امریکی سازش اور مداخلت کا بیانیہ عوام کی آنکھوں میں جھونکی ہوئی دھول ثابت ہوا چکا ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آنے والا وقت اور مورخ بتائے گا کہ کون کہاں جھوم رہا ہے‘ بین الاقوامی تھیوری اور سازشوں کے بھید کھلتے کھلتے ہی کھلتے ہیں۔ مملکتِ خداداد کو امریکی ایجنڈوں اور خواہشات سے ہمکنار کرنے کے لیے کون کیا کر رہا ہے اس کا فیصلہ تو بند آنکھ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ افراتفری‘ انتشار اور معاشی عدمِ استحکام سمیت اداروں کے ٹکراؤ کے علاوہ جو کچھ گزشتہ ایک سال میں ہوا ہے وہ شاید 75برسوں میں بھی نہ ہو سکا۔ عمران خان کی تازہ ترین مبینہ آڈیو لیک نے تو میری ایک پرانی تھیوری کو اچھی خاصی تقویت دے ڈالی ہے۔ برابر لکھتا اور کہتا آرہا ہوں کہ دھیان رہے کہ خان صاحب بیانیے کی آڑ میں نفرت کی جو آندھی چلا رہے ہیں وہ ہمیں کہیں بند گلی میں نہ لے جائے۔ امریکا مردہ باد کے نعرے لگانے والے اکثر امریکہ کی گڈ بک سے ہی برآمد ہوتے چلے آئے ہیں۔ خان صاحب امریکی کانگریس رکن کے ترلے کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے آواز اٹھائیں‘ 99فیصد پاکستانی میرے ساتھ ہیں امریکہ سے ہمارے لیے اٹھائی گئی آواز کافی مؤثر ہوگی۔ امریکہ سے مدد مانگنے والے چند ماہ پہلے امریکی مداخلت اور سازش کا چورن بیچتے رہے ہیں۔
آڈیولیک سے یاد آیا‘ وفاقی حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیا ہے جو عدلیہ کے ذمہ داران سے متعلقہ مبینہ آڈیولیکس کی صحت اور صداقت بارے تحقیقات کرے گا۔ عمران خان کی حالیہ آڈیو ہو یا قبل ازیں لیک ہونے والی اہم ترین شخصیات کی آڈیوز سبھی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں نہ کسی نے چیلنج کیا ہے اور نہ ہی کسی فریق نے اس کی تردید کی ہے۔ معتبر اور حساس منصب کی حامل شخصیات کی آڈیو لیکس نے کیسے کیسے قدآوروں کو بونا بنا ڈالا ہے۔ ایسے میں مجھے خالد عباس ڈار کا ایک جملہ بے اختیار یاد آرہا ہے جو وہ اکثر محفلوں میں دہرایا کرتے ہیں کہ بات وہی پوشیدہ رہ سکتی ہے جو زبان سے نہ نکلی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حلق سے کوئی آواز نکلی ہے اور اس کی بازگشت سنائی نہ دے۔
صدر مملکت عارف علوی تو پہلے بھی امریکی سازش اور مداخلت کے بیانیے کے نفی کر چکے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے پارٹی چیئرمین عمران خان سے سانحہ 9مئی کی کھل کر مذمت کرنے کا بھی کہا ہے۔ ایک طرف اپنی گرفتاری کے رد عمل میں حملے بلوے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے فدائیوں سے لاتعلقی کا کوئی رستہ سجھائی نہیں دے رہا دوسری طرف صدر نے فوجی تنصیبات اور اہم عمارتوں اور فوجی جوانوں پر پتھراؤ اور ڈنڈے برسانے والوں کی مذمت کا مشورہ دے ڈالا ہے۔ خان صاحب صدر کا مشورہ مانتے ہیں تو ان پروانوں کو کیسے منہ دکھائیں گے جو اُن کی محبت میں اپنا سب کچھ ان پر وار چکے ہیں۔ صدر کے مشورے پر جزوی طو رپر عمل کرتے ہوئے انہوں نے جناح ہاؤس پر حملے کو ملک کی بدنامی سے منسوب تو کیا ہے‘ خیر عمران خان کے لیے ایسے مشکل مراحل سے نکلنا ہمیشہ ہی آسان رہا ہے۔ ان کے پاس بنے بنانے جواز اور گھڑی گھڑائی توجیحات ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں۔ بے نیازی ان کی شخصیت کا ہمیشہ ہی اہم خاصا رہی ہے۔
پاک فوج سانحہ 9مئی کے ذمہ داران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کی جا چکی ہے جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس سانحہ کو فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی سازش اور ناقابلِ معافی قرار دے چکے ہیں۔ سیاہ باب کے ذمہ داران کو کٹہروں میں لانے کیلئے آپریشن شروع ہوتے ہی لوگ تتربتر ہو چکے ہیں‘ بڑھکیں مارنے والوں کی حالت گرفتاری کے خوف سے پتلی ہے‘ عبرت پکڑنے والوں نے تو کان بھی پکڑ لیے ہیں۔ ذمہ داران کی شناخت نشاندہی اور گرفتاریاں جاری ہیں لیکن اس سانحہ اور انتظامی حکمت عملی پر کھڑے سوالات آج بھی جواب سے محروم ہیں۔ بلوؤں اور پرتشدد حملوں کے دوران نہ کہیں سرکار نظر آئی‘ نہ ہی سرکار کی رِٹ‘ البتہ راکھ اڑنے کے بعد بھاشن اور فوٹو سیشن ضرورت ہوتے رہے ہیں۔
نگران سرکار بھی پرانی بدعتوں کو دوام بخشنے کے علاوہ کہیں مکھی پہ مکھی تو کہیں پہلے سے مری مکھیوں کو ہی مارے چلی جا رہی ہے۔ انتخابی شیڈول کی بنیاد پر تھوک کے بھاؤ تبادلوں کے اثرات اور وجوہات بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ انتخابات تو خیر کیا ہونے تھے لیکن تبادلوں کے فیصلوں اور پس پردہ ایجنڈوں نے خوب انڈے بچے دینا شروع کر دئیے ہیں۔ سیاسی سرکس میں نئے آئٹم بھی شامل ہو چکے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ سے 72استعفوں کی منظوری کالعدم ہونے کے بعد پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپسی کیلئے بے تاب ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے مشورے بھی خان صاحب کو شدت سے یاد آرہے ہیں۔ کہیں پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ کی بازگشت ہے تو کہیں پارٹی چھوڑنے والوں کی توجیحات اور عذر‘ کہیں مائنس عمران‘ پی ٹی آئی کا چرچا تو کہیں عمران خان کی جلاوطنی کی باتیں‘ یہ ساری تھیوریاں‘ امکانات اور ممکنات کے گرد ہی گھومتی رہیں گی یا ان میں سے کوئی نتیجہ خیز بھی بڑآمد ہوگا‘ یہ عقدہ بھی بس کھلنے کو ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ 9مئی کے حملوں کی جڑیں عمران خان کی تقاریر میں ہیں اور پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات پر جتنا بھی سوچتا ہوں اتنا ہی غصہ بڑھتا ہے۔ وزیراعظم صاحب! آپ کا غصہ بجا ہے‘ کچھ وقت نکال کر ان عوام کے بارے میں سوچیں جو ملکی تاریخ کی بدترین طرزِ حکمرانی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ مہنگائی کا جن روز نئی دھمال ڈال رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی محال ہوتی جا رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی ہوشربا قیمتیں عوام کو بے بس اور نڈھال کیے ہوئے ہیں۔ پٹرول اور یوٹیلٹی بلز نے تو ادھ موا ہی کر ڈالا ہے۔ معاشی بدحالی عزت ِنفس اور غیرت کے درپے ہے۔
عوام کو روز مرگِ نو کا سامنا ہے۔ لمحہ لمحہ‘ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ ٹکڑوں میں جیتے اور مرتے رہیں گے۔ کب تک... آخر کب تک؟جناب کے اقدامات ہوں یا اصلاحات عوام دونوں کے ثمرات سے محروم ہے۔ بے پیندے کی معیشت کے برتن میں اصلاحات کے سمندر کب تک اُنڈیلتے رہیں گے؟ بسترِ مرگ پر پڑی اقتصادیات کی روح تو کب کی پرواز کر چکی‘ آخری رسومات کے بجائے خواہ مخواہ وینٹی لیٹر کا اضافی خرچہ قوم کب تک اٹھاتی رہے گی؟ نمائشی اجلاس‘ روایتی بھاشن اور فوٹو سیشن سے عوام کے مصائب اور مسائل کا حل رتی برابر بھی نکل آئے تو بخدا یہ سبھی بدعتیں یونہی جاری رکھئے۔ پاک فوج سانحہ 9مئی پر اپنی لائن لے چکی ہے‘ غم و غصے کے علاوہ وہ سبھی اقدام بھی کر رہی ہے جو ذمہ داران کو کٹہروں میں لاکر فوج اور عوام کو آمنے سامنے لانے کی سازش کے سبھی ماسٹر مائنڈز سے بھی نمٹ لے گی۔ آپ اپنے غصے کو سنبھال کر رکھیے! ملک کے سب سے بڑے صوبے کی نگران سرکار وفاق کی سنتی اور مانتی ہے‘ کبھی کبھار پوچھ تاچھ اور باز پرس بھی کر لینی چاہیے۔ پنجاب میں کبھی اکھاڑا تو کبھی سرکس اسی طرح چلتا رہا تو خاطر جمع رکھیں کچھ بھی نہیں چلے گا۔ سرکاری بابو سچی مچی کے بابو بن چکے ہیں۔ کسی کو وفاقی کی آشیرباد ہے تو کسی کو تختِ پنجاب کی۔ آپ کاکچھ غصہ مستعار درکار ہے۔