اخبارات کے ڈھیر میں اداروں کے ٹکراؤ کی خبروں سمیت کچے کے علاقے میں آپریشن اور توشہ خانہ کا 54سالہ ریکارڈ طلب کرنے کی خبریں اضافی طور پر منہ چڑاتی نظر آ رہی ہیں۔ جب تک مفادات کے مارے ریاست اور سیاست سے چپکے رہیں گے‘ ادارے بھی آپس میں ٹکراتے رہیں گے۔ اہداف اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے اداروں کا استعمال اور ان سے کھلواڑ کی روایت روزِ اوّل سے جاری ہے۔ یوں لگتا ہے سبھی حکمرانوں کے لیے پورا ملک ہی توشہ خانہ ہے۔ دوسری طرف سندھ کے بارڈر اور کچے کے علاقے کو جرائم کی آماجگاہ بنانے میں ان سبھی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کس کس کا رونا روئیں‘ شوقِ حکمرانی کے ماروں کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو روئیں یا ان سمجھوتوں کو روئیں جو یہ ملک و قوم کو داؤ پہ لگا کر کرتے چلے آرہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان سبھی نے مملکتِ خداداد کو حصہ بقدرِ جثہ کہیں توشہ خانہ تو کہیں کچے کا علاقہ ہی بنا ڈالا ہے۔ اخلاقیات سے لے کر فرائض و ذمہ داریوں سمیت سبھی کو یوں فراموش کرتے چلے آئے ہیں کہ حکومتی ڈھانچہ ہو یا انتظامی ڈھانچہ‘ دونوں ہی محض ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔
قصور توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کرنے والوں کا نہیں بلکہ اس بھوک کا ہے جو زمانے بھر کی نعمتوں کی دستیابی کے باوجود ان کی نظروں اور ذہنوں سے آج تک نہیں گئی۔ یہ بھوک ان سبھی کو اس قدر بے بس اور بے حال کر ڈالتی ہے کہ یہ ہاتھ روک ہی نہیں پاتے‘ ادنیٰ اور حقیر چیزوں سے لے کر مہنگے ترین تحائف امتحان بن کر رہ جاتے ہیں اور یہ سبھی جنموں کے بھوکے اس امتحان میں نہ صرف بری طرح فیل ہوتے چلے آرہے ہیں بلکہ ان کی بھوک مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہو رہی ہے۔ اقتدار اور اختیار کے علاوہ مال و زَرّ کے انبار اور پُرتعیش طرزِ زندگی کے باوجود یہ سبھی تہی دست اور بھوکے ہی پائے گئے ہیں۔
بالخصوص ضیاء الحق دور میں لگائی گئی سیاسی پنیری کے بارے میں بجا طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آج وسیع و عریض انڈسٹری بن چکی ہے۔ سائیکلوں پر پھرنے والے ہوں یا پیدل دھکے کھانے والے‘ آج جہازوں سے نہیں اترتے۔ کیسے کیسوں کے دن کس طرح پھرے ہیں؟ اپنے دن پھیرنے کے چکر میں چلائے گئے چکروں سے پوری قوم کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اقتدار کی بھوک ہو یا مال اسباب کی‘ یہ بھوک نسل در نسل بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ عالیشان محلات اور بین الاقوامی برانڈ کی مہنگی ترین پوشاکوں اور لگژری گاڑیوں میں کیسے کیسے بھوکے اور ضرورتمند سیاسی نیتا بنے کس طرح اترائے پھرتے ہیں۔ جو لوگ قومی خزانے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں پر ہاتھ صاف کرنے سے نہیں کانپے‘ ان کے لیے توشہ خانہ پر ہاتھ کی صفائی دِکھانا کوئی معیوب بات کیسے ہو سکتی ہے۔ حلال حرام سے بے نیاز اپنے دن بدلنے اور نسلیں سنوارنے والوں نے غیرت قومی سے لے کر اَنا اور خودداری کو بھی بے معنی کر ڈالا ہے۔
اداروں کے ٹکراؤ سے شروع ہونے والی بات کا اگر پوسٹ مارٹم کریں تو رپورٹ واردات کی سنگینی کو مزید بڑھا ڈالتی ہے۔ اداروں کا ٹکراؤ دراصل خواہشات اور حسرتوں کا ٹکراؤ ہے۔ ایجنڈوں اور دھندوں کا ٹکراؤ ہے۔ ضرورتوں اور مجبوریوں کا ٹکراؤ ہے۔ اداروں کو تو محض استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی نیتاؤں کی شنوائی اور ریلیف کے لیے 24 گھنٹے دروازے کھلے ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی ہنگامی قراردادیں عوام اور ان کے مسائل سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ ضمانتیں‘ ریلیف اور رہائیاں تو بس اشرافیہ کا استحقاق بن کر رہ چکی ہیں جبکہ عوام کو نہ کہیں ریلیف ملتا ہے اور نہ ہی انسانی زندگی کی ضمانت۔ عوام پون صدی سے نامعلوم جرم کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتوں کا شکار ہیں۔ نہ احترامِ آدمیت ہے‘ نہ کہیں احساسِ انسانیت۔ نہ کہیں شنوائی ہے اور نہ ہی کوئی دادرسی۔ ادارے بھی شخصیات سے منسوب اور مشروط ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ کوئی مستقل پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ اور اصول‘ سبھی کچھ شخصیات کے دم قدم سے اور انہی کے مرہونِ منت ہے۔ عوام کا جہاں اور ہے‘ خواص کا جہاں اور... قوانین اور اخلاقیات بھی جدا جدا ہیں۔ ضرورتمندوں نے مجبوریوں اور سمجھوتوں کا وہ بازار گرم کیا ہوا ہے کہ ہر طرف دھندے کا سماں ہے۔
مینڈیٹ کی خریدو فروخت سے لے کر ضمیر کی بولی لگوانے والوں کے عہد میں توشہ خانہ کی کیا حیثیت ہے۔ جن کے لیے پورا ملک چراگاہ ہو‘ آنکھ کا اشارہ حکم اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون پر بھاری پڑ جائیں‘ آئین اور ضابطے بے بس ہوں‘ سرکاری وسائل کی بندر بانٹ رواج ہو‘ اقتدار کا بٹوارا ضرورتوں کی دلالی ہو‘ قومی خزانے پر بندہ پروری اور کنبہ پروری استحقاق ہو‘ طرزِ حکمرانی من مانی ہو وہاں توشہ خانہ کے تحائف پر اتنا واویلا‘ تعجب ہے! بخدا ملک کے طول و عرض میں کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں جس کے بارے میں انگلی اٹھا کر گواہی دی جا سکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر دیا۔ کسی کے پلے کچھ نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے عوام کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی کے لیے پورا ملک ہی کہیں توشہ خانہ تو کہیں کچے کا علاقہ ہے۔ جس طرح کچے کا علاقہ خطرناک مجرموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ اور قلعے کی حیثیت رکھتا ہے‘ اسی طرح ان سبھی کے لیے سیاست بھی وہ ڈھال ہے جو انہیں سبھی بداعمالیوں کے باوجود بچائے چلی جا رہی ہے۔
اس بار یوں لگتا ہے کہ کچے کے علاقے میں پناہ لیے ہوئے ان ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کی اس بار خیر نہیں! نگران وزیراعلیٰ خاصے سنجیدہ اور آئی جی پنجاب تو اگلے مورچوں پر خود جا پہنچے ہیں۔ اپنی فورس کے شانہ بشانہ آپریشن میں شریک ہیں۔ ایسے آپریشن پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن یہاں بھی کہیں نہ کہیں مجبوریاں اور سمجھوتے آڑے آتے رہے ہیں۔ ساری ذمہ داری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالنا ایک اور خود فریبی ہو سکتی ہے۔ 1500مربع کلومیٹر کچے کا علاقہ صرف ڈاکوؤں کی آماجگاہ نہیں ہے۔ یہاں پر بنیادی ضروریات سے محروم لاکھوں نفوس کاشتکاری اور مویشی پال کر گزر اوقات کر رہے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ اگر سنجیدہ ہیں تو وہ کام بھی کر گزریں جس کی توفیق کسی وڈیرے اور عوامی نمائندے کو نصیب نہیں ہوئی۔ پل‘ سڑکوں اور رسائی کے بغیر یہ علاقہ جرائم پیشہ عناصر سے خالی نہیں کروایا جا سکتا۔ اس بار چند بوکے نکالنے کے بجائے کچے کے کنویں سے کتا ہی نکالنا ہوگا۔ یہ صرف لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر انتظامی اور سیاسی مسئلہ ہے۔ پل اور سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے جابجا جزیرے اور چڑھا ہوا پانی ان ڈاکوؤں کی بڑی ڈھال اور گھنے جنگل محفوظ پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔ جدید اسلحہ اور دشوار گزار راستوں سے واقفیت ڈاکوؤں کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا باعث ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ملک دشمن عناصر بھی کچے کے علاقے کو اپنا پکا قلعہ تصور کر رہے ہیں۔ مقامی آبادی‘ عورتوں اور بچوں کی وجہ سے ملٹری ماڈل آپریشن بھی قابلِ عمل آپشن نہیں ہے۔ پولیس اور نگران سرکار ایک پیج پر آہی گئے ہیں تو اس ناسور سے جان چھڑوانے کا نادر موقع ضائع نہ کریں۔