ایک طرف غیر موسمی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مفت سرکاری آٹے کے حصول میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی جاری ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 7بچوں کا باپ دشوار گزار اور ذلت آمیز مراحل کی تاب نہ لاتے ہوئے طرزِ حکمرانی کو پیارا ہو گیا۔ 53 سالہ راشد جمیل فٹ بال سٹیڈیم میں قائم مفت آٹا سنٹر کے مناظر کافی دیر جھیلتا رہا‘ جب اسے آٹے کے حصول میں یقینی ناکامی نظر آنے لگی تو ایسا دِل کا دورہ پڑا کہ ہسپتال پہنچ کر بھی جانبر نہ ہو سکا۔ آٹے کے منتظر بچوں کو جب باپ کی لاش دیکھنا پڑ جائے تو بے موسمی بارشیں کیوں نہ ہوں۔ اس پر نگران سرکار کے عذر‘ مضحکہ خیز قراردادیں یا ڈھٹائی اور سفاکی‘ ذرا غور تو فرمائیے! ایک وزیر کمال اطمینان سے فرماتے ہیں کہ آٹے کے حصول میں مارے جانے والوں میں اکثر کی وجۂ موت دِل کا دورہ ہے۔ ذلت آمیز حالاتِ پریشاں میں دِل کا دورہ ہی پڑتا ہے‘ بھگدڑ کسی بیماری کا نام ہے نہ دھکم پیل۔ گھر سے آٹا لینے کے لیے آنے والوں کو جب لاٹھی چارج اور دھتکار کا سامنا کرنا پڑے تو دلِ ناتواں کب توانا رہ سکتا ہے۔ دن دہاڑے کھلے آسمان تلے پیٹ کی آگ سے مجبور ہو کر ایک آٹے کے تھیلے کے لیے جانیں گنوانے والوں پر کیا گزری ہوگی‘ اس کا اندازہ فیصلہ سازوں کو اگر ہوتا تو وہ ایسی اموات کے عذر پیش کرنے کے بجائے اپنی طرزِ حکمرانی پر غور کرتے۔ چشم فلک ان سبھی تماشوں کو دیکھ کر واضح اشاروں سے مسلسل باور کرا رہی ہے کہ یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے اور ناحق مرنے والے بھی بارگاہِ الٰہی میں یہی فریاد کرتے ہوں گے کہ:
سورج تھا میرے سر پہ مگر رات ہو گئی
میرے کارڈیالوجسٹ نے مجھے سختی سے تاکید کی ہوئی ہے کہ ذہنی دباؤ سمیت ان تمام عوامل سے خود کو کوسوں دور رکھوں جو دلِ ناتواں پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ معالج کی طرف سے تجویز کی گئی چند احتیاطوں میں سے سب سے اہم دلِ ناتواں کو ایسے سبھی حالاتِ پریشاں سے دور رکھنا بھی شامل ہے جو دل کا کام تمام کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں کالم آرائی پُرخطر مرحلہ اس لیے بھی ہے کہ بائی پاس (اوپن ہارٹ سرجری) تک یہ سبھی احتیاطیں علاج کا حصہ قرار دی جا چکی ہیں۔ ایسے میں حالاتِ پریشاں سے جڑے موضوعات اور ملک بھر میں لگے تماشے دل کو صدمات سے براہِ راست دوچار کرنے کا باعث ہوں تو ڈاکٹر کے تاکیدی نسخوں پر عمل کیونکر ممکن ہے۔
تختِ پنجاب کے لیے الیکشن کمیشن نے عدالتی احکامات کے بعد انتخابی شیڈول جاری کر دیا ہے۔ تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی منڈی ریکارڈ توڑ زوروں پر ہے تو حکومتی اتحاد میں یہ منڈی مندی کا شکار ہے۔ ایک طرف عالم یہ ہے کہ ٹکٹ لینا کس طرح ہے‘ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ٹکٹ لینا کس نے ہے۔ انتخابی شیڈول آنے کے بعد حکومتی اتحاد اور نگران سرکار 14مئی کو انتخابات کی کڑوی گولی کھاتے ہیں یا کوئی نیا تاخیری حربہ اختیار کرتے ہیں‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
عیدالفطر کے بعد انتخابی مہم نہ صرف زور پکڑے گی بلکہ سڑکوں اور گلی محلوں میں زور آزمائی کے مناظر بھی دیکھے جا سکیں گے۔ انتخابات سے بھاگنے والے کہاں تک بھاگیں گے اور ان کے تعاقب میں تحریک انصاف انتخابی مرحلے تک کیونکر پہنچ پاتی ہے‘ کہانی بہ آسانی سلجھتی ہے یا مزید الجھائی جاتی ہے‘ یہ سبھی معمے آخری وقت تک حل طلب ہی رہیں گے۔ عید کے بعد تختِ پنجاب کا معرکہ مارو مار کا منظر بننے جا رہا ہے۔ انتخابات کے لیے انتظامی افسران کی تبدیلی کا مطالبہ نگران سرکار کے لیے ایک اور کٹھن مرحلہ بن سکتا ہے جبکہ دور کی کوڑی لانے والے انتخابی دنگل کو وہ فری سٹائل ریسلنگ قرار دے رہے ہیں جس میں رولز اور قواعد و ضوابط کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا اور مخالف پہلوان کا ہاتھ پاؤں توڑنے سے لے کر آنکھ بھی پھوڑی جا سکتی ہے جبکہ شائقین پر بھی گھونسوں اور لاتوں کی بارش کے علاوہ کرسیاں بھی اچھالی جا سکتی ہیں؛ تاہم ایک دوسرے کے مدمقابل پہلوان اور شائقین اپنے اپنے رِسک پر اس دنگل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نا سمجھے وہ اَناڑی ہے۔
14مئی کو الیکشن ہوتے ہیں یا کوئی تاخیری حربہ کارگر ثابت ہوتا ہے‘ ان دونوں صورتوں میں متوقع حالات کا منظرنامہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ جو اشتعال‘ بغض اور للکارے ملکی سیاست کا خاصا بن چکے ہیں‘ وہ سبھی آنے والے دنوں میں انتخابی میدان کو انگار وادی بھی بنا سکتے ہیں۔ نفرت اور انتشار کی سیاست نے سیاسی رواداری سمیت تحمل اور برداشت کو اس طرح نگل ڈالا ہے کہ متوقع منظرنامہ سنگین اور خوف کا استعارہ بننے جا رہا ہے۔ تعجب ہے کہ عوام ان سبھی کی حکمرانی کے رنگ اور روپ بہروپ برابر دیکھ چکے ہیں۔ انتخابات کے لیے بضد تحریک انصاف ہو یا انتخابات سے بھاگنے والا حکومتی اتحاد‘ کسی کے پلے کچھ نہیں۔
گورننس اور میرٹ کے حشر نشر سے لے کر آئین کے انحراف کے علاوہ قانون کو موم کی ناک بنانے والوں نے سرکاری وسائل پر بندہ پروری اور کنبہ پروری کی کیسی کیسی داستانیں رقم کی ہیں‘ ان سبھی کو دہرانے کے لیے یہ سارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور دست وگریباں ہیں۔ کسی کو عوام کے مسائل سے سروکار ہے نہ احساس‘ ایسے میں کچھ اندیشے اور وسوسے حالاتِ پریشاں کو کچھ اس طرح مزید پریشاں کرنے کا باعث ہیں کہ ماضی کے سبھی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی عوام کی درگت کے بعد اب دیکھنے کو کیا باقی رہ گیا ہے۔ عوام پر ٹوٹنے والے عذابوں کا حل انتخابات میں نہیں بلکہ ان سبھی سیاست دانوں کی نیتوں اور ارادوں میں ہے۔ جب تک ان میں کھوٹ باقی ہے عوام کی قسمت کھری نہیں ہو سکتی۔ اس تھیوری کو تقویت دینے کے لیے اپنے ہی ایک حالیہ کالم ''الیکشن یا آکشن‘‘ کی کچھ سطریں دہرانے جا رہا ہوں:
''اقتدار تو کسی ایک فریق کو ملنا ہی ہوتا ہے۔ الیکشن کے بجائے اگر آکشن کروا لی جائے تو انتظامی مشینری کو متنازع ہونے سے بھی نہ صرف بچایا جا سکتا ہے بلکہ جگہ جگہ لگی منڈی میں صبح شام اپنے اپنے اراکین کی گنتی اور تعداد پوری کرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے اور اراکین کی خریدو فروخت پر خرچ ہونے والا کالا دھن بذریعہ بولی سرکاری خزانے میں جمع ہونے سے سفید بھی کروایا جا سکتا ہے۔ جو زیادہ بولی لگائے‘ اسے اقتدار منتقل کردیا جائے اور ایک طے شدہ مدت کے بعد دوبارہ بولی لگا کر انتقالِ اقتدار کے عمل کو دہرایا جا سکتا ہے۔ اس طرح انتخابات پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور ہارس ٹریڈنگ سے آنے والی خطیر رقم کی لاگت قومی خزانے کا حصہ بن کر معیشت کو سنبھالا دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین اور شرمناک الزام لگانے کے بجائے سیاستدان آپس میں پُول کرکے‘ بولی لگا کر اقتدار حاصل کرکے حصہ بقدرِ جثہ کے فارمولا کے تحت اقتدار کا بٹوارہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور آئے روز کے سخت مطالبات سے بھی جان چھوٹی رہے گی۔ گویا جو لگائے گا وہی حکومت چلائے گا۔ نہ وضاحتوں کی حجت نہ روٹھوں کو منانے کا جھنجٹ۔ نہ کسی کو خریدنے کی ضرورت۔ نہ کسی کو استعفے پر آمادہ کرنے کے ترلے۔ الغرض ان سبھی بدعتوں سے مکمل جان چھوٹنے کے علاوہ صادق اور امین کا ڈھونگ رچانے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بس انتقالِ اقتدار الیکشن کے بجائے آکشن کے ذریعے کرنا ہوگا‘‘۔