"AAC" (space) message & send to 7575

چل سو چل تے بلے بلے

سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نے تو ہماری طرزِ سیاست اور انتخابی عمل کا ڈی این اے ہی کر ڈالا ہے کہ انتخابات نہ ہونے کی صورت میں خریدا ہوا ٹکٹ ہرگز واپس نہیں ہوگا۔ جہاں قائد کے درشن پر مبینہ مہنگی ٹکٹ لگا کر مال بنایا گیا ہو وہاں ٹکٹوں کی خریدو فروخت کے الزام میں بھی خاصا دم ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں حقداروں اور پرانے کارکنوں کو نظرانداز کر کے گھس بیٹھیوں اور فنانسروں کو ٹکٹ دینے کی روایت کو ہر دور میں ہی دوام بخشا گیا ہے۔ ایک آدھ الیکشن میں تگڑے اُمیدوار کی انتخابی سرگرمیوں پر کھلا خرچہ کرنے والے بالآخر خود بھی اُمیدوار بن جاتے ہیں۔ ماڈل کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ٹکٹ کے بدلے اللے تللوں سے لے کر ڈیرے اور انتخابات سمیت نجانے کیسے کیسے خرچے اٹھانا پڑتے ہیں۔ ماضی میں الیکشن فنانس کرنے والوں کی خاصی تعداد ٹکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
جس طرح کسی ماہر کاریگر نے اپنی معاونت کے لیے ایک شاگرد نما ایک چھوٹا رکھا ہوتا ہے‘ اسی طرح سیاستدان بھی خرچہ پانی چلانے کے لیے ایک چھوٹا رکھتے چلے آئے ہیں۔ ان چھوٹوں کی تعداد حسبِ ضرورت بڑھائی اور گھٹائی بھی جا سکتی ہے۔ کردار اور اہمیت بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر چھوٹے غیرمعمولی صلاحیتوں کے باعث جلد بڑے ہو کر خود بھی کاریگر بن جاتے ہیں۔ یہ پنیری اسی طرح ہر دور میں لگائی جاتی رہی ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر چکی ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے قانون اور اخلاقیات سمیت جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اس ریفرنس میں پارٹی چیئرمین کے عہدے سے برطرفی اور ان کے جاری کردہ ٹکٹ معطل کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے کی مبینہ آڈیو لیکس بھی سسٹم اور پس پردہ معاملات پر کڑے سوالات کا باعث ہے۔
قومی اسمبلی میں بھی تقریری مقابلہ جاری ہے‘ سپیکر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک کمیٹی بنا کر چیف جسٹس کو بلایا جائے جبکہ عمران خان نے قوم سے اپیل کی ہے کہ ہفتے کے روز چیف جسٹس سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ضرور باہر نکلیں۔ ہر طرف تقسیم کا سماں ہے۔ اداروں کے درمیان کشیدگی کے بعد ٹکراؤ کا اندیشہ خطرے کے نشان کو چھونے کے لیے بیتاب ہے۔ عوام کی تقسیم کے بعد بات اب انتظامی مشینری سے ہوتی ہوئی اداروں تک آن پہنچی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اداروں کی نسبت اور وابستگی کے اشارے ملک وقوم کے لیے ہرگز اچھا شگون نہیں ہے۔ گو کہ یہ تقسیم اور وابستگیاں ہرگز پرانی نہیں ہیں‘ ہر دور میں اس کے اشارے اور علامات برابر دیکھی جاتی رہی ہیں لیکن اس بار تو سبھی حدیں پار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حد بندی کا لحاظ اور بھرم نہ رکھا گیا تو شاید بچا کچا اور رہا سہا بھرم بھی یونہی جاتا رہے گا۔ مملکتِ خداداد میں طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی‘ دونوں ہی ایجنڈوں اور دھندوں کے تابع رہی ہیں اور انہی کی تکمیل کے لیے داؤ پیچ کھیلنے کے علاوہ سبھی کچھ داؤ پر لگایا جاتا رہا ہے۔ کیسے کیسے عقدے اور بھید برابر کھلتے جا رہے ہیں‘ ان کے چہرے بے نقاب ہونے سے لے کر نیت اور ارادے بھی بے لباس ہو چکے ہیں لیکن عوام جمہوریت کے اس حسن کے جلوؤں میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ انہیں ہوش میں لانا ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جس قوم کو دھوکوں‘ جھانسوں اور نت نئے فریب کی لت پڑ جائے‘ اسے ہوش میں کون لا سکتا ہے۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور اقدامات سیاستدانوں کی نیت اور ارادوں کا پول بھی کھول دیتے ہیں۔ پون صدی کی تاریخ اٹھا کر اگر دیکھیں تو سبھی کی نیتوں اور ارادوں سے لے کر ایجنڈوں اور دھندوں کا پول اس طرح کھل چکا ہے جیسے توڑی کی پنڈ سڑک پر کھل گئی ہو اور اس کے تنکے ہوا کے دوش پر اڑتے اور بکھرتے چلے جا رہے ہوں۔ کسی کے پلے کچھ نہیں رہا‘ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کے غلام ہی پائے گئے ہیں‘ جتنی بڑی ضرورت اتنا بڑا سمجھوتا کرکے کیسے کیسے عذر اور جواز لیے پھرتے ہیں۔ اکثر تو ہر دور میں شریکِ اقتدار ہو کر بھی ماضی کے ادوار پر کس ڈھٹائی سے تنقید کے نشتر برساتے ہیں۔ بوقتِ ضرورت رہنما اور پارٹی بدل کر اگلی منزل اور اگلی گھات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والوں کے نہ کوئی نظریات ہیں اور نہ ہی کوئی اخلاقیات‘ اقتدار اور اختیار کے لیے تو سبھی کچھ کر گزرتے ہیں۔ بیانیوں سے لے کر دعووں اور وعدوں سے منحرف ہو کر بھی کس طرح شاداں اور نازاں پھرتے ہیں۔
انتہائی دلچسپ اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ مملکتِ خداداد پر جب آمر برسرِ اقتدار آئے تو اسے جمہوریت اور شیروانی کا بخار چڑھ جاتا ہے اور جمہوریت کے علمبردار برسرِ اقتدار آجائیں تو آمریت کو شرما ڈالتے ہیں۔ انتخابات کروانے کے لیے ملک بھر میں تماشا لگانے والوں سے یہ پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پارلیمنٹ سے کیوں بھاگے؟ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے اب انتخابات کے لیے کیوں بھاگے پھر رہے ہو؟ اس سے پہلے کون سی توپ چلائی تھی اور اب انتخابات کے بعد کون سی توپ چلائیں گے؟ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزراتِ اعلیٰ کے دو ادوار میں گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے کا کون سا موقع ہاتھ سے جانے دیا گیا؟ کونسی کسر باقی رہ گئی ہے جو اب نکالنے کے لیے بیتاب اور بے چین پھر رہے ہیں۔ نئے انتخابات سے قبل گزشتہ انتخابات اور کارکردگی کا حساب بھی ہونا چاہیے‘ حالیہ کالموں میں برابر باور کرائے چلا آرہا ہوں کہ انتخابات ضرور کرانے چاہئیں لیکن اس بار انتخابات سے پہلے خدارا وہ بنیادی نقائص اور خرابیاں ضرور دور کر لیں جو انتخابات کے بعد بگاڑ اور مزید بدصورتی کا باعث بنتی چلی آئی ہیں۔ کوئے اقتدار میں جگاڑ لگا کر داخل ہونے والے ہوں یا مال لگا کر‘ ان سبھی گھس بیٹھیوں کی اخلاقی‘ فکری و سیاسی بلوغت تک انہیں راج نیتی سے دور رکھنا ملک و قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
من مانی کی طرزِ حکمرانی اور عوامی مینڈیٹ کی خریدوفروخت کب تک جاری رہے گی؟ قانون‘ ضابطے اور پالیسی کب تک سیاسی اشرافیہ کے ایجنڈوں اور دھندوں کے تابع رہیں گے؟ قومی خزانہ کب تک بندہ پروری اور ان کی کنبہ پروری کا بوجھ اٹھاتا رہے گا؟ سرکاری وسائل پر کب تک بندر بانٹ جاری رہے گی؟ راج نیتی کب تک ذریعۂ معاش بنی رہی گی؟ سیاست کو تجارت بنانے والے کب تک ضرورتوں کی دلالی کرتے رہیں گے؟ ان سبھی نے مل کر ملکی استحکام اور وقار کی ایسی چولیں ہلائیں کہ ذرا سی دھمک یا دھچکا وہ لرزہ طاری کر دیتا ہے کہ عوام رات کی نیند اور دن کے چین سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہنرمندانِ آئین و ریاست کو خبر ہو کہ عوام اب مزید بھٹکنے اور لٹنے کے قابل نہیں رہے۔ الیکشن سیاسی اشرافیہ کی ضرورتوں اور مسائل کا حل تو ہو سکتا ہے لیکن عوام کے مصائب اور مسائل کا حل آج تک کسی الیکشن میں نہیں نکلا۔ لہٰذا الیکشن سے پہلے ان ٹیڑھی اینٹوں کو نکالنا بھی ناگزیر ہے جو بوجوہ سسٹم کی بنیادوں میں فٹ کر دی گئی ہیں۔ ان جونکوں سے بھی آزادی واجب ہے جو ملک و قوم کا خون چوس رہی ہیں۔ ورنہ چل سو چل تے بلے بلے‘ آوے ای آوے تے جاوے ای جاوے تو پون صدی سے جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں