آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے‘ بے شمار صعوبتوں اور دشوار گزار مراحل سے گزر کر بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں سینکڑوں پاکستانیوں کی دردناک موت پر سمندر بھی یقینا رو پڑا ہوگا۔ جمع پونجی لٹا کر‘ ادھر ادھر سے مانگ تانگ کر‘ کیسے کیسے جتن کرکے انسانی سمگلروں کی تجوریاں بھر کر موت کے سفر پر روانہ ہونے والوں پر اہلِ خانہ کے دن سنوارنے کا ایسا جنون سوار ہوتا ہے کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو عمر بھر کا رونا ان کے پیاروں کا نصیب بن جائے گا۔ لواحقین اب مرنے والوں کو روئیں یا ان بھاری قرضوں کو جو وہ سات سمندر پار جانے کے لیے اٹھا کر گئے تھے۔ جان کی بازی لگا کر روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے والوں کی داستان اتنی طویل ہے کہ ہر صفحہ المناک انجام سے عبارت ہے۔ ملک بھر میں سوگ اور سفارت خانے میں ہیلپ لائن کے قیام کے علاوہ کارندوں کی گرفتاریاں جاری ہیں جبکہ انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے یقینا اگلی کھیپ بھجوانے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔
انسانی سمگلنگ کے اصل چہرے اور کردار تو زمینی قانون کی پہنچ اور گرفت سے کوسوں دور ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار کوئی ان کا نام تک لینے کا رسک نہیں لیتا۔ ایک زمانے میں کئی ہوائی اڈوں پر ان کا راج تھا۔ ٹیکنالوجی اور نیٹ ورکنگ جدید ہونے کے بعد ہوائی اڈے محفوظ شکارگاہ نہیں رہے‘ جہاں تھوک کے بھاؤ بندے جہازوں پر چڑھاتے تھے وہاں اِکا دُکا کا داؤ لگنے لگا۔ فضائی راستے سے انسانی سمگلنگ کے آپشنز جوں جوں کم ہوتے چلے گئے توں توں کشتیاں اور لانچیں بھرتی چلی گئیں۔ کہیں ٹینکروں اور کنٹینروں میں چھپ کر تو کہیں کشتیوں میں سوار ہوکر اپنے دن سنوارنے والے سبھی کچھ داؤ پہ لگانے لگے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح بھر بھر کر انسانی کھیپ بھجوانے والے کہیں سسٹم میں نقب لگا کر تو کہیں سسٹم کو ساتھ ملا کر یہ دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس المناک سانحہ پر یومِ سوگ کا اعلان کرنے والوں کو یہ خبر تو ہونی چاہیے کہ مملکتِ خداداد میں پریشان حالی اس طرح پنجے گاڑھے ہوئے ہے کہ ہر کوئی ملک چھوڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہے‘ گویا زمین تنگ ہو گئی ہے یا زمین کے وسائل ان کے لیے ناپید ہوگئے ہیں۔ اُف خدایا! بیس بیس‘ پچیس پچیس لاکھ روپے دے کر موت کے سفر پر روانہ ہونے والوں کو کیا خبر کہ اب ان کے پسماندگان کی عمریں تووہ قرضہ اتارتے گزر جائیں گی جو انہوں نے مستقبل سنوارنے کے لیے اٹھایا تھا۔ آئے روز ایسے واقعات کے باوجود موت کے مسافروں میں کمی ہو رہی ہے اور نہ ہی حکومتی ادارے اس گھناؤنے اور بے رحم دھندے کو بند کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے ہوں تو ایسے دھندے کہاں بند ہوتے ہیں۔ ضرورتمند موجود ہوں تو ضرورتوں کی دلالی کرنے والے تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ سوگ کا ایک روز گزر چکا ہے‘ کارروائی کے لیے کارندے بھی پکڑے جا رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں انہی دردناک واقعات کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔ جہاں مستقبل تو درکنار‘ حال کے شب و روز رسوائی اور پریشانی کا استعارہ بن جائیں وہاں ملک چھوڑنے کا رجحان کیسے کم ہو سکتا ہے۔
پڑھے لکھے‘ ڈگریاں اٹھائے روزگار کے لیے دھکے کھا کھا کر بے حال ہو جائیں اور روزگار کے مواقع سفارش اور رشوت پر وار دیے جائیں تو جیتے جاگتے انسانوں کی کشتیاں الٹنے اور بے رحم سمندری لہروں کا رزق بننے پر ماتم اور سوگ کیسا؟ جہاں چہرے شرمسار اور سرنگوں ہونے چاہئیں وہاں پرچم سرنگوں کرکے حقِ حکمرانی ادا کیا جاتا ہو تو یونان سے کس بات کا گلہ کہ ان کے کوسٹ گارڈز مدد کے بجائے ڈوبنے والوں کا تماشا دیکھتے رہے۔ اب دہائی دی جا رہی ہے کہ ڈوبے نہیں ڈبویا گیا ہے۔ ان انکشافات پر واویلا کرنے کے بجائے خدارا ان عوامل پر غور کریں جو یورپ جانے کے جنون کے پیچھے کارفرما ہیں۔ جس خطے میں حال ماضی سے کہیں بدتر اور مستقبل بھیانک نظر آرہا ہو اور بھاگ جانے میں ہی عافیت نظر آئے تو وہاں بسنے والے کیونکر بس سکتے ہیں۔ غیر قانونی ذرائع سے جانے والے تو ایک طرف یہاں تو جائز ذرائع سے جانے والوں کی قطاریں ختم نہیں ہو رہیں۔ پورے پورے خاندان ملک چھوڑ کر کینیڈا‘ امریکہ اور یورپ سمیت نجانے کہاں کہاں جاکر بس رہے ہیں۔ ذرا پتا تو کریں وطن چھوڑنے والوں کی تعداد میں ہر سال ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سبھی کسی شوق میں گھر بار اور لگا لگایا کاروبار چھوڑ کر نہیں بھاگ رہے‘ یہ حالات اور طرزِ حکمرانی سے تنگ آکر بھاگنے پر مجبور ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ یہ یقین بھی روز بروز پختہ ہوتا چلا جائے کہ حالاتِ پریشاں مزید اضافوں کے ساتھ جوں کے توں چلتے رہیں گے‘ بہتری اور استحکام کا تصور بھی محال ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایسے میں جائز ذرائع سے جانے والے ہوں یا ناجائز ذرائع سے جانے والے‘ سارا کرشمہ حالاتِ بد اور طرزِ حکمرانی کا ہی ہے۔
وزیراعظم فرماتے ہیں کہ ہم سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ ابھی ساتھ ہیں تو آئے روز صفِ ماتم بچھتی ہے اگر خدا نخواستہ ہمارے محبوب حکمران ساتھ نہ ہوتے تو نجانے مزید کون کون سے مسائل درپیش ہونا تھے۔ تاہم ان نمائشی ہمدردیوں اور دکھاوے کے اقدامات کے بجائے ان انسانی سمگلروں کی گردنوں کو دبوچا جائے جن کی گردن تک پہنچتے پہنچتے قانون کے ہاتھ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ کون کسے نہیں جانتا؟ انسانی سمگلنگ میں ملوث کارندوں کی گرفتاریاں بھی ہمیشہ مخصوص اضلاع سے ہی کیوں ہوتی ہیں؟ متعلقہ حکام سمیت ہر خاص و عام کو پتا ہے اس مکروہ اور سفاک دھندے کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔ کٹھ پتلیوں کی پکڑ دھکڑ سے یہ دھندہ ہرگز رکنے والا نہیں۔ قارئین! بات اسی طرح چلتی رہی تو کئی پردہ نشینوں کے ناموں کا پنڈورا باکس کھلنے کا امکان ہے تاہم کچھ کام سرکار کے ہیں اور سرکار پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں‘ سرکار جانے‘ سرکار کی ترجیحات جانیں‘ مزید تفصیلات میں جانے کے بجائے احتیاط ہی بہتر ہے۔
چلتے چلتے کالم میں ایک آدھ خبر اور شامل کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا ایک تازہ فرمان یہ بھی ہے کہ ملکی ترقی کا سفر روکنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حضورِ والا! جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ اس قوم کی فکر نہ کریں‘ یہ گزشتہ 75برسوں سے معاف ہی کرتی چلی آئی ہے۔ پھر وہ چاہے ملکی ترقی کا سفر روکنے والے ہوں یا ملک و قوم کے وسائل پر ترقی کرنے والے‘ تاہم وزیراعظم اس امر کی وضاحت بھی کر ڈالیں کہ ملک و قوم کے وسائل پر ہوشربا ترقی کرنے والوں کے بارے میں ان کے خیالاتِ عالیہ کیا کہتے ہیں۔ اُدھر پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری محمد خان بھٹی کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کی یہ معطلی اینٹی کرپشن کی سفارشات پر کی گئی ہے۔ محمد خان بھٹی کی معطلی کی خبر ہرگز حیران کن اور بڑی نہیں ‘ اصل حیرانی اس وقت ہوئی تھی جب انہیں قانون اور ضابطے معطل کر کے سیکرٹری لگایا گیا تھا۔ بعد ازاں گریڈ 22دینے والوں کی عقل اور قانون پسندی پر تو صرف ماتم ہی کیا جا سکتا تھا لیکن آفرین ہے! کسی کونے سے ان دونوں اقدامات پر مزاحمت اور مذمت کی آواز تک نہیں آئی۔ افسرِ شاہی ہو یا مزاجِ شاہانہ رکھنے والے اسمبلی میں براجمان سیاستدان‘ سب چپ سادھے خاموش تماشائی بنے رہے۔ خیر! یہ کام بھی سرکار کا ہے‘ سرکار جانے‘ اس کی ترجیحات جانیں۔