتی منصوبوں میں سہولت کاری کے عوض بڑے پروجیکٹس میں پارٹنر بننے والے آج بھی متعلقہ حکام سے ادھورے کام نمٹانے کیلئے دفاتر میں برابر درشن دے رہے ہیں جبکہ اکثر سابق وزرا پر تو خود بھی اس کاروبار میں نام پیدا کرنے کی دھن سوار ہے۔ ایسے حالات میں جیل بھرو تحریک کا اعلان ان سبھی کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو اپنے دورِ اقتدار میں جیبیں اور تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔ تاہم اگر گرفتاریاں دینے کی نوبت آ بھی گئی تو قرعۂ فال یقینا ان کارکنان کے نام ہی نکلے گا جنہیں بَلی کے بکرے بنا کر گرفتاری کیلئے پیش کیا جائے گا۔
عمران خان سمیت صفِ اوّل کے پارٹی رہنما ہوں یا سابق وزراء‘ کسی کے لیے بھی گرفتاری دینا کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے۔ بیشتر وزرا و مشیروں نے تو اقتدار کو اپنے دن سنوارنے اور پھیرنے کے لیے استعمال کیا۔ بھائیوں‘ عزیزوں اور دوست احباب کے نام پر لمبے چوڑے ٹھیکے اور کاروبار جما لیے‘ وہ اس آمدنی کا حساب کریں گے یا جیلیں بھریں گے۔ کتنوں کے بارے میں تو عوام بھی جانتے ہیں۔ تو پھر عمران خان کیسے نہیں جانتے؟ برسر اقتدار آنے سے پہلے کون کیا تھا اور آج کہاں جا پہنچا ہے۔ ان کی طرزِ زندگی سے لے کر کیا کچھ بدل چکا ہے۔ تام جھام‘ ٹھاٹ باٹ‘ آسائشیں اور آرائشیں۔ سبھی کچھ اقتدار کے مرہونِ منت تو رہا ہے۔
عمران خان کو ایسے بیانات سے پہلے ان بیچاروں کی مشکلات اور مجبوریوں کا احساس تو کر ہی لینا چاہیے کہ انہوں نے یہ مالِ اسباب جیل جانے کے لیے نہیں بلکہ موج کرنے کے بنایا ہے۔ عالیشان رہائشگاہیں‘ مہنگی گاڑیاں‘ مال و زر کے انبار اور عیش کی زندگی چھوڑ کر جیل میں شب و روز کون گزارے گا؟ اب خان صاحب کو کون سمجھائے کہ جناب! ان کے منہ کو جو سرکاری خزانے کا خون لگ چکا ہے‘ انہیں اس کے لت پڑ چکی ہے۔ اس لت میں لت پت یہ سبھی اپنی زندگیوں میں مگن اور نازاں ہیں۔ انہیں جیلوں میں جانے پر مجبور نہ کریں۔ یہ اندر کیسے رہیں گے۔ انہیں بیڈ ٹی کون بنا کر دے گا۔ تازہ پھلوں کا رَس کون پلائے گا۔ یہ مارننگ واک اور ورزش کہاں کریں گے۔ ان کے ڈائٹ پلان کے مطابق کھانے کون تیار کرے گا۔ یہ دوستوں کی محفلیں کہاں لگائیں گے۔ پارٹیاں کہاں کریں گے۔ مخملی بستر کے بغیر کیسے سو پائیں گے۔ ان سبھی کے آسائشوں کا عادی بن جانے کے بعد اب انہیں جیلیں بھرنے کے لیے تو نہ کہیں۔ یہ آپ کا حکم بھلا کیسے ٹال سکتے ہیں۔ آپ ہی کے دم سے تو یہ ساری بہاریں اور ساری موج مستیاں ہیں۔ آپ ہی کے بیانیے کی بدولت تو عوام میں زندہ ہیں۔ آپ سلامت رہیں۔ جس طرح جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے کے لیے یہ کارکنوں کو بسوں اور لاریوں میں بھر بھر کر لاتے ہیں‘ اسی طرح یہ آپ کے اعلان کا بھرم رکھنے کے لیے جیلیں بھرنے کے لیے بھی قربانی کے بکرے لے آئیں گے۔
خاطر جمع رکھیے! جیلیں بھرنے کا یہ اعلان رائیگاں نہیں جائے گا؛ تاہم فی الحال کارکنوں سے گزارا کیجئے۔ ان کی گرفتاریاں دے کر جتنی چاہیں جیلیں بھریں۔ اقتدار اور جھنڈے لگی گاڑیوں کے مزے لینے والوں کے لیے جیل بھرو تحریک کی کال دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ انہیں جیل بھجوانے کے لیے ان کے کالے کرتوتوں کا آئینہ ہی کافی ہے۔ آپ کے دیے ہوئے اعتماد اور مینڈیٹ کو انہوں نے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔ گورننس اور میرٹ کی درگت بناکر ہی انہوں نے اپنی اپنی حالتیں سدھاری ہیں۔ اتنا مال اکٹھا کر لیا ہے کہ عزت کے لیے بھی جگہ باقی نہیں رہی۔ خان صاحب! آپ سے بہتر ان سب کو کون جانتا ہے۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھا کر لمبا مال بنانے والے یہاں وزیر بن جاتے ہیں۔ اُن کے اِن کرتوتوں سے جب پردہ اُٹھتا ہے تو وہ مزید ترقی پا جاتے ہیں۔ اسی طرح احتساب کے نام پر ملکی وسائل اور قوم سے کھلواڑ کرنے والے مشیر کس کے جہاز پہ اڑتے پھرتے تھے اور کس کی مہربانی میں شہرِ لاہور میں موج مستی کرتے تھے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے دونوں وزرائے اعلیٰ ہوں یا ان کے وزرا‘ کس کس کا نام لیں۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلے ثابت ہونے کے باوجود آپ کے بیانیے کا چورن عوام کی آنکھوں میں جھونکتے رہے۔ دھرتی کی ہریالی کو سیمنٹ اور سریے کی بھینٹ چڑھانے والوں نے مال و زر کے پہاڑ کھڑے کر لیے ہیں۔ آپ انہی پہاڑوں پر کھڑے ہو کر ذرا وطنِ عزیز کا نظارہ تو کریں کہ عوام کس حال میں اور کیسے زندہ ہیں۔