رحمتوں اور برکتوں والا ماہِ رمضان چند ہی گھنٹوں کا مہمان ہے۔ عین ممکن ہے کہ کالم کی اشاعت تک یہ ماہِ مقدس اپنی رحمتیں سمیٹ کر رخصت ہو چکا ہو اور آج عیدالفطر منائی جا رہی ہو۔ ایسی صورت میں دو خطبے پھر موضوع بن سکتے ہیں۔ خدا جانے یہ وہم کس نے پالا کہ دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں خطبے نہیں بلکہ ہمیشہ سے حکمران ہی ملک و قوم پر بھاری پڑتے چلے آئے ہیں۔ دو خطبوں کو موردِ الزام ٹھہرانے والوں نے نہ کبھی اپنی طرزِ حکمرانی پہ غور کیا ہے اور نہ ہی اپنی نیت اور ارادوں پر‘ یہ سبھی حکمران اقتدار سے نکالے تو میرٹ پر جاتے رہے ہیں لیکن دو خطبوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس بدعت کو دوام بخشتے چلے آئے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے اس مبارک مہینے میں رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کے بجائے سیاسی سرگرمیاں اور جلسے‘ جلوس زیادہ توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ اس رمضان المبارک میں تو سحر اور افطار کے اوقات میں بھی کھڑکی توڑ رش ہی دیکھنے میں نظر آیا ہے۔ دین کے ساتھ ساتھ دنیا سنوارنے والے سیاسی دنیا میں خاصے مگن رہے‘ بالخصوص آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کے بجائے انتخابی ٹکٹ کے لیے سیاسی درباروں پر حاضریوں کا رجحان غالب رہا۔ قائد سے ملاقات اور محض شکل دکھانے کے لیے کیسے کیسے جگاڑ اور منتیں ترلے کرنے والے نجانے کہاں کہاں سے آکر صبح شام دربار کے باہر پڑے دِکھائی دیے۔ جن کے گھروں میں نوکروں کی فوج اور خود ہِل کر پانی بھی نہیں پیتے‘ وہ قائد کی نظرِ انتخاب میں آنے کے لیے کبھی باورچی تو کبھی ویٹر بنے رہے‘ کبھی خاکروب تو کبھی ماشکی بن کر حاضری یقینی بناتے رہے۔ الغرض جو جس سے بن پڑا وہ کر گزرا‘ دور دراز شہروں سے آنے والے ٹکٹوں کے طلبگار مہنگے اور بڑے ہوٹلوں سمیت پوش علاقوں میں مقیم ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ وقت سیاسی دربار پر ہی گزارتے رہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد مایوس اور نامراد رہنے والے اپنے اپنے شہروں کو لوٹ چکے ہیں۔
عیدالفطر کے فوری بعد انتخابی سرگرمیاں اور گہما گہمی بھی بڑھتی چلی جائے گی لیکن انتخابات کا انعقاد تاحال ایک معمہ ہے۔ وزیر داخلہ دو ٹوک پیغام دے چکے ہیں کہ جتنا مرضی زور لگا لیں‘ الیکشن 14مئی کو ہرگز نہیں ہوں گے‘ سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت انتخابی اخراجات فراہم کرنے سے مسلسل انکاری ہے۔ ایسے میں نظریں عدالت عظمیٰ کی طرف لگی ہوئی ہیں‘ حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سیاستدان ایک پیج پر آجائیں تو نہ صرف اس بحران کا حل نکل سکتا ہے بلکہ ملک بھر میں انتخابات بھی ایک ہی دن کرائے جا سکتے ہیں‘ اگر یہ سبھی متفق نہ ہوئے تو پنجاب کے انتخابات 14مئی کو ہی ہوں گے۔
حکمران اتحاد ملک بھر میں ایک دن انتخابات کروانے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار اور اس سے جڑے سبھی آپشنز پر غور کا عندیہ دے چکا ہے۔ آصف علی زرداری مذاکرات کے لیے سرگرم اور پیش پیش ہیں جبکہ عمران خان مذاکرات کے موڈ میں نظر نہیں آرہے۔ اس اعصابی جنگ میں عمران خان اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہے تو مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈھیروں سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ مذاکرات کے جال میں پھنس گئے تو ناقابلِ تلافی خسارا بھی ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم کا انتخاب سے فرار اور تحریک انصاف کا اصرار دیکھ کر ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ''آٹھ بھائی اکٹھے کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں مخالفین سے مڈبھیڑ کے نتیجے میں سبھی کی اچھی خاصی پٹائی ہوگئی‘ مار کھا کر گھر لوٹے تو باپ نے انتہائی غصے سے کہا کہ تم آٹھ کڑیل جوان بھائی شرم سے ڈوب مرو‘ تمہارا یہ ڈیل ڈول اور جوانی کس کام کی کہ تمہیں شریکوں نے اس بے دردی سے پیٹا ہے۔ اُن میں سے ایک بولا: اَبّا جی! ہم آٹھ اکیلے اور وہ دو کا ٹولہ‘ پٹتے نہ تو اور کیا کرتے‘‘۔ یہاں تو معاملہ دو اور آٹھ کا نہیں بلکہ 14جماعتی اتحاد ایک طرف جبکہ مدمقابل اکیلا عمران خان ہے‘ گویا یہ چودہ اکیلے اور وہ ایک کا ٹولہ۔
ایک طرف انتخابات سے حکومتی انکار اور عمران خان کا اصرار ہے تو دوسری طرف حکومتی اتحاد کا مذاکرات پہ اصرار ہے اور عمران خان کا انکار ہے‘ انکار اور اصرار میں پینڈولم بنی یہ سیاست ملک کو بحران در بحران سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ تاہم عمران خان کا انکار اور اصرار دونوں ہی ان کے بہت کام آرہے ہیں۔ ایسے میں بزرگوار ظفر اقبال کا یہ شعر عمران خان کی سیاست اور حالات پر فٹ بیٹھتا ہے:
خود کو ترتیب دیا آخرِ کار از سر نو
زندگی میں ترا انکار بہت کام آیا
گزشتہ ایک برس میں انہوں نے جس طرح خود کو از سر نو ترتیب دیا ہے‘ وہ بجا طور پر گیم چینجر ہے۔ گیم کیا‘ پوری بساط ہی پلٹ ڈالی ہے۔ پچھلے برس اپریل میں مقبولیت کا گرا پڑا گراف اس اپریل میں کوہ ہمالیہ پر بیٹھا آسمانوں کو چھو رہا ہے۔ عالم یہ تھا کہ تحریک انصاف کے وزرا اور اراکینِ اسمبلی گھبرائے ہوئے تھے کہ آئندہ انتخابات کیسے لڑیں گے؟ حلقوں میں کس منہ سے جائیں گے؟ اکثر تو مسلم لیگ(ن) سے رابطے اور مراسم اس لیے بڑھا رہے تھے کہ کہیں مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ ہی وقت کی ضرورت نہ بن جائے لیکن ازسرنو ترتیب کے بعد وقت نے وہ پلٹا کھایا کہ عقل حیران اور اچھے اچھے دانتوں میں انگلیاں دابے ہوئے ہیں‘ یہ کیا جادوئی سیاست ہے کہ اقتدار میں تھا تو ساکھ کے علاوہ اگلے الیکشن کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ قصرِ اقتدار سے نکلتے ہی پذیرائی کی وہ آندھی چلی کہ مقبولیت کو ایسے پَر لگے کہ جو دیکھا نہ سنا۔
دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ ان حالات میں عمران خان کا نہ کوئی کردار ہے نہ کوئی کمال‘ یہ سبھی کرشمے قدرت کے ہیں‘ جو سبھی کو اپنے رنگ برابر دِکھا رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد لانے والوں کی ساری تدبیریں اور ترکیبیں اُلٹ پُلٹ اور سبھی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آسمانوں پر کچھ اور ہی طے تھا یوں لگتا ہے کہ حکمران اتحاد کی توڑی کی پنڈ کھل چکی ہے اور تیز آندھی رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور سبھی ہوا کے دوش پر خشک پتوں اور سوکھے تنکوں کی طرح اُڑے چلے جا رہے ہیں‘ انتخابات کہیں خود کشی تو کہیں موت نظر آرہے ہیں۔ پانچ مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے مزے لینے والی پارٹی آج انتخابات سے بھاگتی اور گھبرائی پھر رہی ہے۔ مملکتِ خداداد پر کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے اس مقام پر آ پہنچنے ہیں کہ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ سبھی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ہاتھ کی صفائی کا کمال ہے کہ ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور ان کا دامن بھی۔ انتخابات سے بھاگتے بھاگتے اس بند گلی میں داخل ہوتے چلے جا رہے ہیں جہاں 70ء کی دہائی کی بازگشت بھی برابر سنائی دے رہی ہے۔ انتخابات سے انکار ہو یا فرار دونوں صورتوں میں ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ضد لگانے کے بجائے تاریخ سے سبق سیکھ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔