خیالات منتشر‘ اعصاب شل اور طبیعت سوگوار ہے۔ وطن پر جان نثار کرنے والے شہدا کی روحیں بھی خلدِ بریں میں بے چین اور یقینا ملول ہوں گی۔ دنیا بھر کی ٹاپ ٹین افواج میں شامل استحکام‘ سلامتی اور توازن کی علامت پاک افواج کے تحمل‘ برداشت اور حوصلے کو سلام کہ انہوں نے ضبط اور برداشت کی تو تاریخ رقم کر دی۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحۂ موجود تک مملکتِ خدا داد کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر جان نثار کرنے والوں کی لازوال قربانیاں برابر جاری ہیں۔ اعلیٰ افسران سے لے کر جوانوں تک سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور وطن کے رکھوالے پائے گئے ہیں۔ باقاعدہ جنگوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں سے لے کر دہشت گردی کے خلاف تاحال جاری جنگ میں جانیں نچھاور کرنے والوں تک کی تفصیل میں جائیں تو ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف وطن کی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کی طویل داستان ہے تو دوسری طرف اکثر غازیوں کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کی وجہ سے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی اور توہین آمیز کلمات کی بدعت دوام پکڑ رہی ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے چند روز قبل ہونے والے بلوؤں اور افسوس ناک واقعات کو سیاہ باب تو قرار دیا ہے لیکن خدارا اس سیاہ باب کو رقم کرنے والوں کے لیے ضبط اور برداشت کی پالیسی اتنی طویل نہ کریں کہ مصلحت کا گمان ہونے لگے۔ تحمل اور برداشت کو کمزوری سمجھنے والوں کو کٹہرا نہ دکھایا تو اس سیاہ باب کی سیاہی پھیلتی چلی جائے گی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ شرپسندوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہے اور عسکری تنصیبات کے تقدس کی پامالی‘ توڑ پھوڑ کے منصوبہ سازوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ دوسری طرف عمران خان کو عدالتی ریلیف نے تو Untouchable بنا ڈالا ہے اور رہائی کے بعد ان کی تقریروں اور بیانیوں سے کھلا پیغام برابر مل رہا ہے کہ Catch me if you can عسکری اداروں کے لیے اندازِ تخاطب ہو یا زبان و بیان سبھی میں شدت و حدت نمایاں ہے۔ اجتماعی ضمانتوں اور ریلیف نے خان صاحب کو مزید بیباک اور بے خطر بنا ڈالا ہے جبکہ ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں دنگا فساد‘ بلوؤں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر ان کی بے نیازی بھی اب بوجوہ لگتی ہے۔ خدا جانے کہاں کیا چل رہا ہے لیکن ہمارا ملک تو برابر جل رہا ہے۔ جلانے والے ہوں یا ہاتھ سینکنے والے سبھی کسی بھول میں ہیں کہ جلتے ہوئے الاؤ سے راکھ ہی بچتی ہے گویا گھر پھونک دیا ہم نے‘ اب راکھ اٹھانی ہے۔
حکمرانی کے لیے ملک درکار ہوتے ہیں۔ غیرتِ قومی اور استحکام کو داؤ پہ لگا کر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ جو پاک فوج خارجی محاذ اور بین الاقوامی اقتصادی معاہدوں میں ضامن ہے‘ جس کی گارنٹی پر دوست ممالک اطمینان محسوس کرتے ہیں‘اسے مائنس کرنے کی غلطی کی تو جلد ہی اپنی اوقات اور وقعت پتہ چل جائے گی۔ سیاسی اشرافیہ کے پلے ہی کیا ہے؟ زمانے بھر کی بدنامیاں‘ ناکامیاں‘ جگ ہنسائیوں کی پنڈ سر پہ اٹھائے‘ کیسے کیسے سنگین الزامات پر لاجواب سماج سیوک نیتا نجانے کس گمان میں ہیں۔ مالی بددیانیتوں سے لیکر انتظامی بے ضابطگیوں اور لوٹ مار کے سبھی معرکے مار کر بھی دودھ کے دھلے اور کس قدر معصوم بنے پھرتے ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے نہ احساس‘ یہ تو سب اقتدار سے دوری کے درد میں مرے جارہے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت اور طرزِ حکمرانی کا جائزہ لیں تو ماضی کی بدترین طرزِ حکمرانیوں کے سبھی ریکارڈز ریکارڈ مدت میں توڑنے کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ مال بنانے کا نت نیا اور بھونڈا ترین طریقہ ایجاد کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ سہولت کاروں اور مصاحبین کو سرکاری وسائل پر پالنا اور اہم ترین اداروں کو ان کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کی بدعت کو جو دوام انہوں نے بخشا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ مشیر اور مصاحبین ہوں یا سرچڑھے سرکاری بابو سبھی کی کارستانیاں اور کرتوت زبان زدِ عام ہونے کے باوجود ہمیشہ ان کا دفاع یونہی نہیں کرتے رہے‘ بہت کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے۔ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں اکثر اقدامات کا کریڈٹ خاتونِ اوّل کو دیتے چلے آئے ہیں جبکہ ملک کے طول و عرض بالخصوص پنجاب میں پیداواری عہدوں سے لیکر اہم ترین فیصلوں سمیت لوٹ کھسوٹ‘ بندر بانٹ کے علاوہ لمبا ہاتھ مارنے کے تانے بانے بھی انہی سے جا ملتے تھے۔
وزیراعظم نے جناح ہاؤس کے دورے کے دوران عمران خان کو کور کمانڈر ہاؤس کے واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے شرپسندوں کو 72گھنٹے میں پکڑنے اور دن رات خصوصی سماعت کا حکم جاری کیا ہے جبکہ حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمن نے چیف جسٹس آف پاکستان کے استعفے تک دھرنے کا اعلان کر ڈالا۔ ایسے حالات میں جوش میں ہوش گنوانے کے بجائے معاملات کو پارلیمنٹ لے جانا چاہیے۔ دھرنوں اور احتجاجوں سے معاملات نہ ماضی میں سلجھے ہیں اور نہ ہی آئندہ سلجھیں گے‘ پارلیمان کی بالا دستی کا راستہ نہ صرف قانونی تحفظ فراہم کر سکتا ہے بلکہ تصادم سے متشدد واقعات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے خلاف دھرنا 1997ء کا الیکشن رِی پلے بھی بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے اختلافات اور مزاحمت کے نتائج نا اہلیوں کی صورت میں سالوں بھگتنا پڑے تھے۔اس تناظر میں نئی تاریخ لکھنے کے بجائے 26سال پرانی تاریخ سے سبق سیکھنے میں ہی بھلائی ہے۔
بلووں اور جلاؤ گھیراؤ میں شریک شرپسند ہوں یا انکا لہو گرمانے اور اکسانے والے‘ دنگے فساد کو ہوا دینے کے لیے دانشوری بھگارنے والے ہوں یا شعلہ بیانی سے جلتی پر تیل ڈالنے والے‘ سبھی کی عقل پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران بھی گمران کن بیانیوں اور مخصوص مائنڈ سیٹ کا اس طرح شکار ہوگئے کہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ وہ خود اس کا نہ صرف حصہ رہے ہیں بلکہ بعد از ریٹائرمنٹ باوقار طرزِ زندگی‘ بچوں کی مثالی تعلیم‘ علاج معالجہ کی اعلیٰ سہولتیں ہوں یا بیشمار آسانیاں بھی اسی کے دم قدم سے ہیں۔ ایسے مخصوص ریٹائرڈ افسران کی دیکھا دیکھی عام لوگ بھی اسی بھیڑ چال میں نہ صرف شامل ہوتے چلے گئے بلکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی سچی پذیرائی اور ریٹنگ کے چکر میں اس دلدل میں مزید پھنستے چلے گئے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ان بلوؤں اور دنگا فساد کے علاوہ جلاؤ گھیراؤ کی ترغیب اور تشہیر میں مخصوص ریٹائرڈ آرمی افسران کہیں پیش پیش تو کہیں ہلہ شیری دیتے رہے۔ گویا اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ جناح ہاؤس اور عسکری تنصیبات پر حملے میں ملوث شر پسندوں کی شناخت اور تصاویر جاری کر دی گئی ہیں۔ بلالحاظ و تمیز گرفتاریوں کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ خدا جانے یہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں‘ نہ کہیں ندامت ہے نہ شرمساری‘ نہ پچھتاوا ہے نہ افسوس کا اظہار سبھی منصوبہ ساز اپنے کیے پر نازاں اور شاداں ہیں۔ تعجب ہے! چلتے چلتے محض معلوماتِ عامہ کے تناظر میں شیئر کرتا چلوں کہ پاکستان آرمی ورلڈ رینکنگ میں ساتویں نمبر پر اور جوڈیشری 129 نمبر پر ہے۔ آئندہ کسی کالم میں پارلیمنٹ کی رینکنگ اور قانون سازی سمیت دیگر کھیل تماشوں کے حالات بھی شیئر کریں گے۔