کسی بھی موضوع پر لکھنا شروع کروں‘ جلد ہی یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ سبھی تو کم و بیش پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ امورِ ریاست ہوں یا کوئے سیاست‘ سبھی میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ سالہا سال اور کئی کئی دہائیوں سے وہی حالات‘ وہی مارو مار‘ وہی مجہولِ سیاست‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ وہی الزامات‘ وہی مقدمات‘ فرق صرف اتنا ہے کہ ایوان والے زندان میں اور زندان والے ایوان میں جا پہنچے ہیں۔ گویا کل کے تخت نشیں آج مجرم بنے پھرتے ہیں اور کل تک جو مجرم قرار پائے تھے‘ وہ آج تخت نشیں ہیں۔ یہ سبھی کرشمات اسی خطے کا خاصا بنتے چلے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کے بدترین مخالف ہوں یا جانی دشمن‘ ان سبھی میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ دھرتی ماں کو مل کر کھاتے ہیں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ سب تو مجھے خون شریک بھائی ہی نظر آتے ہیں جو مل کر دھرتی ماں کا خون پیتے ہیں۔ باری کسی کی بھی لگ جائے‘ اقتدار کسی کے بھی ہتھے چڑھ جائے‘ ایجنڈا سبھی کا ایک ہے۔ جانے والا جہاں سے چھوڑ کر جاتا ہے‘ آنے والا کئی اضافوں کے ساتھ وہیں سے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ کھانے والوں کے جھاکے اس طرح اتر چکے ہیں کہ ملکی وسائل ہوں یا قومی خزانہ‘ سبھی کو باپ دادا کا مال سمجھتے ہیں۔ آئین اور قانون سے لے کر ضابطے اور اخلاقیات تک سبھی بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔
مملکتِ خداداد کی عمر عزیز کے نصف عرصہ تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والے ہوں یا حالیہ چند سالوں میں‘ سبھی حصہ بقدرِ جثہ کھاتے اور اڑاتے چلے آرہے ہیں۔ کس کس کا نام لیں‘ کس کس کی دہائی دیں‘ سبھی دودھ کے دھلے اور صادق و امین بنے پھرتے ہیں۔ تعجب ہے! ملکی خزانہ بھی صاف ہے‘ ان سبھی کے دامن اور ہاتھ بھی صاف ہیں۔ ایسا اندھیر مچا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سر چڑھے سرکاری بابو ہوں یا مصاحبین اور مشیر‘ کسی پر کوئی الزام لگا دیجیے‘ کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔ کسی کو ندامت ہے نہ کوئی شرمندگی‘ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھی اپنی بے گناہی کے مضحکہ خیز عذر کس قدر ڈھٹائی سے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے مخالفین کی آنکھ میں تنکے پر طوفان اٹھاتے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان کو خاتونِ اوّل کی کرپشن سے آگاہ کرنے پر جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو عمران خان بھی موجود ہیں اور ان کی اہلیہ بھی‘ حکومت ان کی کرپشن کے غم میں پتلا ہونے کے بجائے ان فرائضِ منصبی پر توجہ دیجیے جس کا حق نہ کبھی ماضی میں ادا ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ادا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر بلند ترین سطح کو چھو چکا ہے۔ خیر ڈالر سے ہمارا کیا مقابلہ‘ کیا موازنہ‘ ہمیں تو سابق ہم وطنوں کے ٹکے نے ٹکے ٹوکری کر ڈالا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ کی مبینہ کرپشن پر پارلیمنٹ میں دھواں دار تقریر کرنے والے وزیراعظم اپنی اسیری کے دوران نیب حکام کو برملا کہا کرتے تھے کہ میں اپنے بچوں اور بیگم کے کسی بینک اکاؤنٹ‘ پراپرٹی‘ کاروبار یا بھاری رقوم کی ترسیلات کے بارے میں خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔ لہٰذا مجھ سے صرف میری کرپشن کے بارے میں ہی بات کی جائے۔
وزیراعظم صاحب مزید فرماتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات میں رعایت ہوئی تو ملک نہیں بچے گا۔ حضورِ والا! جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ ملک کے پلے تو پہلے ہی کچھ نہیں رہا‘ اب کیا بچانا چاہتے ہیں؟ غالباً دو تین سال پہلے کسی کالم میں کہا تھا کہ اگر یہ سارے بچ گئے تو کچھ نہیں بچے گا۔ وہی ہوا کہ ایک ایک کرکے یہ سارے بچتے ہی چلے گئے اور پھر وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ وہیل چیئرز پر کانپتی ٹانگوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ پیشیاں بھگتتے بھگتتے سبھی اسیر زندان سے ایوان میں جا پہنچے۔ وطن عزیز کرۂ ارض پر یقینا واحد ملک ہوگا جہاں ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا سفر چٹکیوں میں طے ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت پی ٹی آئی کی سرکردہ شخصیات پر کرپشن یا لوٹ مار کے جو بھی الزامات ہیں‘ ان پر حکمران اتحاد بالخصوص (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی کے منہ سے تبصرے جچتے نہیں ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم مخالفین کا کرپشن نامہ بلاناغہ شفٹوں میں سنا سنا کر وہی غلطی دوہرا رہے ہیں جو عمران خان اور ان کی ٹیم کرتی رہی ہے۔ وزیراعظم نہ احتسابی ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اور نہ ہی تفتیشی افسر‘ ایسا کرنے سے اچھا بھلا کیس بھی سیاسی انتقام بن کر رہ جاتا ہے۔ کبھی فرصت ملے تو پی ٹی آئی کے دور کے وہ ویڈیو کلپ ضرور دیکھیں جن میں عمران خان اور شہزاد اکبر سمیت دیگر وزیر و مشیر مسلم لیگ (ن) کی کرپشن کے پلندے دکھایا کرتے تھے۔ ان کی نقالی کے بجائے کوئی ''ڈھنگ کا کام‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی سیاسی اشرافیہ نے اقتدار کی اس دھینگا مشتی میں پورا ملک ہی انگار وادی بنا ڈالا ہے۔ بالخصوص منہ سے اگلتے شعلوں نے تو اس طرح خاکستر کیا ہے کہ مملکتِ خداداد کا منظر نامہ کچھ یوں بن چکا ہے:
لا الہ کے دیس میں کشورِ حسین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
دور تک اندھیرے ہیں یاس کے بسیرے ہیں
گھات میں لٹیرے ہیں غاصبوں کے ڈیرے ہیں
کیسی رات چھا گئی صبح آفرین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
اہلِ زر کا راج ہے جبر تخت و تاج ہے
ظلم کا سماج ہے روگ لا علاج ہے
ظلم کا یہ سلسلہ داغ ہے جبین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
خوف ہے ہراس ہے تشنگی ہے پیاس ہے
چھت ہے نہ لباس ہے چُور چُور آس ہے
ہائے لٹ گیا یقین مرکزِ یقین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
منتشر خیال ہیں خواب پائمال ہیں
لوگ پُرملال ہیں غم سے یوں نڈھال ہیں
گر پڑی ہو جیسے چھت زیر چھت مکین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
در بدر جوان ہیں قوم کی جو آن ہیں
کل کے پاسبان ہیں ذہن بدگمان ہیں
بند آرزو کے در ہوگئے ذہین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
شہر ہے یا گوٹھ ہے نظریوں اوٹ ہے
نیتوں میں کھوٹ ہے ٹھوکریں ہیں چوٹ ہے
راہ زنی کا ہو گماں اپنے ہم نشین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
سب کے سب جھپٹ پڑے آج اس زمین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر