منطق اور دلیل سے گریز ہو یا مکالمے سے فرار‘ عوام کو مسلسل گمراہ کرنے کے علاوہ خود بھی خود فریبی کا شکار ہیں‘ جھوٹ کا پرچار اتنی شدت سے جاری ہے کہ سچ بھی خود پر شک کرتا نظر آتا ہے۔ یہ سبھی پرچارک اس شعر کی معنوی تصویر نظر آتے ہیں ؎
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
یہ سرکار میں ہوں یا سرکار سے باہر‘ جھوٹ سے شروع ہو کر نہ ختم ہونے والے جھوٹ پر ہی قائم رہتے ہیں۔ ان کے انتخابی نعرے ہوں یا سیاسی دعوے‘ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اصلاحات کے اعلان ہوں یا اقدامات کے فیصلے‘ سبھی گورکھ دھندا ہے۔ وعدوں سے منحرف ہونے سے لے کر حلف کے انحراف تک سبھی جھوٹ کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے لیے پی آر سے لے کر لابنگ تک‘ خوشامد سے لے کر چاپلوسی تک‘ منت ترلوں سے لے کر گڑگڑانے تک‘ ضرورت مندی کی ایسی تصویر نظر آتے ہیں کہ عزتِ نفس سے لے کر غیرتِ قومی بھی ان کی ضروریات اور اہداف کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس تمہید کو مزید طول دینے کے بجائے مدعے کی طرف چلتے ہیں۔ مملکتِ خداداد کا منظرنامہ روز بروز خراب ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ سبھی سیاست دان اقتدار کی دھینگا مشتی میں مصروف ہیں۔ ان کی مسلسل چیخ و پکار سے شہروں میں بھی جنگل کا گماں ہونے لگا ہے۔ جابجا لگے سیاسی سرکس ہوں یا ان کے کھیل تماشے‘ کبھی ریلیوں کے نام پر تو کبھی جلسے جلوسوں کے نام پر‘ عوام کے نجات دہندوں نے زندگیاں ہی اجیرن کر ڈالی ہیں۔ سکول کالج کے بچے ہوں یا کام کاج پر جانے والے افراد‘ مریضوں کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولینسیں ہوں یا سفرِ آخرت کی طرف رواں دواں جنازے‘ سبھی کے لیے راستے بند نظر آتے ہیں۔
آفرین ہے عوام پر کہ اپنی اس ذلت اور تضحیک پر نازاں اور شاداں ہونے کے علاوہ سارا سارا دن سڑکوں پر متبادل راستوں کے لیے بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ یہ کیسے سیاسی رہنما ہیں‘ یہ کیسی عوام کی خدمت ہے کہ عوام کو زمینی حقائق سے اس قدر دور دھکیلے چلے جا رہے ہیں کہ یہ اندیشہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ عوام کہیں بے خبری میں نہ مارے جائیں۔ یہ سیاسی رہنما سب کچھ جانتے بوجھتے کس قدر دیدہ دلیری سے گمراہ کن بیانیے اور دلفریب جھانسے دیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اقتدار میں ہوں تو ایک پیج پر ہونے کے فخریہ بیانیے جاری کرتے نہیں تھکتے‘ جونہی اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں‘ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ اپنی طرزِ حکمرانی اور بداعمالیوں پر غور کرنے کے بجائے کسی اور پر الزام تراشی کرکے اپنی نالائقیوں اور پھیلائی ہوئی بربادیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔
نواز شریف اپنے ہی دورِ اقتدار میں نااہل ہوکر اقتدار سے کیا نکالے گئے‘ سڑکوں پر واویلا کرتے اور یہ پوچھتے پھرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟ حالانکہ ان سے بہتر کون جانتا تھا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ اسی طرح عمران خان تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے نکلے تو مقتدرہ کے خلاف مہم شروع کر ڈالی۔ بیرونی سازش اور امپورٹڈ حکومت کا ایسا بیانیہ اختیار کیا کہ عوام بلا سوچے سمجھے سر دھننے لگے۔ بیانیہ سپرہٹ کیا ہوا‘ خان صاحب پُرجوش ہو گئے‘ مخالفین کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کے علاوہ ایسی ایسی ہرزہ سرائی کرتے نظر آئے کہ کچھ نہ پوچھئے! نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ دونوں ہی اقتدار سے محروم ہو جانے کے بعد مقتدر حلقوں کی جانبداری پر سوال اٹھانے کے علاوہ یہ واویلا خوب کرتے رہے ہیں کہ انہیں کیسے نکالا لیکن عوام کو آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ اقتدار میں آئے کیسے تھے؟
صبح شام لگے سرکس میں کوئی ایک آئٹم ایسا بھی ڈالا جائے جس میں عوام کو یہ بھی بتائیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کیسے ترلے‘ منتیں اور یقین دہانیاں کراتے رہے ہیں۔ اپنے وژن اور قابلیت کے قلابے ملانے کے لیے کس طرح زمین آسمان ایک کرتے رہے ہیں۔ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ ماہرین کی ٹیمیں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ اُن کے برسرِ اقتدار آتے ہی وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت بھلی چنگی ہوکر بھاگنے لگے گی‘ گورننس مثالی ہوگی‘ میرٹ کا بول بالا ہوگا‘ عام آدمی کے مسائل اس کی دہلیز پر حل ہوں گے‘ سماجی انصاف اور کڑا احتساب اوّلین ترجیح ہوگی‘ قانون کا بول بالا ہوگا لیکن اقتدار ملتے ہی خدا جانے کون سا آسیب ہے جو اِن کے سبھی دعووں اور وعدوں کو اس طرح نگلتا چلا جاتا ہے کہ ندامت اور شرمندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
ان شوقِ اقتدار کے ماروں کو احساس ہے نہ اس بات کا خیال کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ غیرتِ قومی اور ملکی استحکام کو کس نہج پر لے آئے ہیں۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ کوئی دانشوری کے نام پر تو کوئی رہبری کے نام پر مقتدرہ کو اپنے نشانے پر لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے یہ اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ ان کے زبان و بیان بھارتی میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا ان کے حوالے دے کر پاکستان کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بھارت ان کی خواہشات اور ایجنڈوں کی ترجمانی کر رہا ہے یا یہ بھارت کے ترجمان بن بیٹھے ہیں۔ عمران خان ایک ایسی کھیپ تیار کر چکے ہیں جو ملکی سالمیت اور استحکام سے بے نیاز ہو کر اس بیانیے کی پرچارک بن چکی ہے جو کہ بھارت جیسے مکار دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی ایجنسیاں اس خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں کہ جو کام وہ 75برس میں نہیں کر سکے‘ وہ پاکستان میں آٹو پر لگ گیا ہے۔ مقام فکر ہے کہ پاکستان میں اس افراتفری کا فائدہ عمران خان کو ہوتا ہے یا نہیں لیکن بھارت ضرور بینی فشری بنتا چلا جا رہا ہے۔ سفاک اور مکاّر دشمن شادیانے بجا رہا ہے کہ پاکستانی معیشت کی دھول اُڑ چکی ہے‘ داخلی استحکام اور خارجی محاذ دونوں پر بھارت کسی ناگ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا ہوا ہے‘ سانحہ آرمی پبلک سکول ہو یا سمجھوتا ایکسپریس میں آتشزدگی کی بربریت سمیت جابجا دہشت گردی کی بے رحم کارروائیاں‘ ان سبھی کے پیچھے بھارتی چہرہ بے نقاب ہے۔ اس بے نقاب چہرے کو پہچاننے کے بجائے اس کی بلائیں لینے والے کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ بھارت کی پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش میں شریک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
بھارت تو پاکستان میں معاشی بدحالی‘ بدامنی‘ افراتفری اور بھوک ننگ کا پہلے ہی خواہشمند ہے۔ اس کی خواہشات کو دوام بخشنا کہاں کی حب الوطنی ہے؟یاد رکھیے! پاک فوج واحد بھرم ہے جو ہمیں اب تک سنبھالے ہوئے ہے جو بین الاقوامی چیلنجز اور داخلی انتشار میں کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔ خدارااس بھرم کو قائم رہنے دیں‘ میرے منہ میں خاک‘ خدا نہ کرے اگر یہ بھرم ٹوٹا تو سبھی کچھ چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ بیانیے‘ یہ دانشوریاں‘ یہ ریٹنگ سمیت سبھی کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ سیاست بھی کیجئے‘ دانشوریاں بھی شوق سے بگھاریے لیکن پاک فوج کی ناقابلِ فراموش قربانیوں کو اس طرح فراموش نہ کریں‘ مملکتِ خداداد کی سالمیت کی علامت کی خیر مانگیے‘ اسی میں ہم سب کی خیر ہے۔