قارئین آج ملے جلے موضوعات پر بات کریں گے۔ سیاسی سرکس اور لمحہ لمحہ بدلتے منظرنامے نے موضوعات کے تو انبار لگا ڈالے ہیں۔ کہیں جمہوریت کے حسن کے لشکارے ہیں تو کہیں دلوں کے بھید بھاؤ اور کھلتے ہوئے عقدوں کا سلسلہ جاری ہے تو حریف سے حلیف اور حلیف سے حریف بننے کی تاریخ بھی برابر دہرائی جا رہی ہے۔ جن کی وفاداری مسلمہ اور جو اٹوٹ انگ تصور کیے جاتے تھے وہ ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو چکے ہیں اور جن کے بارے میں تحفظات اور خدشات پالتے رہے وہ سبھی عتابوں اور جبر کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ خان صاحب نے 2018ء کے انتخابات کے بعد جسے وسیم اکرم پلس کہتے ہوئے تختِ پنجاب پر لا بیٹھایا وہ تو اس طرح مائنس ہوا کہ کوئٹہ جاکر پریس کانفرنس کر ڈالی‘ گویا مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔
بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کی جو قیمت خان کو چکانا پڑی اس کی ادائیگیاں آج بھی جاری ہیں۔ اداروں کے تحفظات اور اندرونی مزاحمت سمیت لوٹ مار اور بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات کے باوجودخان صاحب انہیں وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے‘ خدا جانے کیا عوامل تھے؟ کیا خدشہ تھا کہ وہ بزدار کی تبدیلی کو رد کرتے چلے آئے‘ لیکن واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی ڈوریاں کون کون اور کہاں بیٹھ کر ہلاتا تھا۔ خان صاحب کو جس کی وجہ سے مستقل تنقید اور مزاحمت کا برابر سامنا رہا‘ جس کی کارکردگی صفر اور اہلیت آخری وقت تک نامعلوم ہی رہی‘ اس نے اعلانِ لاتعلقی کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ اس کے برعکس خان صاحب جنہیں پنجاب کا ڈاکو کہا کرتے تھے‘ وہ آج بھی‘ 78سال کی عمر میں‘ قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود‘ ڈٹے ہوئے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی مردم شناسی کے معاملے میں کورے پائے گئے ہیں۔ طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی سبھی فیصلے اور اقدامات اُلٹے پڑنے کے علاوہ اپنے اردگرد کیسے کیسے ارسطو اور سقراط اکٹھے کیے رکھے‘ جن کے بارے میں مسلسل باور کرواتا رہا ہوں کہ یہ سبھی آنے والے وقتوں میں پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ضرور بنیں گے۔ کس کس کا نام لوں‘ انصاف سرکار میں گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار کرنے والے سرکاری اداروں اور وسائل کو بے دردی سے بھنبھوڑنے کے علاوہ آئے روز شرمندگی اور سبکی کا باعث کب نہیں بنے‘ لیکن خان صاحب کی مت مارنے والوں نے کیسے کیسے کام کروا ڈالے کہ ڈھونڈے سے بھی کوئی کارنامہ کریڈٹ پر نہیں جس پر فخر کر سکیں۔ حکمرانی جیسی عطا کو کبھی اپنی تو کبھی خاتونِ اوّل کی ادا ثابت کرنے کے بھونڈے اور بے تکے جواز پیش کیا کرتے تھے۔ احتساب کی جو بھٹی انہوں نے دہکائی تھی آج اس کے انگارے لپکتے ہوئے شعلے اور مکافاتِ عمل بھڑکتا ہوا الاؤ بن چکا ہے۔ خان صاحب کی اہلیہ سنگین الزامات کی زد میں ہیں جبکہ اہلیہ کی قریبی سہیلی تختِ پنجاب کی چولیں ہلانے اور لمبا مال سمیٹنے کے بعد فرار ہیں۔ خان صاحب کے دیگر سرچڑھے مصاحبین اور مشیر بھی خطرے کی بُو سونگھتے ہی اُڑن چھو ہو چکے ہیں بالخصوص شہزاد اکبر جنہوں نے سیاسی مخالفین کا اتنا مہنگا احتساب کیا کہ سبھی سستے چھوٹ کر حکمران بن چکے ہیں۔ دوسری طرف خان صاحب کے اردگرد منڈلانے والے پروانے ہوں یا واری واری جانے والے مستانے ‘مملکت کے استحکام کے لیے ایک بار پھر نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہے۔ ان کے ہاتھوں جوحشر نشر پاکستان کا ہو چکا ہے اس کے تناظر میں بخوبی اندارہ لگایا جا سکتا ہے کہ استحکامِ پاکستان کے نام پر کیا نئے گل کھلائیں گے۔ یہ سبھی عمران خان سے علیحدگی اور لاتعلقی اختیار کر کے محفوظ پناہ گاہ میں تو پہنچ چکے ہیں لیکن ایک معمہ تاحال حل طلب ہے کہ یہ سبھی ووٹر کہاں سے لائیں گے؟ حلقوں میں جانے سے گریزاں ووٹر درآمد کریں گے یا کہیں سے مستعار لیں گے؟ آئندہ الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں اقتدار کسی کے بھی ہتھے لگ جائے لیکن اس بار الیکٹ ایبلز کی دھول اُڑتی نظر آتی ہے۔ خود کو ناقابلِ تسخیر اور گیم چینجر تصور کرنے والوں کا یہ مغالطہ بھی دور ہو جائے گا کہ ان کا انتخابی میدان میں آنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اگر یہ سبھی ناقابلِ شکست ہیں تو پارٹیاں اور وفاداریاں کیوں بدلتے ہیں؟ اگر ان کے حلقے کا ووٹ ان کی جیبوں میں ہے تو یہ الیکشن جیتنے کے لیے خزانے کیوں لٹاتے ہیں؟ یہ سبھی عوام کو تو بیوقوف بناتے ہی آئے ہیں لیکن کمال مہارت سے اپنے بارے میں بھی یہ پروپیگنڈا انتہائی مؤثر انداز میں کرتے چلے آئے ہیں کہ وہ ہر پارٹی کی ضرورت ہیں۔ یہ چورن مزید بکتا نظر نہیں آتا‘ خاطر جمع رکھیں! انتخابی دنگل شروع تو ہو لینے دیں‘ یہ لنگوٹ چھوڑ کر بھاگتے نظر آئیں گے۔
ان سماج سیوک نیتاؤں کی جمہوریت پسندی کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے مائنڈ سیٹ پر غور تو کریں‘ مسلم لیگ(ن) ہو یا تحریک انصاف‘ جمہوری چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ اپنے دورِ اقتدار میں بنیادی جمہوریت کے اداروں سے خائف اور بلدیاتی انتخابات کروانے سے بھاگتے ہی رہے ہیں۔ چند سال قبل ایک کالم میں ان کی جمہوریت پسندی کا پول کھول چکا ہوں جو آج بھی حسب حال ہے ''آئیے بلدیاتی اداروں سے خائف جمہوریت کے علمبرداروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 2008ء میں مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں برسر اقتدار آکر سات سال تک مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکے رکھا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی لیکن انتخابات کروانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور حکم پرمجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانے پڑے۔ انتخابات تو ہوگئے لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔ بالآخر دسمبر 2016ء میں منتخب نمائندوں کی حلف برداری اور مئیرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا‘ غیر فعال اور بیوروکریسی کے مرہون منت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل‘ آئین اور قانون کی پاسداری کی چیمپئن شپ جیت لی۔یہاں بھی بدنیتی اور بوئے سلطانی غالب رہی۔ ضلعی مئیرز اور چیئرمینوں کے دائرہ اختیار سے وہ تمام محکمے خارج کردیے گئے جن کا تعلق براہ راست شہری سہولیات اور محصولات سے تھا۔ مذکورہ محکموں میں حکومت پنجاب نے اپنا کنٹرول اور حکمرانی کو برقرار رکھا اور اس طرح بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیار جبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔مالی اور انتظامی طور پر غیر مستحکم اور غیر فعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کر دیاجس پر وہ آج تک شرمندہ بھی نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اس ''واردات‘‘ پر پاکستان تحریک انصاف نے خوب واویلا اور سیاست کی اور یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی بر سراقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا بھرپورموقع دے گی‘ ‘لیکن برسرِ اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش کو برقرار رکھا اور بلدیاتی ادارے تحلیل کر ڈالے اور اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں انتخابات سے بھاگتے ہی رہے‘‘۔ چلتے چلتے کچھ احوال تختِ پنجاب کا بھی جہاں ٹیکنوکریسی اور بیورو کریسی کے سبھی اقدامات ''اﷲ کریسی‘‘ کو برابر آواز دے رہے ہیں۔ ان کی رسی کب تک دراز ہے‘ اﷲ ہی جانے۔