مملکتِ خداداد غیر معمولی مشکل حالات سے دوچار ہے۔ اس سے بڑھ کر بری خبر یہ ہے کہ یہ حالات کئی اضافوں کے ساتھ اسی طرح چلتے رہیں گے۔ جمہوریت کے حسن کا رقص پاؤں میں بیڑیاں اور گلے میں طوق ڈالے اس طرح جاری ہے کہ تنگدستی اور حالات کے ستائے ہوئے باپ کی خودکشی کے بعد تین بچے مردہ جسم سے لپٹے دہائی دیتے رہے کہ ابو اٹھ جاؤ اب ہم کھانا نہیں مانگیں گے۔ ایک خاتون کی لاش کو قبر سے نکال کر بے حرمتی اور درندگی کے مرتکب عبوری ضمانتوں پر موجیں مارتے پھر رہے ہیں۔ وزیراعظم مخلوق کو طویل قطاروں میں کھڑا کر کے آٹے کا تھیلا عنایت فرما رہے ہیں اور پس منظر کے حالات اس نظام کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اشرافیہ کے پالتو کتے لگژری گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور آوارہ کتے راہ چلتے بچوں اور مردوزن کو بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ کروڑہا روپے کی بجلی ملی بھگت سے چوری کروانے والے دوہزار کی عدم ادائیگی پر میٹر اتار لے جاتے ہیں۔ دن دہاڑے سرِعام ناحق مارے جانے والوں کے قاتلوں کو ناکافی ثبوتوں کی بناپر باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ ملک و قوم کو مسلسل مہنگی اور بھاری پڑنے والی اشرافیہ سستی چھوٹ جاتی ہے۔ جمہوریت کے حسن کے چند لشکاروں پر ہی گزارا کیجئے کیونکہ اس حسن کی پوری آب و تاب اور سبھی جلوؤں کو بیان کرنے کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔ جمہوری عمل کے تسلسل کے ڈھونگ ہوں یا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے ڈھکوسلے سبھی کی آڑ میں کیسے کیسے کھلواڑ اور وارداتیں جاری ہیں‘ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے مرا جاتا ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے سبھی حدیں پار کر جاتا ہے۔
پون صدی بیت چکی مائنس پلس کی سیاست نے عوام کو ہی مائنس کر ڈالا۔ ایک دوسرے کو ڈاکو‘ چور‘ لٹیرا اور خائن کہنے والے آپس میں ہی معاملات اور باریاں طے کر کے اندھیر مچائے ہوئے ہیں۔ ضرورت آن پڑے تو بدترین مخالفین حلیف بننے میں دیر نہیں لگاتے اور مفادات ٹکرا جائیں تو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اور واری واری جانے والے دست و گریباں ہوتے دیر نہیں لگاتے۔ طرزِ حکمرانی بھی وہی ہے جس میں یہ سبھی اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے علاوہ آپس میں ہی باریاں لگا سکیں۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں آنے والا جانے والے سے کہیں زیادہ ستمگر اور بے رحم ثابت ہوتا ہے۔ نظریۂ ضرورت نے ضرورتمندوں کی ایسی کھیپ پروان چڑھا ڈالی ہے کہ ملک بھر میں ضرورتوں اور مجبوریوں کی دلالی کا راج ہے۔
دوپارٹی نظام کی اجارہ داری ٹوٹی تو بیشتر پرانے چہروں کے ساتھ ایسا جتھہ پھر شریک اقتدار ہو گیا جو ہر دور میں قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے بعد آنے والوں کی خوشامد اور جانے والوں پر تنقید کے نشتر برسایا کرتا تھا۔ عوام کو ایک اور خبر دیتا چلوں کہ ایک بار پھر میدان لگایا جا رہا ہے‘ وہی مچھلیاں پھر اکٹھی ہو رہی ہیں جو صرف اقتدار کے تالاب میں ہی رہتی چلی آئی ہیں۔ ملک و قوم کے مفاد اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے وہی مشقِ ستم دہرانے کے لیے بساط بچھائی جا رہی ہے‘ مہرے اور پیادے پوزیشنیں بدل رہے ہیں۔ ماضی میں شہ مات دینے والے خود شہ مات کا شکار ہیں۔ جال وہی ہے شکار او رشکاری بدل چکے ہیں۔ عوام تو وہی رہیں گے‘ حلف اور آئین سے انحراف بھی جاری رہے گا‘ دعوے اور وعدے جھانسے ثابت ہوتے رہیں گے‘ قانون گھر کی باندھی‘ ضابطے حکم کے غلام اور پالیسیاں خواہشات کے تابع ہی رہیں گی۔ احتساب حساب کتاب کی نذر اور سماجی انصاف صرف تقریروں میں ہی ملے گا۔ کبھی ریاستِ مدینہ کے جھانسے‘ کبھی چینی اور ایرانی ماڈل کی باتیں تو کہیں ترکیہ کے اتاترک کی مثالیں‘ یہ سبھی ڈھکوسلے اور دھوکے صرف مینڈیٹ ہتھیانے اور عوام کو بیوقوف بنائے رکھنے کے حربے ہی ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔
ہنرمندانِ ریاست اور سیاست سے بہتر کون جانتا ہے کہ سبھی نظام عوام پے بھاری ہی پڑتے چلے آئے ہیں۔ 75برسوں میں ایک بھی حکمران ایسا نصیب نہیں ہوا جس کی گواہی دی جاسکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا ہو۔ عوام کو تو ایک لمحہ ایسا نصیب نہیں ہوا جس میں وہ فخر سے کہہ سکیں کہ ہم اس عہد میں زندہ ہیں جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔ کس کس کا نام لیں‘ کس کس کا رونا رویں‘ دعوے اور وعدے پورے کرنا تو درکنار انہوں نے تو عوام کو ان حقوق سے بھی محروم کیے رکھا ہے جو بحیثیتِ انسان ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ عوام کو اور کیا دیں گے ان سے کچھ بچتا تو عوام کے پلے پڑتا۔ کھانے والوں نے اس طرح کھایا ہے کہ سسٹم کی چولیں ہلانے کے علاوہ معیشت کا پیندہ ہی چاٹ کھایا۔ بے پیندے کی معیشت میں جھوٹے سچے اقدامات اور اصلاحات کے سمندر بھی انڈیل دیں تو اس قطرہ بھی ٹھہرنے والا نہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اقتصادی اصلاحات کے ڈھونگ کے بجائے اس معیشت کی آخری رسومات ادا کریں جس کی روح تو نجانے کب کی پرواز کر چکی ہے۔ خدارا! ہر دور میں شرمسار گورننس اور تار تار میرٹ کے ذمہ داروں کے لیے بھی تو کوئی میرٹ ہونا چاہیے۔ انہیں بار بار آزمانا اور موقع دینا عوام کے درد اور عذاب میں اضافے کے سوا کچھ نہیں‘ یہ سبھی ہوس اقتدار کے مارے اور ان کے منہ کو حکمرانی کا خون لگ چکا ہے۔ یہ کیسا احتساب ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ رنگے ہاتھوں کے باوجود یہ مسلسل ہاتھ دِکھائے چلے جا رہے ہیں۔ ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور ان کا دامن بھی صاف ہے تعجب ہے! ایسی جمہوریت پر چار حروف جس کا حسن عوام کے خوابوں اور آسوں سمیت ان سبھی امیدوں اور حسرتوں کو گہنا کر رکھ دے جس کے تعاقب میں عوام مسلسل بیوقوف بنتے چلے آرہے ہیں۔ نسل در نسل دھوکے کھاتے عوام کو ان دھوکوں اور جھانسوں کی لت پڑ چکی ہے‘ اس لت میں لت پت عوام ہر بار دھوکہ کھانے کے لیے پھر تیار ہو جاتے ہیں۔
خدارا! اس بار وہی نظام دہرانے کے بجائے کوئی ایسا نظام لایا جائے جو روٹی کا نظام ہو۔ جس میں عوام کو یقین ہو کہ اسے روٹی کے حصول کے لیے اَنا اور عزت نفس کا سمجھوتا نہیں کرنا پڑے گا۔ پیٹ بھر روٹی اور دیگر بنیادی سہولیات ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ حصولِ انصاف اور دادرسی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی۔ شنوائی کے لیے ذلت دھتکار اور پھٹکار جیسے عذابوں کو نہیں جھیلنا پڑیگا۔ علاج معالجہ کا نظام کسی کو مرض لاعلاج سے دوچار نہیں کرے گا۔ جدید اور معیاری تعلیم کے علاوہ دیگر شہری سہولیات پر اس کا مساوی حق ہوگا۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ مفادِ عامہ اور ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوگا۔ ملکی وسائل پر اشرافیہ کی بندر بانٹ ممنوع ہوگی۔ قومی خزانے پر حکمرانوں کی کنبہ پروری اور اللّے تللّے حرام تصور ہوگی۔ جمہوریت کے نام پر نسل در نسل باپ کے بعد بیٹا اور دادا کے بعد پوتا جیسی بدعتوں پر پابندی ہوگی۔ غیر جمہوری سیاسی پارٹیوں کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی اجازت ہرگز نہ ہوگی۔ الیکٹ ایبلز راج نیتی میں شجر ممنوعہ نہیں ہوں گے۔ پون صدی گنوانے کے بعد اب بھی وہی فرسودہ نظام‘ وہی چہرے‘ وہ تجربات‘ وہی عذر دوہرانا عوام کو ایک اور مرگِ نو سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ جو نظام عام آدمی کی روٹی نہ چلا سکتا ہو وہ امور مملکت کیونکر چلا سکتا ہے۔