عمران خان اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی اور عدالتی ریلیف جاری ہے۔ تھوک کے بھاؤ مقدمات کے باوجود عمران خان ریلیوں کی صورت میں اپنے طریقے سے عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ منٹوں کا سفر کئی کئی گھنٹوں میں طے کر کے عدالتوں میں پہنچتے ہیں‘ تاہم یہ اعلیٰ ظرفی اور بڑائی ہے کہ ہے کہ خان صاحب کسی بھی وقت آن پہنچیں ان کی شنوائی اور کیس کی سماعت کے لیے عدالتیں اور عملہ منتظر ہوتا ہے۔ انصاف کی فراہمی اور سائل کی دادرسی عدل و انصاف کے فرائض منصبی کا خاصہ ہے۔ لاہور میں دہشت گردی کے مقدمات ہوں یا اسلام آباد میں زیر سماعت کیسز ان سبھی میں عدالتی ریلیف اور گرفتاری سے روکنے کے احکامات کے بعد طوفان میں ٹھہراؤ کا سماں ہے۔ خدا خیر کرے میرے لاہور کی... جہاں سیاسی اکھاڑے نے شہریوں کی زندگی اجیرن اور کاروبارِ زندگی مفلوج کر ڈالا ہے۔
ایک قریبی ملنے والے کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نجانے کیوں یاد آئے چلا جا رہا ہے۔ موصوف کے کسی کے ساتھ کاروباری معاملات کیا بگڑے کہ پارٹنر نے یکطرفہ جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔ خبر ہونے پر کسی کے مشورے پر فوری عبوری ضمانت کروا آئے۔ ایک دن صبح صبح پیشی پر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں کسی حکومتی شخصیت کا روٹ لگا ہوا تھا اور پولیس نے راستے بند کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے کافی منت سماجت کی کہ بھائی مجھے عدالت میں پہنچنا ہے اگر میں بروقت نہ پہنچا تو میری ضمانت منسوخ ہو جائے گی۔ ڈیوٹی پر کھڑے اہلکار نے بات سننا تو درکنار الٹا دھتکار کر پرے دھکیل دیا۔ مرتے کیا نہ کرتے حکومتی شخصیت کی سواری جلد آنے کی دعائیں کرنے لگے لیکن وی آئی پی تو اپنی مرضی سے آتے ہیں‘ انہیں کیا پتہ کہ راستے میں کھڑے عوام کن مسائل اور عذابوں سے دوچار ہیں۔ خدا خدا کر کے سواری گزری‘ جیسے تیسے پہنچے عجلت میں گاڑی کھڑی کی‘ بھاگم بھاگ عدالت پہنچے تو معلوم ہوا کہ چند منٹ پہلے موصوف کا نام پکارا گیا لیکن حاضر نہ ہونے کی وجہ سے ضمانت منسوخ کر دی گئی۔ اس مختصر وقت میں مدعی نے تفتیشی افسر سے سازباز کچھ یوں کی کہ موصوف کے عدالت پہنچتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت نے دہائی سنی نہ دوبارہ شنوائی کا موقع دیا۔ موصوف کو پھر اسی عذاب سے گزرنا پڑا جو مدعی اور پولیس آپس میں طے کر چکے تھے۔ گرفتاری کی اطلاع گھر پہنچی تو بیٹی پر غشی طاری ہوگئی اور بوڑھی ماں کو فالج کا اٹیک ہوگیا۔ مدعی سے معاملات اور قانونی چارہ جوئی میں کئی روز لگ گئے‘ بھاری مالی صدمے کے علاوہ عزتِ سادات بھی گنوا آئے۔ موصوف کی والدہ پر فالج کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور بیٹی تادیر ذہنی ٹراما کا شکار رہی۔ اس واقعہ کو سیاسی تناظر میں ہرگز نہ لیا جائے۔
زمان پارک کو نائن زیرو کا ماڈل بنانے میں تحریک انصاف کے اتحادی وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ عالم ہے کہ ریاستی اداروں کے لیے عمران خان کی رہائشگاہ ناقابلِ تسخیر قلعہ بن چکی ہے۔ یہ حالات مستقل منظرنامہ بنتے چلے جا رہے ہیں‘ شہر کا نظام درہم برہم ہے‘ کام کاج پر جانے والے ہوں یا سکول کالج جانے والے‘ کہیں پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے تو کہیں کمائی کا‘ کہیں روزمرہ کے معمولات پر جمود طاری ہے تو کہیں روزگار نہ ملنے سے نحوست کا عالم ہے‘ ہوشربا مہنگائی میں گھنٹوں ٹریفک جام رہنے سے پٹرول کا خرچ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
مملکتِ خداداد کے تیزی سے بگڑتے حالات اور درپیش چیلنجز کی جمع تفریق کا حاصل یہ ہے کہ گزشتہ چند مہینے کئی دہائیوں پر بھاری ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کے بعد امریکی مداخلت اور امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ سپرہٹ ہونے کے بعد یوں لگا کہ توڑی کی پنڈ کھُل گئی اور ملک بھر میں آندھی چل پڑی۔ سیاست میں اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ تشدد اور ماردھاڑ کا رنگ ایسا غالب آیا کہ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ عالمِ نزع میں وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کی روح تو کب کی پرواز کر چکی ہے حکومتی سقراط و بقراط آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے وینٹی لیٹر بھی برابر چلائے جا رہے ہیں اور عوام کو جھوٹی تسلیاں بھی دئیے جا رہے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ دار جہاں حکومتی اتحاد ہے وہاں عمران خان کو بھی ان کے حصے کا کریڈٹ ضرور لینا چاہیے۔ پورے ملک میں منافرت کی آندھی چلا کر چند مہینے بعد ہی عمران خان امریکی مداخلت کے بیانیے سے منحرف ہو کر خود ہی کہنے لگے کہ وہ امریکہ نہیں تھا۔
عمران خان کی طرزِ سیاست کے نقطے ملائیں تو بننے والی شکل میں مجھے اپنا ہی ایک کالم بعنوان ''پردے ہٹتے چلے جا رہے ہیں‘‘ بے اختیار یاد آرہا ہے۔ اس کی چند سطریں ہی ان کے بیانیے کا ڈی این اے کرنے کے لیے کافی ہیں: ''خیبر پختونخوا میں امریکی سفیر کی غیر معمولی آؤ بھگت‘ ناز برداریاں اور پس منظر میں یو ایس ایڈ کی برانڈنگ کے ساتھ فوٹو سیشن کروانے والے تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پھولے نہیں سما رہے۔ تحریک انصاف کے رہنما ''امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ اور امریکہ مخالف بیانیے ٹاپ ٹرینڈ بنا کر نہ صرف خود فریبی کا شکار ہیں بلکہ عوام کو بھی مسلسل گمراہ اور بیوقوف بنائے چلے جارہے ہیں۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بیچنے والے اپنی صفوں میں درجنوں گرین کارڈ چھپائے اور امریکی سفیر کی جی حضوری پر مجبور ہیں۔ سارے پردے ہٹتے چلے جارہے ہیں۔ چہرے بے نقاب اور نیتیں عیاں ہو چکی ہیں لیکن بیانیوں کے سحر میں مبتلا عوام کی آنکھوں سے وہ پردہ ہٹتا نظر نہیں آتا جو ان کی عقل پر ڈالا جا چکا ہے۔ حالانکہ ان سبھی کے روپ بہروپ اور تضادات عوام اپنی آنکھوں سے روز دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اداروں کے بارے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے والے ہوں یا ٹی وی سکرین پر‘ دونوں اپنی دکانداری چمکانے کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں جو اس دھرتی کے خلاف سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ خدا جانے کون کس ایجنڈے پر اور کس کے اشاروں پر کام کررہا ہے‘ تاہم ایک معمہ اب بھی حل طلب ہے کہ سازش کا شور مچانے والے اکثر افراد چور مچائے شور کے مصداق کیوں نظر آتے ہیں؟‘‘
عمران خان کی گرفتاری کی حکومتی کوششوں پر بین الاقوامی ردِّعمل اور دلچسپی صورتحال کو مزید ڈرامائی اور دلچسپ بنائے چلی جا رہی ہے۔ یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ مملکتِ خداداد کا چند مہینوں میں ہونے والے حشر نشر کا ذمہ دار حکومتی اتحاد کو ٹھہرایا جائے یا اس کا کریڈٹ عمران خان کی طرزِ سیاست کودیا جائے؟ ا س کا فیصلہ آنے والا وقت اور مورخ ہی کرے گا۔ غیر مستحکم پاکستان کے خواب دیکھنے والا امریکہ بہادر ہو یا دیرینہ اور مکّار دشمن بھارت‘ جو کام وہ 75برسوں میں نہ کر سکے تحریک انصاف کے بیانیے نے وہ چند ماہ میں کر ڈالا۔ بین الاقوامی میڈیا بالخصوص بھارتی ذرائع ابلاغ پر توجہ کریں تو ہمارے ملکی حالات کو تماشا بنا کر صبح شام دکھایا جا رہا ہے۔ اقتدار کے معرکہ میں رونما ہونے والا سانحہ مشرقی پاکستان ہو یا افغان جہاد‘ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک بنناان سبھی ایشوز پر سبھی کے اپنے اپنے سچ اور اپنے اپنے بیانیے ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ پورے سچ کی کڑواہٹ پینی ہی پڑتی ہے۔ اسی طرح آنے والے وقتوں میں قوم کو ایک اور کڑوے کسیلے سچ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ امریکہ مخالف بیانیے کا بینیفشری امریکہ کے علاوہ کون کون ہے؟