عمران خان نے 14مئی سے قبل تمام اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے یا بالکل ہی لیٹ جاتا ہے اس کا فیصلہ بھی زیادہ دور نہیں۔ عوام کے ٹیکسوں کی خطیر رقم سے انتخابات کروائے جاؤ‘ اسمبلیاں توڑے جاؤ‘ پھر انتخابات کے لیے طوفان اٹھاؤ اور حالات ناموافق ہوتے ہی پھر اسمبلیاں توڑ ڈالو‘ یہ تماشا ہرگز نیا نہیں‘ 1988ء میں انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلیاں 1990ء میں توڑ دی گئیں‘ 1990ء میں ہونے والے انتخابات کی اسمبلیاں 1993ء میں تحلیل کر دی گئیں‘ اسی طرح 1993ء میں بننے والی اسمبلیوں کو 1997ء میں چلتا کر دیا گیا اور 1997ء میں بننے والی حکومت کا دھڑن تختہ پرویز مشرف نے 1999ء میں کر ڈالا۔ اس طرح تقریباً 10سال کی مدت میں چارحکومتیں برطرف اور کسی اسمبلی کو بھی مدت پوری کرنے کی مہلت نہ مل سکی۔ کہیں شخصی عناد تو کہیں اختیارات کا تنازع‘ کہیں حصولِ اقتدار تو کہیں طولِ اقتدار کے جھگڑے نے جمہوری عمل کو پیروں پرکھڑا ہونے ہی نہیں دیا۔ پرویز مشرف کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نوسالہ دورِ اقتدار میں دو مرتبہ عام انتخابات اور دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروا کر جمہوریت کے عَلم برداروں کو خوب آئینہ دکھایا جبکہ شریف برادران ہوں یا عمران خان یہ سبھی جمہوری چیمپئنز بلدیاتی انتخابات سے خائف اور بھاگتے ہی رہے ہیں۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر جب اقتدار سنبھالا تو 90روز کے اندر انتخابات کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ان کا یہ وعدہ اس قدر طوالت اختیار کرتا چلا گیا کہ آٹھ سال بعد مزاحمت اور دباؤ کے نتیجے میں بمشکل غیر جماعتی انتخابات پر آمادہ ہوئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جو سیاسی پنیری لگائی گئی وہ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں گھنا جنگل تو کہیں خار دار بیل بنتی چلی گئی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں ضیاء الحق کی پنیری تناور درختوں کی صورت میں آج بھی موجود اور موجیں مار رہی ہے۔ تاہم ضرورتاً اسمبلیاں تحلیل کرنا اور نئے انتخابات کے لیے اُدھم مچائے رکھنا ہماری سیاسی تاریخ کا پرانا ہتھکنڈا اور وہ تماشا ہے جس پر آج بھی سماج سیوک نیتا نازاں اور اترائے پھر رہے ہیں۔
اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے سڑکوں اورچوراہوں پر مجمع لگانے کی بدعت کو دوام بخشنے والے عمران خان قومی اسمبلی سے استعفے دے کر بعد ازاں استعفوں کی منظوری رکوانے کے لیے بھاگتے رہے‘ اندرونی مخالفت اور حلیفوں کے تحفظات کے باوجود پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں بھی افتادِ طبع کی نذر کر ڈالیں اور اب انتخابات کروانے کے لیے بھاگے پھرتے ہیں۔ پنجاب میں نگران سرکارکی آئینی مدت پوری ہو چکی ہے لیکن حکمران اتحاد کسی طور انتخابات کا رسک لینے پر ہر گز آمادہ نہیں ہے؛ تاہم سپریم کورٹ کے دوٹوک رویے کے بعد مذاکرات کی کھڑکی کھلی ہے‘ دیکھتے ہیں کہ یہ کھڑکی دروازہ کھولنے کا باعث بنتی ہے یا بند ہو جاتی ہے۔
کئی دہائیوں سے یہ تماشا جوں کا توں جاری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مملکتِ خداداد پر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا آسیب ہے‘ برسرِ اقتدار آتے ہی سبھی نظریات‘ منشور اور ایجنڈوں سمیت بلند بانگ دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ضرورتیں اور مجبوریاں اس طرح آڑے آتی ہیں کہ شاید چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ کہیں کنبہ پروری مجبوری بنتی رہی ہے تو کہیں بندہ پروری‘ کہیں رفقائے کار پاؤں کی بیڑیاں توکہیں مصاحبین گلے کا طوق بنتے رہے ہیں۔ طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت دونوں کے رنگ اور ڈھنگ نرالے ہی پائے گئے ہیں۔
تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے‘ اصل نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔ تحریک انصاف کے فیصلے اس کے گلے پڑ چکے ہیں۔ صدرِ مملکت اور اتحادی چودھری پرویز الٰہی سمیت قریبی ساتھیوں کے مشورے نظر انداز کرنے کی قیمت خوب چکانا پڑ رہی ہے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد متوقع منظرنامہ سبھی عمران خان کو برابر باور کرواتے رہے ہیںلیکن خان صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے صوبائی اسمبلیاں جنرل باجوہ کے کہنے پر تحلیل کیں۔ افتادِ طبع کا عالم یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں اور انہی کے مشورے پر صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ ڈالتے ہیں‘ تعجب ہے!
مجہول سیاست اور سیاسی سرکس کے کرتب اور کھیل تماشوں پر مزید بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی حصے پر خارش کے بغیر ہی کھجائے چلے جانا۔ تاہم ان ناحق مارے جانے والوں کا نوحہ بھی ہم پر قرض ہے جو کراچی ایکسپریس کی بوگی نمبر17 میں زندہ جل مرے۔ گزرتے وقت کی گرد میں یہ سانحہ بھی دب کر قبر بن جائے گا جس طرح ماضی کے سبھی سانحات اور المناک حادثات کی قبریں بنتی چلی آئی ہیں۔ ابھی تو چند برس قبل تیز گام ایکسپریس کی بوگی نمبر12میں خاکستر ہونے والے 70بدنصیبوں کی روحیں انصاف کے لیے بے چین اور بھٹک رہی تھیں کہ وہی قیامت پھر برپا ہوگئی۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ 2019ء میں تیزگام ایکسپریس میں زندہ جلنے والوں میں درجنوں مسافر بشمول بچے اس طرح خاکستر ہوئے کہ شناخت بھی ممکن نہ تھی۔ گھر سے ہنسی خوشی سفر کے لیے نکلنے والوں کو کیا خبر تھی کہ وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہیں۔ ان کی منزل کا سٹاپ آنے سے پہلے ہی موت کا پلیٹ فارم آجائے گا۔ پھاٹک والے کی غلطی ہو یا کانٹا بدلنے والے کی‘ شارٹ سرکٹ وجہ بنے یا کوئی تکنیکی خرابی‘ قیامت مسافروں پر ہی ٹوٹتی ہے۔صفِ ماتم ان کے لواحقین کے گھروں میں ہی بچھتی ہے۔ ٹرین حادثات میں ناحق مرنے والوں کے نصیبوں میں ایسی ہیبت ناک موت ہی لکھی تھی۔ وہ ٹرین میں سفر کی وجہ سے نہیں مرے‘ یہاں سے بچ جاتے تو کہیں اور قابو آجاتے۔ یہ سبھی اس خطۂ تاریک میں پیدا ہونے کی وجہ سے مرے ہیں جہاں پیدا ہونا ہی آدھی بازی ہار جانے کے مترادف ہے۔ جہاں بے رحم سیلابی ریلے ہر بار مخصوص مقامات اور علاقوں میں تواتر سے موت بانٹنے چلے آتے ہوں اور روک تھام کے بجائے امدادی سرگرمیاں اور سامان کی تقسیم پر فوٹو سیشن کروائے جاتے ہوں‘ ہسپتالوں کی نرسریوں میں معصوم اور نومولود بچے آتشزدگی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہوں‘ اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے شہر ڈیرہ غازی خان میں 12سالہ بچے کو سکول کے اندر آوارہ اور خونخوار کتے بھنبھوڑ ڈالیں‘ اس معصوم کے نازک جسم پر کتوں کے دانتوں اور فلک شگاف چیخوں سے آسمان گرے نہ کوئی مدد کو آئے۔ اُجلے یونیفارم کو خون میں ڈوبے ہوئے اس کی دکھیاری ماں نے کس طرح دیکھا ہوگا؟ باپ نے بڑھاپے کے سہارے کا لاشہ کس طرح اٹھایا ہوگا‘ کس دل سے قبر میں اُتارا ہوگا‘ کوئی دن چڑھے راہ چلتے مارا جاتا ہے تو کوئی تاریک راتوں میں‘ یہ کیسا نظام ہے‘ یہ کہاں کی گورننس ہے‘ سالہا سال بیت گئے‘ وہی دعوے‘ وہی وعدے‘ وہی بڑھکیں‘ وہی شعلہ بیانیاں‘ وہی طرزِ حکمرانی‘ وہی مائنڈ سیٹ‘ وہی آسیب‘ کچھ بھی تو نہیں بدلا‘ باپ کی جگہ بیٹا‘ دادا کی جگہ پوتانسل در نسل شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے کس ڈھٹائی اور سفاکی سے سب کچھ کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی عذاب‘ یہ سبھی قیامتیں‘ یہ سبھی مصیبتیں اسی مائنڈ سیٹ اور آسیب کی وجہ سے ہیں جو کئی دہائیوں سے ملک و قوم کو جکڑے ہوئے ہے۔ کبھی بوگی نمبر12‘ تو کبھی بوگی نمبر17‘ بے حسوں نے پورا ملک ہی برننگ ٹرین بنا ڈالا ہے۔