مفت آٹے کے حصول کی ناکام کوشش میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ فیصلہ سازوں کے لیے قابلِ فخر بات یہ بھی ہے کہ ''شہدائے آٹا‘‘ میں خواتین بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہیں۔ اسمبلیوں سے لے کر تمام شعبہ ہائے زندگی میں جس طرح خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں‘ اسی طرح انسانیت کی توہین کے سبھی مناظر میں خواتین بھی مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سرکار سے ملنے والی دھتکار اور پھٹکار بھی برابر بھگت رہی ہیں۔
تذلیلِ انسانیت سے لتھڑی ہوئی آئے روز ریلیز ہونے والی تصویریں سیاسی اشرافیہ کی نیت اور ارادوں کا ڈی این اے کرنے کے لیے کافی ہیں‘ یہ کس شانِ بے نیازی سے حاتم طائی بنے چند کلو غیرمعیاری آٹے کے تھیلے اپنی رعایا میں بانٹتے ہوئے فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ مفت آٹے کے حصول کے لیے ان ذلت آمیز قطاروں میں لگے عوام بھی سیانے ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ وہ یہ غیر معیاری اور ناقص آٹا کھا کر‘ بیمار ہوکر خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے بجائے ڈائریکٹ شہادت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک غیر معیاری آٹا کھا کر ہسپتالوں کے چکر لگانے‘ علاج معالجہ اور مہنگی دواؤں کے لیے دربدر پھرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ شہیدِ آٹا بن کر اس روز روز کی ذلت سے جان چھڑوا لے۔
مملکتِ خداداد میں حکمرانی کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ ان کے اقدامات اور فیصلے عوام کو شہادت کے مرتبے پر بھی فائز کر ڈالتے ہیں۔ اہلِ علم کو قوم کی رہنمائی ضرور کرنی چاہیے کہ جس طرح جل کر اور ڈوب کر مرنے والے شہادت کے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوتے ہیں‘ اسی طرح آٹے کے حصول میں جان گنوانے والوں کا کون سا اور کیا مقام ہے۔ ہر سال آنے والے سیلاب کے نتیجے میں جیتی جاگتی بستیوں کو بے رحم سیلابی ریلے بہا لے جاتے ہیں‘ کیچڑ میں لت پت مرد و زن سمیت معصوم بچوں کی اَن گنت لاشیں بھی تو شہیدوں کی لاشیں ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے سیاست دان انہیں کسی سرکاری اعزاز سے دفنانے کے بجائے ان کی لاشوں پر کھڑے ہوکر خاندان کے بچے کھچے افراد کو پرانے کپڑے اور راشن کے تھیلے بانٹے نظر آتے ہیں۔
مملکتِ خداداد کرۂ ارض پر واحد خطہ ہے جس میں بسنے والے جب چاہیں‘ جہاں چاہیں شہادت کا رتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عوام کے لیے اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دردِ دل رکھنے والے حکمران کروڑوں روپے خرچ کر کے کہیں ہیلی کاپٹر پر‘ تو کہیں ڈھیروں موٹر گاڑیوں کے ساتھ اعلیٰ انتظامی مشینری کی موجودگی میں خود آکر آٹا دیتے ہوئے تصویر بنواتے ہیں‘ یہ تصویر ان حکمرانوں کے لیے کتنی قیمتی ہے‘ اس کا اندازہ عوام نہیں کر سکتے۔ اس ایک تصویر کے لیے انتظامیہ کو کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں‘ یہ تو کوئی انتظامی افسران سے پوچھے کہ کس طرح وہ ہانک کر عوام کو اکٹھا کرتے ہیں اور مطلوبہ فوٹو سیشن کے بعد مچنے والی بھگدڑ میں بھلے کوئی ناحق ہی مارا جائے۔
آٹے کا گھاٹا عوام کو مسلسل خسارے سے دوچار کیے ہوئے ہے‘ جہاں جانیں گنوا کر بھی آٹا نصیب نہ ہو‘ ایک طرف آٹے کے تھیلے کے ساتھ پڑی لاش کی تصویر اور دوسری طرف اعلیٰ افسران کے جھرمٹ میں عوام کے محبوب وزیراعظم کی ایک بوڑھی عورت کو آٹے کا تھیلا تھماتے ہوئے تصویر ہی مملکت خداداد کا اصل چہرہ ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کو کیا خبر کہ آٹے کے ایک تھیلے کی قیمت انسانی جان سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے‘ گھر سے آٹے کے لیے نکلنے والے کی جب لاش گھر پہنچتی ہے تو ان سیاسی رہنماؤں کو کیا خبر کہ اس بدنصیب خاندان پر کیا قیامت ٹوٹتی ہے۔ جن کے پاس غیرمعیاری آٹا خریدنے کے پیسے نہ ہوں‘ وہ اس لاش کا کیا کریں گے‘ اس کا کفن دفن کہاں سے کریں گے‘ مرنے والے کو روئیں گے یا تدفین کے اخراجات کو روئیں گے۔ جہاں روزمرّہ کی ضروریات عزتِ نفس اور غیرت پر بھاری پڑ جائیں تو وہاں روٹی بندہ کھا جاتی ہے۔ شوقِ حکمرانی کے ماروں کو کیا پتا کہ ان کی رعایا گزر اوقات کیسے کرتی ہے۔ اکثریت کی حالتِ زار کچھ اس طرح ہے:
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
جلا کر آگ چولہے میں
بڑے سے دیگچے میں پھر
بہت سا پانی ڈالا ہے
کبھی چمچ چلاتی ہوں
کبھی ڈھکن ہٹاتی ہوں
مگر پتھر نہیں گلتے
میرے سب بچے بھوکے ہیں
مجھے بھی بھوک کھاتی ہے
نہ سالن ہے نہ روٹی ہے
فقط پتھر ہی باقی ہیں
پکانے کا سلیقہ ہے
بہت آساں طریقہ ہے
مگر پتھر نہیں گلتے
سنا ہے دور وہ بھی تھا
خلیفہ خود نکلتا تھا
کوئی بھوکا کوئی پیاسا
اگر اس رات ہوتا تھا
بھرا گندم سے اِک تھیلا
کمر پر لاد لاتا تھا
یہاں کوئی نہیں آتا
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
مجھے جو بھی میسر ہے
میں بچوں کو کھلا تو دوں
مگر پتھر نہیں گلتے
پون صدی بیت گئی‘ نسل در نسل حکمرانی کرنے والوں کے سیاسی وارث آج بھی وطنِ عزیز پر شوقِ حکمرانی پورے کرنے کے لیے گتھم گتھا اور دست و گریباں ہیں‘ ان 75برسوں میں کوئی لمحہ‘ کوئی دن کوئی سال ایسا نہیں آیا جس میں عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہو۔ آج پانچواں روزہ ہے اور چھ قیمتی جانیں آٹے کے گھاٹے کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں پر کیا بیتی ہر ایک کی اپنی اپنی داستان ہے۔ یہ صرف مرنے والوں کی لاشیں نہیں ہیں بلکہ یہ احساس کی لاشیں ہیں‘ یہ گورننس کی لاشیں ہیں‘ یہ نظام کی لاشیں ہیں‘ یہ تعفن زدہ اور بدبودار طرزِ حکمرانی کی لاشیں ہیں‘ اِدھر تو بس لاشیں ہی لاشیں ہیں۔