زندگی بھی عجب گورکھ دھندا ہے‘ کیسے کیسے نامی گرامی‘ قد آور اور جاہ و جلال والے نہ صرف قصۂ پارینہ ہو گئے بلکہ ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ انہیں یاد کرنے کا حوالہ کوئی نہیں۔ ہمارے ہاں ملک کے طول و عرض میں ایک نام بھی ایسا نہیں کہ جسے قدرت نے حکمرانی عطا کی ہو اور اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا ہو۔ گورننس جیسی عطا کو اپنی ہی کسی ادا کا چمتکار سمجھنے والے تاریخ میں زندہ رہنے کے سبھی مواقع گنواتے چلے آئے ہیں۔ وطنِ عزیز کو فلاحی مملکت بنانے کے دعوے کرنے والے فلاح و بہبود کی ضد ہی پائے گئے ہیں۔ ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے ڈھیر لگانے والے ہوں یا بیڈ گورننس کو گڈ گورننس ثابت کرنے والے‘ سبھی کی اپنی اپنی ترجیحات رہی ہیں۔ کسی کے سر پر اقتدار چڑھ گیا تو کوئی ملکی خزانے اور وسائل پر ہوشربا ترقی کرتا چلا گیا۔ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے سبھی حدیں پار کر گیا تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے آئین اور ضابطوں سے انحراف کر گیا۔ ہوس اقتدار کی ہو یا مال و زَر کی‘ ایک بار اس کی لت لگ جائے تو لت پت کر ڈالتی ہے۔
مملکتِ خداداد میں اس لت کا شکار کون نہیں رہا؟ یہ ایسی بھوک ہے جو مٹنے کے بجائے مسلسل بڑھتی اور بے حال کیے رکھتی ہے۔ خواہشات اور حسرتوں کی تکمیل کی دھن میں فرائض منصبی فراموش کرنے سے لے کر قانون اور ضابطوں کو تابع بنائے رکھنے والوں کی ترجیحات اس طرح بدل جاتی ہیں کہ عوام یکسر نظر انداز ہوتے ہوتے مائنس ہو چکے ہیں۔ قانون سازیاں ہوں یا قراردادیں‘ ضابطے اور پالیسیاں ہوں یا طرزِ حکمرانی کے دیگر روپ بہروپ‘ مفادِ عامہ کے منصوبے ہوں یا تعمیر اور ترقی کے بڑے پروجیکٹس‘ سبھی مفادات کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ سرکاری حیثیت اور اختیارات کے زور پر ذاتی کاروبار بنانے اور چمکانے کی بدعت اس قدر دوام پکڑ چکی ہے کہ اچھے اچھے پرانے کاروباری اداروں کی چولیں اس لیے ہل چکی ہیں کہ وہ مرچنٹ حکمرانوں کا مقابلہ کیونکر کر سکتے ہیں۔
صحت اور تعلیم سمیت کئی شعبوں میں حکومت عوام کی ضروریات کا بوجھ اٹھانے سے نہ صرف قاصر اور ناکام ہو چکی ہے بلکہ بیشتر بنیادی حقوق اور سہولیات سے محرومی مقدر بنتی چلی جارہی ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا حادثات اور بڑے انسانی المیے‘ ان سبھی میں اگر غیرسرکاری فلاحی ادارے میدانِ عمل میں نہ آئیں تو حکومت کے وہ پول بھی کھل سکتے ہیں جن کا بھرم یہ ادارے رکھتے چلے آئے ہیں۔ ہنگامی حالات اور آفتوں کے دوران سرکار متاثرین کی بحالی کے اکثر ریسکیو آپریشن فلاحی اداروں کی معاونت سے ہی کر پاتی ہے۔ ایسے میں ان اداروں کا وجود اور خدمات بلاشبہ غنیمت ہے۔ سر پہ چھت‘ تن پہ کپڑا اور پیٹ کی آگ بجھانے کو روٹی بھی کسی کو نصیب نہ ہو تو اس سے بڑا المیہ اور قیامت کیا ہو سکتی ہے۔ ہر سرکار اپنے جھمیلوں اور دھندوں میں اس قدر الجھی پائی گئی ہے کہ انہیں کھلے آسمان تلے‘ پارکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے بھی نظر نہیں آتے۔ جس کے پاس رات بسر کرنے کا کوئی سامان نہ ہو‘ خدا کی زمین بچھونا اور بازو سرہانا ہو‘ اس کے باقی زندگی کس قدر اذیت ناک اور نجانے کتنے اور عذابوں سے تعبیر ہوگی۔
سیاسی شعبدہ بازی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے لنگرخانے اور پناہ گاہیں بھی بنائی جاتی رہی ہیں لیکن ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنانے والوں نے کب ایسے منصوبے کامیاب ہونے دیے ہیں۔ جو حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے کارخانوں کا جال بچھانے کے دعوے کیا کرتے تھے وہ لنگرخانوں پر آگرے۔ جو بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر دینے کے دعوے کیا کرتے تھے وہ پناہ گاہوں کے فیتے کاٹتے پھولے نہ سماتے۔ ایک کروڑ نوکریاں کیا خاک دیتے ان کے دور میں تو پارکوں‘ فٹ پاتھوں اور گرین بیلٹوں پر سونے والوں اور دو وقت کی روٹی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جہاں غیرسرکاری فلاحی ادارے معاشرے میں ایسے انسانی المیوں کی روک تھام کے لیے کوشاں اور سرگرم ہیں وہاں میجر (ر) رشید وڑائچ کا نام نہ لیناکم ظرفی ہوگی جو فردِ واحد لیکن ایک چلتا پھرتا ادارہ تھے۔ ان کی فلاحی خدمات کے بارے چند سطریں اپنے ایک پرانے کالم سے مستعار لے کر آگے بڑھتے ہیں:
''میجر صاحب شدید سردی کی راتوں میں تھڑوں‘ فٹ پاتھوں‘ پارکوں‘ گرین بیلٹوں پر سونے پر مجبور بے کسوں پر کمبل اور چادریں اوڑھاتے اور رات کے اندھیرے میں وہ یہ کام اس قدر خاموشی اور احتیاط سے کرتے کہ سونے والے کی نیند تک خراب نہ ہو۔ اس کے بعد گھر جاکر اپنی نگرانی میں ناشتہ تیار کروانا اور صبح سویرے کھلے آسمان تلے سو کر اٹھنے والی بے یارو مددگار خلقِ خدا میں ناشتہ بھی اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرنا ان کا معمول تھا۔ یہی نہیں‘ ان کا باقی کا سارا دن بھی اسی کھوج اور تلاش ہی میں گزرتا کہ کہاں موقع ملے اور وہ کسی کی حاجت روائی اور مصیبت ٹالنے کا سبب بن سکیں۔ میری میجر (ر) رشید وڑائچ سے پہلی ملاقات 1989ء میں برادرِم شعیب بن عزیز کے دفتر میں ہوئی تھی اور پھر ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ ان سے بچھڑنے تک جاری رہا اور خوب جاری رہا۔ شعیب بن عزیز ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں نے آج تک کسی شخص کو ''وقت رخصت‘‘ اتنا مطمئن اور پُرسکون نہیں دیکھا۔ ان کے چہرے پر اگر فکرمندی تھی تو صرف ان لوگوں کے لیے جن کی رات کے اندھیرے میں خبر گیری کیا کرتے اور جنہیں وہ صبح ناشتہ پہنچایا کرتے تھے‘ وہ ساری عمر بعد از مرگ زندگی کے لیے بھاگتے رہے‘‘۔
بعد از مرگ زندگی کی خواہش قدرت نے اس طرح پوری کی کہ اولادِ نرینہ نہ ہونے کے باوجود داماد نے بیٹوں سے بھی زیادہ کر دکھایا اور اکلوتی بیٹی سو بیٹوں پر بھاری ثابت ہوئی۔ محبوب اسلم لِلّٰہ ویسے تو پولیس افسر ہیں لیکن انہوں نے اپنے سسر کے کارِ خیر کی پگ ان کی بیٹی صوفیہ وڑائچ کے سر پر اس طرح رکھی کہ بیگم کے معاون اور مددگار بن کر رہ گئے ہیں۔ دسترخوان کا سلسلہ غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ سینکڑوں گھرانوں میں مالی وظائف اور راشن پیکیج رازداری اور باقاعدگی سے جاری ہے۔ گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہ کاریوں میں یہ فلاحی جوڑا ریسکیو آپریشن میں پیش پیش اور گہرے پانیوں میں خود موجود رہا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے لاہو رکے پوش ترین علاقے میں پانچ وسیع و عریض گھروں میں سو بے سہارا اور یتیم بچوں کو اس طرح رکھا ہوا ہے کہ مثالی تعلیم و تربیت سے لے کر اعلیٰ خوراک سمیت وہ سہولیاتِ زندگی بھی میسر ہیں جس کا یقین صرف دیکھنے کے بعد ہی آسکتا ہے۔ دردِ دل رکھنے والے اس جوڑے کو بچے ماما‘ بابا کہہ کر پکارتے ہیں۔ سکول میں بچوں سے کوئی کلاس فیلو پوچھ لے کہ تم کہاں رہتے ہو تو بچے بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ میں ''اپنا گھر‘‘ میں رہتا ہوں۔ ان گھروں کو اپنا گھر کا نام دینے والے خالد عباس ڈار ہیں جنہیں سبھی بچے دادا ابو کہہ کر بلاتے ہیں۔ بچوں کو ہوٹلنگ اور شاپنگ کے علاوہ تفریح کے سبھی مواقع اسی طرح فراہم کیے جاتے ہیں جیسے وہ اپنے حقیقی بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔