عمران خان بھی کتنے سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار سے دوا لے بیٹھے۔ فرماتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر اسمبلیاں توڑ ڈالیں۔ بیانیہ ہو یا موقف‘ دونوں کو یکسر بدلنے کے جو ریکارڈ خان صاحب نے قائم کیے ہیں ان کی تفصیل میں جائیں تو ایسے کئی کالم درکار ہوں گے۔ ایک سال قبل امریکی مداخلت کا بیانیہ بیچ کر مقبولیت کے کوہِ ہمالیہ پر براجمان عمران خان اس بیانیے سے تو کب کے دستبردار ہو چکے ہیں۔ عوام بھی سادگی میں اپنے لیڈروں سے کئی ہاتھ آگے پائے گئے ہیں۔ کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ان سے پوچھیں تو سہی کہ کون سی سازش اور کیسی مداخلت؟ بعض لوگوں کے خلاف سازش کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود اپنے خلاف سازش میں صبح و شام مصروف رہتے ہیں۔ جس جنرل باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں‘ اسی کے کہنے پر اسمبلیاں ہی توڑ ڈالیں۔ خیر! خان صاحب کی طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت دونوں ہی کے رنگ نرالے ہیں۔ ایسے میں ایک شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے:
آپ کو اپنی تمکنت کی قسم کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے
جانے مجھ سے یہ کون کہتا تھا آپ اپنا خیال تو رکھیے
اہم ترین فیصلے ہوں یا ان کے بدترین نتائج‘ وہ سبھی کی ذمہ داری سے برابر بچتے اور انہیں دوسروں پر ڈالتے چلے آئے ہیں۔ ان کے پاس ہر غلطی اور بلنڈر کا گھڑا گھڑایا جواز اور ریڈی میڈ توجیہات موجود رہتی ہیں۔ تختِ پنجاب کے انتخابی معرکے کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم حلقوں کے عوام سمیت خود تحریک انصاف کے لیے بڑا سرپرائز ہے۔ عثمان بزدار سے شروع ہونے والی سرپرائز سیریز تاحال جاری ہے۔ کئی مہینوں سے زمان پارک میں صبح و شام حاضری اور میلے لگانے والے اب تلملائے اور بوکھلائے ہوئے پھر رہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر عدم اطمینان اور الزامات کی بازگشت برابر سنائی دے رہی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے برملا کہتے ہیں کہ جنہوں نے عمران کے درشن پر مہنگی ٹکٹ لگا رکھی تھی‘ انہوں نے انتخابی ٹکٹوں میں بھی لمبا مال بنایا ہے۔ عمران احمد خان نیازی کی طرف سے روایتی بے نیازی کا مظاہرہ جاری و ساری ہے:
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے
ایک طرف اُمیدواروں کو ٹکٹیں جاری کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف جولائی میں عام انتخابات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ عمران خان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ 14مئی کو انتخابات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے جبکہ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پارٹی کی تقسیم کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ ان کی افتادِ طبع گزشتہ چند سالوں میں انہیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے۔ مقبولیت کے باوجود قبولیت سے محرومی زمینی حقائق سے لاعلمی ہو سکتی ہے یا چشم پوشی‘ دونوں صورتوں میں نقصان ناقابلِ تلافی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے انتخابی سرگرمیوں سے قطعی لاتعلقی بھی ان لوگوں کے لیے واضح اشارہ ہے جو اشاروں کی زبان بخوبی سمجھتے ہیں۔
ایک طرف ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی کو مزاحمت اور احتجاج کا سامنا ہے تو دوسری طرف چیف جسٹس کی خوشدامن اور سابق گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی مبینہ آڈیو ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہے۔ ذاتی خواہشات اور حسرتوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ تک کے کیسے کیسے پول کھل رہے ہیں۔ نگران سرکار کی آئینی مدّت پوری ہو چکی ہے۔ امورِ حکومت چلانے کے لیے انہیں کسی آئینی سہارے اور قانونی جواز کی سخت ضرورت ہے۔ یہ ضرورت پوری ہونے تک اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت اور جواز پر کڑے سوالات بھی کھڑے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اکثر سرکاری بابو تذبذب کا شکار ہیں تو بعض کہتے ہیں کہ جو ہوگا‘ دیکھا جائے گا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
مملکتِ خداداد میں انتخابات جہاں ایک مشکل مرحلہ بنتے چلے جا رہے ہیں‘ وہاں انتخابات کے بعد (اگر ہوئے تو) انتقالِ اقتدار اس سے کہیں کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہوگا لیکن طولِ اقتدار اور حصولِ اقتدار کے اس معرکے میں کوئی بھی اس سنگین اور نازک صورتحال میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں۔ سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے اور عزائم ہیں اور ان سبھی کے ایجنڈوں میں عوام کبھی شامل ہی نہیں رہے۔ آنے والے دنوں میں اداروں کے درمیان تناؤ کشیدگی میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں بننے والا منظرنامہ نئے زمینی حقائق سے روشناس کرانے کا باعث ہو گا۔ گزرتے وقت کے ساتھ عمران خان کو بھی باور ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جن مراحل کو وہ تر نوالہ اور آسان ہدف سمجھتے چلے آ رہے تھے وہ انتہائی پیچیدہ اور کڑے نکلے۔ حصولِ اقتدار کے لیے محض عوامی مقبولیت پر انحصار کرنا ہرگز کافی نہیں ہے‘ ا س کے لیے وہ سبھی لوازمات سمیت وہ عنایات اور نوازشات بھی درکار ہیں جو 2018ء کے عام انتخابات میں انہیں میسر اور دستیاب رہی ہیں۔ فیض یاب ہونے کے بعد ان کی اہمیت اور افادیت کو ثانوی تصور کرنا کسی بھیانک غلطی سے ہرگز کم نہیں۔ عوامی مقبولیت کے زعم پر سر چڑھے مصاحبین اور مشیروں کے اُوٹ پٹانگ مشوروں کے تڑکے کب گلے کا طوق اور پیروں کی بیڑیاں بنتے چلے گئے‘ انہیں پتا ہی نہ چلا۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزام تراشی منہ کو ایسی لگی کہ گویا لت لگ گئی؛ تاہم تاریخ سے سیکھنے کے بجائے نئی تاریخ لکھنے کے جنون کی بھاری قیمت مزید بھاری پڑتی نظر آ رہی ہے۔
آنے والے حالات کیا رنگ دکھاتے ہیں یہ تو بعد کی بات ہے‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان اس وقت فیصلہ سازی کے تناظر میں کسی اوتار کے مقام پر نظر آتے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں صفِ اوّل کے پارٹی رہنماؤں کو ردّ کرنے سے لے کر سارے عمل کو متنازع بنانے تک انہیں نہ کسی کھلی مزاحمت کا سامنے ہے اور نہ ہی بغاوت کا اندیشہ۔ کسی کو اختلاف کی جرأت ہے نہ انکار کی؛ تاہم دل کا غبار نکالنے کی ہر کسی کو کھلی چھٹی ہے۔ اس کھلی چھٹی کے باوجود اکثر احتیاط اور مصلحت کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں کہ نجانے خان صاحب کو کب ‘کیا ناگوار گزر جائے۔ رَدّ کیے جانے والے ٹکٹوں کے مخصوص اُمیدوار دراصل وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار تھے جس کا امکان ہی عمران خان نے رَدّ کر ڈالا؛ تاہم ممکنہ انتخابات کے بعد بھی عمران خان کا سرپرائز عین متوقع ہے اور اگر وہ حکومت سازی کی پوزیشن میں آئے تو تختِ پنجاب کی حوالگی کا مرحلہ بھی یقینا ڈرامائی ہو گا۔
فواد چودھری‘ شاہ محمود قریشی‘ شہباز گل اور حماد اظہر کے ٹکٹ رَدّ ہونے کے بعد عثمان بزدار کی بے ترتیب دھڑکنوں کو قرار تو آیا ہو گا لیکن بے قراری اس لیے جاری ہو گی کہ چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف میں کشتیاں جلا کر آئے ہیں اور یہ اَمر بھی ناقابلِ تردید ہے کہ اگر خاندان میں مونس الٰہی عمران خان کے لیے سٹینڈ نہ لیتے تو شاید حالات تحریک انصاف کے لیے اس قدر آئیڈیل اور موافق نہ ہوتے۔ سیاسی بساط پر چلی گئی چالوں میں مونس الٰہی کی چال عمران خان کو شہ مات سے بچا گئی۔ اگر اس بار عمران خان جان نثاروں کو نظر انداز کرنے کی روایت توڑتے ہیں تو مونس الٰہی وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط اُمیدوار ہو سکتے ہیں جبکہ میاں اسلم اقبال بھی بطور سینئر وزیر ٹیسٹ ڈرائیو پاس کر کے وزراتِ اعلیٰ کے پینل میں شامل ہیں؛ البتہ پی ٹی آئی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان کے سیاسی سفر میں جان نثاری کا مظاہرہ کرنے والے ہمیشہ مایوس اور نظر انداز ہی رہے ہیں۔
جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت نجانے کتنوں کے بارے میں خان صاحب کا رویہّ منیر نیازیؔ کے ایک مصرع کی مانند رہا ہے:
میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں