ٹکر کے سبھی لوگ پارٹی چیئرمین کو ٹکراؤ کے بھیانک انجام سے دوچار کرکے آستانۂ ترین پر ماتھا ٹیک رہے ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین سے خائف اور عمران ترین دوریوں کو انجوائے کرنے والے بھی بھاگ بھاگ کر شامل ہو رہے ہیں۔ کس کس کے نام لوں‘ سبھی کو سب جانتے ہیں۔ علیم خان کے گھر جہانگیر ترین نے استحکامِ پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان کرکے شامل ہونے والوں کے لیے دعوتِ عام کا اعلان کر ڈالا۔ خدا کرے یہ پارٹی حقیقی معنی میں استحکامِ پاکستان کا استعارہ ثابت ہو۔ تھوک کے بھاؤ شامل ہونے والوں میں تقریباً سبھی پی ٹی آئی دور میں وزیر اور مشیر رہ چکے ہیں۔ اس تناظر میں استحکامِ پاکستان پارٹی ان سبھی کی جائے پناہ قرار پا چکی ہے جو تحریک انصاف سے لاتعلقی اور علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ یہ سیاستدان بھی کمال مخلوق ہیں‘ ضرورت اور مجبوری کے ہاتھوں اس قدر بے بس پائے گئے ہیں کہ سبھی تلخیوں اور الزام تراشیوں کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو بھی اس طرح پی جاتے ہیں جیسے ماضی میں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو جہانگیر ترین اور علیم خان سے متنفر اور بیزار کرنے والے وزیروں اور مشیروں کو وقت کے پہیے نے کہاں لا پھینکا ہے۔ اپنی اپنی بقا اور استحکام کی خاطر استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی سنچری مکمل ہو چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید چوکے چھکے بھی لگتے نظر آئیں گے جبکہ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی میں تلخ کلامی کی گونج نے منظرنامے کو مزید ڈرامائی بنا ڈالا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو شاہ جی کا پس منظر یا بیرونِ ملک جانے کا مشورہ نہ صرف ناگوار گزرا ہے بلکہ زباں بندی کے نتیجے میں معافی تلافی کی بات کرنے پر بھی برہم ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جو لوگ آپ کو گمراہ کر رہے ہیں‘ وہ ان حالات میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ ان حالاتِ پریشاں میں ان کے مشوروں سے بچنے کا مشورہ شاہ جی کے اخلاص اور معاملہ فہمی کا استعارہ ہے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کب کسی کی بات مانتے ہیں۔
اعلیٰ عسکری قیادت کی طرف سے دوٹوک اور واضح پیغام دیا جا چکا ہے کہ 9مئی کی سازش بھولیں گے‘ نہ معاف کریں گے۔ ہائی کمان کی طرف سے اتنے سخت الفاظ کا استعمال شاید پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں حالات کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھنے کے بجائے ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی روایت برقرار رکھنا بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی افتادِ طبع کا خاصہ ہے۔ پاک فوج کی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ سیاہ باب کے ماسٹر مائنڈ پر مضبوط گرفت کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ یہ تاکید بھی ہے کہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی اور عسکری تنصیبات و اہم عمارتوں پر متشدد حملے کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر جلد کیفرِ کردار پہنچایا جائے۔
بات ہو رہی تھی تحریک انصاف سے اُڑن چھو ہو کر استحکامِ پاکستان پارٹی کی چھتری پر غول در غول بیٹھنے والوں کی‘ ڈال ڈال پہ بیٹھنے والے یہ سبھی پنچھی دانے دُنکے کے لیے اکٹھے تو ہو رہے ہیں لیکن یہ جہاں بھی گئے ہیں عوام کا دانہ پانی بند کرنے کا باعث ہی بنے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرزِ سیاست اور افتادِ طبع کی کمزوری کو بخوبی سمجھنے والے کون سی کمزوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے رہے۔ کانوں کا کچا ہونے سے لے کر بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر فوری ایمان لانے والے کو دیوتا اور اوتار بنانے والوں نے کون سی ہوا نہیں بھری؟ چیئرمین پی ٹی آئی نے عدمِ اعتماد کی تحریک کا جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے امریکی سازش کا چورن پوری قوم کی آنکھوں میں اس طرح جھونکا کہ کچھ سجھائی نہ دیا۔ اندھی تقلید اور گمراہ کن بیانیے کے زور پر نفرت اور انتشار کی جو آگ لگائی گئی اس نے پورا ملک انگار وادی بنا ڈالا۔ امریکی مخالف بیانیے سے منحرف ہونے کے علاوہ سازش کے سبھی پہلو صدرِ مملکت عارف علوی سمیت حالات و واقعات نے بے نقاب اور قطعی رَد کر ڈالے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے اردگرد خود کو ٹکر کا قرار دینے والوں نے انہیں ایسے بانس پر چڑھایا کہ انہیں زمین اور زمینی حقائق دکھائی دینا ہی بند ہو گئے۔ تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں برابر باور کرواتا رہا ہوں کہ انصاف سرکار میں واحد سٹیک ہولڈر چیئرمین پی ٹی آئی ہیں‘ باقی سبھی تو گھس بیٹھیے اور بینی فشریز ہیں‘ کسی کے پلے کچھ نہیں‘ ووٹر بھی پارٹی چیئرمین کا ہے‘ مینڈیٹ بھی ان کا ہے‘ یہ سبھی ان کی مقبولیت کی کمائی کھا رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے پیچھے بھی یہ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک ذمہ دار ہیں۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور بے سروپا الزامات سے پاپولر پالیٹکس کا ایڈونچر کر رہے تھے۔ عسکری قیادت اور اہم شخصیات کی کردار کشی کے منصوبہ ساز چیئرمین پی ٹی آئی کو آگے لگا کر ان ایجنڈوں کی تکمیل کر رہے تھے جو واٹس ایپ یا خفیہ پیغام رسانی کی صورت میں ملتی تھیں۔
اگلے 10سال کے اقتدار کی منصوبہ بندی کی تکمیل کی دھن ایسی سوار ہوئی کہ سبھی کچھ فراموش کرتے چلے گئے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے کیا نکالے گئے گویا جنت سے نکال دیے گئے۔ پارلیمنٹ چھوڑ کر سڑکوں پر جتھوں کی صورت میں آبیٹھے‘ دھرنوں اور احتجاج کی آڑ میں کارکنوں کی وہ کھیپ تیار کر ڈالی کہ جنہیں نہ ملکی استحکام سے کوئی سروکار تھا اور نہ ہی غیرتِ قومی ان کے لیے کوئی معانی رکھتی تھی۔ حصولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے ورکروں کی وہ ٹیمیں بھی تشکیل دیں جو بوقتِ ضرورت دنگا فساد اور جلاؤ گھیراؤ بھی کر سکتے تھے۔ پارٹی چیئرمین کی گرفتاری کو بہانہ بنا کر وہ سبھی حربے بھی آزما ڈالے جن کی منصوبہ بندی زمان پارک میں کئی ماہ سے جاری تھی۔ ریاست کو یرغمال اور اداروں کو سرنگوں کرنے کے لیے ایسا گھناؤنا اور بھیانک منصوبہ بنایا گیا کہ ملکی وقار اور سلامتی دونوں ہی داؤ پر لگا ڈالے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی طرزِ سیاست نے جہاں عوام کو گمراہ کیا وہاں پارٹی کی سرکردہ شخصیات پر مشتمل ٹکر کے لوگوں کی وہ کھیپ بھی تیار کر ڈالی جو راہ چلتے ٹکراتے پھرتے تھے۔ ٹکرانے کی عادت جوں جوں زور پکڑتی چلی گئی اور شروع شروع میں قانون اور ضابطوں سے برابر ٹکراتے اور وزارتوں سمیت اہم سرکاری اداروں میں نقب لگاتے رہے۔ معدے اور تجوریاں بھرنے کے بعد کچھ اَپھارہ محسوس ہوا تو آپس میں ٹکرانا شروع کر دیا۔ انصاف سرکار میں گروپ بندی کے علاوہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے اور سازشوں کو دوام بخشتے رہے۔ اگلے 10سال مزید حکمرانی کی خواہش میں پہلے تو پولی پولی ڈھولکی بجاتے رہے اور پھر اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف ڈھول بجانا شروع کر دیا۔ صبح و شام زبانوں سے زہر اگلنا شروع کر دیا۔ ان حالات میں چیئرمین پی ٹی آئی خود کو ناقابلِ تسخیر تصور کر بیٹھے اور ٹکر کے لوگوں کی فوج بنا کر اداروں کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو اس وقت بھی کہتا رہا ہوں کہ ''یہ جو تیرے نظر آتے ہیں سب تیرے نہیں‘‘۔ ٹکر کے سبھی لوگ اگلے جگاڑ کے لیے آستانۂ ترین پر ماتھا ٹیک چکے ہیں۔