قوم کو مبارک ہو! حکمران اتحاد کی کابینہ کے اراکین کی تعداد 85 ہو چکی ہے۔ ساجھے کی ہنڈیا میں یونہی اُبال آتا رہا تو جلد سنچری بھی عین ممکن ہے۔ فرمائشیں اور مطالبات شراکت کی اس ہنڈیا کو پریشر ککر بنا کر ہی چھوڑیں گے۔ پریشر ککر بھی کتنا پریشر برداشت کر سکے گا۔ خدا خیر کرے! کہیں پھٹ ہی نہ جائے۔ حصے بخرے کرنے والوں نے اقتدار اور وسائل کے اتنے حصے کر ڈالے ہیں کہ عوام کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ عالمِ نزع اور وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت والے ملک کی اتنی بڑی کابینہ اور کارکردگی صفر۔ گرانی اور افراتفری کا عالم یہ ہے کہ پورا ملک بے یقینی اور نااُمیدی کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ آٹے اور راشن کی قطاروں سے ٹھنڈ نہیں پڑی تو طرزِ حکمرانی کا کلیجہ مزید ٹھنڈا کرنے کے لیے پٹرول کے بحران کا صدمہ بھی تیار ہے۔ عوام تو درکنار پٹرول پمپ مالکان پٹرول کے حصول کے لیے سفارشیں کرواتے اور رشوتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں عوام کے حالاتِ پریشان مزید پریشانیوں کا باعث بننے جا رہے ہیں۔ آٹے کی قطار میں کھڑے ہوں یا پٹرول کی قطار میں‘ بیک وقت دونوں قطاروں میں رعایا کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔ باکمال لوگوں کی حکمرانی ہو تو لاجواب گورننس ایسی ہی ہوتی ہے۔ عوام کی بد سے بدترین ہوتی حالتِ زار پر کیا کیا لکھا جائے اور کیسے لکھا جائے؟ اب تو الفاظ بھی ہاتھ جوڑے پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ان تباہیوں اور بربادیوں کے اظہار سے قاصر ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک لطیفہ پیشِ خدمت ہے جسے پڑھنے کے بعد ہنسنے یا رونے کا فیصلہ آپ پر ہے۔ اپنے گھر سے دور ایک شخص نے ہمسائے کو فون کرکے پوچھا: کیا میرے گھر میں سب خیریت ہے؟ ہمسائے نے جواب دیا: باقی تو سب خیریت ہے لیکن آپ کا کتا مر گیا ہے۔ فون کرنے والے نے پھر پوچھا: میرا کتا مر گیا مگر کیسے؟ ہمسائے نے جواب دیا: وہ آپ کے مرے ہوئے گھوڑے کا گوشت کھا کر کیسے زندہ رہ سکتا تھا؟ فون کرنے والا: تو میرا گھوڑا بھی مر گیا؟ ہمسایہ: بھوک سے مر گیا جناب۔ فون کرنے والا: مگر میں نے چند دن پہلے ہی تو پیسے بھجوائے تھے۔ ہمسایہ: وہ تو آپ کی والدہ کی تدفین پر لگ گئے۔ فون کرنے والا: اُف خدایا! کیا میری ماں بھی مر گئی ہے؟ ہمسایہ: جی ہاں! وہ دو ماہ کے پوتے کا غم برداشت نہ کر پائی۔ فون کرنے والا: اُف! کیا میرا بیٹا بھی دنیا میں نہیں رہا؟ ہمسایہ: جی ہاں! بن ماں کا بچہ بھلا کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔ فون کرنے والا: اُف خدایا! کیا میری بیوی بھی چل بسی۔ ہمسایہ: کمرے کی چھت جو گر گئی تھی جناب! وہ کیسے بچ سکتی تھی؟ البتہ باقی سب خیریت ہے۔ آپ اپنا خیال رکھیے۔
اقتدار کے بٹوارے اور وسائل کی بندر بانٹ کی بدعت کوئی نئی نہیں ہے۔ مل بانٹ کر کھانے والے اسی طرح کھاتے چلے آئے ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح کھاتے اور اُڑاتے رہیں گے بشرطیکہ آئندہ کے لیے کچھ بچ گیا تو! میرا خیال ہے کہ مردہ گھوڑے کا گوشت کھانے والے کتے کے مرنے سے لے کر ماں‘ بچے اور بیوی کی ہلاکت کی اطلاع دینے کے بعد باقی سب خیریت قرار دینے والا ہمسایہ کوئی عام آدمی تو ہو نہیں سکتا۔ ایسے عالی دماغ شخص کو ڈھونڈ کر روز بروز بڑھتی کابینہ میں اگر کوئی مناسب مقام مل جائے تو وہ یقینا حکومت کے مقام و مرتبے میں مزید چار چاند لگا سکتا ہے۔
تقریباً چار دہائیوں سے عوام حکمران اتحاد کی گورننس اور میرٹ کے نظارے دیکھتے چلے آئے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ملک کی عمر عزیز کا نصف سے زائد عرصہ ان سبھی کے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ ان سبھی کے شوق کا دیوتا اس قدر توسیع پسند ہے کہ اب چھوٹی موٹی بَلی اور قربانی سے راضی نہیں ہوتا‘ اسے تو بس اقتدار کی بھینٹ چاہیے۔ بار بار اور ہر بار۔ اقتدار اقتدار۔ تقریباً چار دہائیوں سے اقتدار کی باریاں لگانے والے مملکتِ خداداد کو اس مقام تک لے آئے ہیں کہ اب ان کی بھینٹ چڑھانے کے لیے نہ ذخائر بچے اور نہ ہی وسائل۔ سب کچھ اس طرح کھاتے اور اُڑاتے چلے آئے ہیں کہ عوام بس دُھول ہی اُڑا رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے خلاف عدمِ اعتماد کے جواب میں قومی اسمبلی تحلیل کی تو عالم یہ تھا کہ تحریک انصاف کی طرزِ حکمرانی اور غیر مقبول فیصلے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کے طوق بن چکے تھے حتیٰ کہ وزرا اور اراکینِ اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے بھی کتراتے نظر آتے تھے‘ نجی محفلوں میں برملا یہ اعتراف بھی کیا کرتے تھے کہ اگلا الیکشن ہمارے لیے کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا جبکہ مسلم لیگ(ن) اس صورتحال کی واحد بینی فشری جماعت تھی جو اگلا انتخابی معرکہ بہ آسانی سر کر سکتی تھی۔ عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرکے اگلا انتخابی میدان لگانے کا جو موقع خود فراہم کیا تھا‘ مسلم لیگ(ن) اسے اپنے ہی ہاتھوں سے خود گنوا بیٹھی۔
اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر نئے انتخابات کی تاریخ مانگنے کے بجائے بحالی کیلئے عدالت جا پہنچے اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بحال ہونے کے بعد ملنے والا اقتدار گلے کا طوق ہی بنتا چلا گیا۔ سزاؤں کے خوف میں مبتلا شہباز شریف نے لمحۂ موجود کو سنوارنے کے لیے اگلے سارے راستے ہی کھوٹے کر ڈالے۔ اپنے اور بیٹوں کے کیسز تو ختم کروا لیے لیکن پارٹی کا کیس اتنا کمزور کر دیا کہ آئندہ انتخابی معرکہ بھی ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے اور انتخابات تک ٹکڑے ہونے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
حکمران اتحاد کا اتحاد کب تک چلتا ہے؟ مطالبات اور سمجھوتوں پر کھڑی یہ حکومت کب تک ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاتی ہے؟ ان سبھی کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہے‘ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے شیرو شکر ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے۔ جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہوگا وہاں اُصولی سیاست کا بخار اور انہیں عوام کا درد بھی جاگ اُٹھے گا۔ ایک دوسرے پر واری واری جانے والے ایک دوسرے کو لوٹا‘ چور اور ڈاکو سمیت نجانے کیا کچھ کہتے بھی نظر آئیں گے۔ آف دی ریکارڈ رازونیاز اور پَل بھر میں وائٹ پیپر بنتے دیر نہیں لگے گی۔
مسلم لیگ(ن) کی مسلسل غیر مقبولیت‘ ہاتھ سے نکلتا ہوا انتخابی معرکہ اور رائیگاں ہوتی ہوئی محنت نواز شریف کے لیے یقینا تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ ہوگا جبکہ دوسری طرف گزرتے وقت کے ساتھ تحریک انصاف کے طرزِ سیاست اور مؤقف میں لچک اور نرمی کے امکانات کو بھی رَدّ نہیں کرنا چاہیے؛ تاہم یہ صورتحال نواز شریف اور عمران خان کو ایک پیج پر لانے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ جو نواز شریف وطن واپسی کے لیے میثاقِ جمہوریت کے نام پر بینظیر بھٹو کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ ہوگئے تھے‘ ان کے لیے عمران خان سے دوریاں ختم کرنا یقینا زیادہ مشکل مرحلہ نہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان سیاسی عداوت اور بدترین مخالفت کم و بیش دشمنی میں تبدیل ہو چکی تھی لیکن نظریۂ ضرورت کہیں یا سیاسی بلوغت‘ دونوں صورتوں میں حریفوں کو حلیف بنتے دیر نہیں لگی۔ میثاقِ مصیبت کے تحت عین ممکن ہے کہ عمران خان بھی اس بات پر آمادہ ہو جائیں کہ ہم سیاستدان آپس میں لڑائی جھگڑے اور معاملات طے کرتے رہیں گے‘ پہلے مل جل کر اس درد کی دوا کر لیں جو ہم سب کا دردِ مشترک ہے۔ ایسی صورت میں سیاسی منظرنامہ کیا رنگ ڈھنگ نکالتا ہے‘ اس کا فیصلہ تو نظریۂ ضرورت اور سیاسی بلوغت ہی کرے گی۔