آسمان کہاں کہاں گرے‘ زمین کہاں کہاں پھٹے‘ زمینی خداؤں کی خدائی میں ناحق اور دردناک موت سے دوچار ہونے والوں کی بھٹکتی روحیں بارگاہِ الٰہی میں سراپا احتجاج اور فریاد کرتی ہوں گی۔ زمینی قانون جب دادرسی سے قاصر اور بے بس ہو جائے تو آسمانوں پر قدرت کی مدعیت میں مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں۔ سانحہ بارکھان بھی گزرتے وقت کی دھول میں اس لیے دفن ہو جائے گا کہ قبائلی روایات اور جھوٹی آن‘ بان‘ شان سمیت غیرت کے نام پر دھرتی پر بربریت کا ننگا ناچ تو نجانے کب سے جاری ہے؟ مشرف دور میں پانچ عورتوں کو زندہ دفنانے کا دلخراش واقعہ خود قبر بن چکا ہے لیکن ذمہ داران زندہ اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ سینیٹ میں آواز اٹھانے پر ڈپٹی چیئرمین نے اس انسانیت سوز واقعہ کو قبائلی روایات کا تسلسل قرار دے کر ایوان میں اٹھنے والی سبھی آوازوں کو خاموش کروا دیا کہ وہ اس معاملے میں نہ بولیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو جانوروں کی طرح باندھ دینا اور عبرت ناک موت سے دوچار کرنا بااثر افراد کا پرانا مشغلہ ہے۔ عرشِ معلی پر سراپا احتجاج روحوں میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے وہاں بارگاہِ الٰہی میں درج ہونے والے مقدمات کے بھی انبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔
کوئٹہ میں سرعام پیچ چوراہے میں ٹریفک سارجنٹ کو دیوہیکل گاڑی تلے کچلنے والے کی وڈیو وائرل ہونے کے باوجود سزا نہ مل سکی۔ اسی طرح آئے روز کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جانے والی مخلوق کے لیے آسمان کہاں کہاں گرے‘ زمین کہاں کہاں پھٹے؟ خون کی ہولی کھیلنے والے رنگے ہاتھوں کے باوجود بھی معتبر بنے پھرتے اور برابر بچتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے دِل دہلا دینے والے واقعات پر لکھنے کے لیے پتھر کا دِل اور لوہے کے ہاتھ چاہئیں۔ ذہن مائوف‘ اعصاب شل اور آنکھیں پتھرائی جا رہی ہیں۔ الفاظ سینہ کوبی کرتے اور اعراب دھاڑیں مارتے محسوس ہو رہے ہیں‘ قلم سے نکلنے والی سیاہی خون بن کر سفید کاغذ کو سرخ کیے ہوئے ہے۔ الفاظ اظہار سے قاصر اور ہاتھ جوڑے سراپا التجا ہیں کہ ہم اس سفاکی اور بربریت کی ترجمانی ہرگز نہیں کر سکتے۔ جیتے جاگتے انسانوں کو دردناک موت سے دوچار کرنے کی منظر کشی ہمارے بس کی بات کہاں؟ اب تو چشم فلک کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں‘ وہ کب تک اور کہاں کہاں آنسو بہائے۔ خون کی ندیاں بہانے والے تو قانون اور ضابطوں سمیت نجانے کیا کچھ بہائے چلے جا رہے ہیں؛ تاہم دہشت اور بربریت کے المناک واقعات ہوں یا قانون اور انصاف کی بے بسی کے‘ من مانی طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد ہوں یا ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی پالیسیاں‘ بے حسی اور سفاکی کے جابجا مناظر ہوں یا خودپرستی اور خودنمائی کے چلتے پھرتے پہاڑ‘ ان سبھی سے جڑی سبھی خبریں وقت کی گرد میں قبریں ہی بنتی چلی آئی ہیں۔ گویا جتنی قبریں اتنی خبریں۔ قبروں پہ قبریں بنانے والے نہ غیر ہیں نہ دیارِ غیر سے آئے ہیں‘ یہ سبھی جانے پہچانے وہی پرانے چہرے ہیں۔ بے رحمیوں‘ خود غرضیوں‘ بے وفائیوں‘ بد عہدیوں اور سفاکیوں سمیت تمام بدعتوں کی خبریں یونہی آتی رہیں گی‘ ٹاک شوز ہوتے رہیں گے‘ سوشل میڈیا پر شور مچتا رہے گا‘ ناحق مرنے والوں کا خون رائیگاں اور یونہی بہتا رہے گا‘ نمائشی کارروائیاں کی جاتی رہیں گی‘ ایوانوں میں سناٹے چھائے رہیں گے‘ اربابِ اختیار مصلحتوں اور مجبوریوں میں دھنسے خاموش تماشائی بنے رہیں گے‘ زمینی خداؤں کی خدائی میں داد رسی اور شنوائی کے لیے بھٹکنے والوں کے لیے زمین تنگ ہوتی رہے گی‘ ظلم کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوتی رہیں گی‘ ناحق مرنے والوں کی روحیں بارگاہِ الٰہی میں فریاد کرتی رہیں گی کہ کب یومِ حساب آئے اور ان کا مقدمہ بارگاہِ الٰہی میں سماعت کے لیے پیش ہو کیونکہ زمین پر تو زمینی خداؤں کا راج ہے۔
اکثر احباب اور قارئین کا اعتراض ہے کہ میرے کالم مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں‘ میں حالاتِ پریشاں کو مزید پریشان کر ڈالتا ہوں۔ ان سبھی کو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم کے سوا کیا لکھا جا سکتا ہے؟ کالے کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا لکھنا کم از کم میرے بس کی بات تو نہیں۔ ضرورت مندوں کے اس عہد میں سبھی کچھ ملیا میٹ ہو چکا ہے۔ مہارت اور قابلیت کو خوشامد اور چاپلوسی چاٹ چکی ہے‘ جہاں گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہو جائے وہاں انصاف اور اخلاقی اقدار ناپید ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اقتدار کے بٹوارے اور وسائل کی بندر بانٹ کے علاوہ سرکاری اداروں پر بندہ پروری کا رواج بھی پرانا ہے۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں‘ انتظامی بھی ہوتی ہے۔ انتظامی کرپشن اداروں کی چولیں ہلانے سے لے کر قواعد و ضوابط کی موت بھی ہوتی ہیں۔ احتسابی اداروں سے لے کر انتظامی عہدوں پر غیر موزوں لیکن من پسند سربراہان لگانے کی بدعت کو ہر حکمران نے برابر دوام بخشا ہے۔ ایسے کیسز میں اکثریت کی اہلیت نامعلوم اور آخری روز تک کارکردگی بھی صفر ہی رہتی ہے۔
زمانۂ طالب علمی میں اردو لیٹریچر کے امتحانات میں الطاف حسین حالیؔ کی ایک کتاب‘ مقدمۂ شعر و شاعری‘ سے ایک سوال اکثر آیا کرتا تھا۔ جس کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ بری شاعری سوسائٹی کا مزاج بگاڑ دیتی ہے۔ آج اس سوال کی روح اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بات کتنی آسانی سے سمجھائی جا رہی ہے۔ اس وقت تو ایسے موضوعات کو تو سوال برائے جواب ہی لیا جاتا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عملی زندگی میں جوں جوں شعور کی کھڑکیاں اور دروازے کھلتے چلے گئے توں توں زندگی کے اسرار و رموز کھلتے چلے گئے۔ اقتدار کے بھوکوں کے ساتھ ساتھ اہم عہدوں کی طلب اور تڑپ میں بے حال انتظامی افسران تو ایک طرف‘ کیسے کیسے عالم‘ فاضل‘ فلسفی اور دانشور بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ اکثر تو سقراط بقراط کی ڈمی بھی دکھائی دیتے ہیں‘ قیمتاً لیکچر دینے والوں نے اپنی مارکیٹنگ اور آؤ بھگت کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم بنا رکھی ہے جو ان کی بکنگ سے لے کر ادائیگی تک کی ذمہ داریاں بھی خوب نبھاتی ہے۔
علم اور خیال کی آمدن سے بے نیاز‘ الفاظ کی بے دریغ فضول خرچی پر حاضرین اور سامعین ایسے جھومتے ہیں جیسے علم کا کوئی خزانہ حاصل کر لیا ہو‘ لچھے دار گفتگو اور مختلف کتابوں سے لیے گئے خیالات پر دانشوری جمانے والے یوں بدمست پھرتے ہیں گویا قوال پر حال طاری ہو گئے ہوں۔ پنجاب اسمبلی کی تاریخی عمارت یقینا آرٹس کونسل کی عمارت کو یہی کہتی ہو گی کہ آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ دونوں کا دکھ سانجھا جو ٹھہرا۔ ایک طرف واجبی تعلیم پر کلرک بھرتی ہوکر تمام قواعد و ضوابط سمیت پروفیشنل کورسز سے بے نیاز گریڈ 22 حاصل کرکے اپنا سکہ چلانے والے سرکاری بابو تو دوسری طرف لاہور آرٹس کونسل میں حالیہ تقرریوں پر امتیاز علی تاج‘ فیض احمد فیض‘ مصطفی برلاس‘ صوفی تبسم‘ ڈاکٹر انور سجاد کی روحیں خلد بریں میں یقینا بے چین ہوں گی۔ نئے ماڈل کے مطابق دانشوری کے لیے اب دانش کا ہونا قطعی ضروری نہیں۔ فکری مساج اور وہ من چاہی بات کرنے کا فن آنا چاہیے جسے بڑی کرسی پہ بیٹھا فیصلہ ساز سننا چاہتا ہے تاہم آدابِ شاہی سے واقف ہونے اور آتے جاتے آداب بجا لانے کے ہنر کو اضافی خصوصیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ضرورتمندوں کے اس عہد میں سبھی اپنی اپنی ضرورتوں کے بیوپار میں ایک دوسرے کی ضرورت بنتے چلے جا رہے ہیں۔ صرف ہاتھوں میں کشکول لیے سڑکوں پہ پھرنے والے ہی ضرورت مند نہیں ہوتے‘ مہنگی پوشاکوں اور بڑی گاڑیوں میں گھسے ہوئے بھی اکثر ضرورت مند ہی پائے گئے ہیں۔