"AAC" (space) message & send to 7575

بھرا معدہ اور خالی دماغ

ایک کہاوت ہے کہ ''معدہ دماغ سے لاکھ درجے بہتر ہے‘ خالی ہو تو کم از کم بتا تو دیتا ہے‘‘۔ معدہ خالی ہونے کا پتا خود کو جبکہ دماغ خالی ہونے کا پتا دوسروں کو چل جاتا ہے۔ گویا معدہ خالی ہو جائے تو چھپایا جا سکتا ہے لیکن دماغ خالی ہو تو اسے چھپانا ممکن نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں معاملہ کچھ الٹا ہے‘ معدے کے ہاتھوں مجبور ہو کر سب کچھ کر گزرنے والوں کا دماغ خالی ہی پایا گیا ہے۔ شکم پروری سے لے کر کنبہ پروری اور پھر بندہ پروری کے سبھی مراحل طے کرنے والوں کا خالی معدہ جوں جوں بھرتا چلا جاتا ہے‘ دماغ خالی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ سبھی فیصلے دماغ کے بجائے معدے سے کیے جانے لگتے ہیں‘ ایسے فیصلے ضرورتوں میں لتھڑے ہوئے اور مجبوریوں میں دھنسے ہوئے ہوتے ہیں‘ ایسے فیصلوں کے نتائج ملک کے طول و عرض میں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہنرمندانِ سیاست و ریاست سے ملاقاتوں اور محفلوں میں گپ شپ کے دوران برابر کہتا چلا آرہا ہوں کہ میں نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے دماغ استعمال کیا ہو تو اس کی صحت پر برے اثرات پڑے ہوں۔ دماغ کے استعمال سے نہ گردے فیل ہوتے ہیں‘ نہ فالج کا اٹیک ہوتا ہے۔ میڈیکل سائنس گواہ ہے کہ بینائی بھی جوں کی توں رہتی اور سماعت بھی متاثر نہیں ہوتی۔ صحت کی ضمانت کے باوجود خدا جانے یہ سبھی دماغ کے استعمال سے گھبراتے اور کتراتے کیوں ہیں۔ اوپر لکھی گئی کہاوت کی تشریح اس لیے کچھ طویل ہو گئی کہ یہ ہمارے فیصلہ سازوں اور ہنرمندوں پرسولہ آنے فٹ بیٹھتی ہے۔ قبل اس سے کہ قارئین معدے اور دماغ کی تکرار سے اکتاہٹ کا شکار ہوں‘ کالم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ تاہم قارئین کے پاس کھلا آپشن ہے کہ وہ کالم کو معدے اور دماغ کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خبر دی ہے کہ نواز شریف جوکہ چوتھی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہیں‘ 14اگست کو پاکستان آ سکتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ مدت پوری ہونے پر حکومت چھوڑ دیں گے اور 15ارب ڈالر کے ذخائر بھی چھوڑ کر جائیں گے۔ نواز شریف کی آمد کی خبر دینے والے اسحاق ڈار جب سرکاری خرچ پر واپس آکر معاشی سقراط بن سکتے ہیں تو نواز شریف تو پھر ان کے قائد ہیں‘ وہ تو ان سے کہیں بڑھ کر قوم کو سرپرائز دے سکتے ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار ہونا بھی اچھنبے کی بات ہرگز نہیں۔ ہمارے سماج سیوک نیتا حکمرانی کے لیے ہمہ وقت تیار اور بھلے چنگے رہتے ہیں۔ البتہ اگر اپوزیشن میں ہوں تو سبھی بیماریاں اس طرح حملہ آور ہوتی ہیں کہ عدالتوں میں کانپتے ہاتھوں اور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ وہیل چیئر پر ہی پیش ہوتے ہیں اور رہی بات حکومت چھوڑتے وقت پندرہ ارب ڈالر کے ذخائر کی تو اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی ڈار صاحب ایسے دعوے کرتے چلے آئے ہیں۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اس بار بھی بے پَر کی ہی چھوڑی جا رہی ہے۔ گویا:خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
ہر طرف ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں‘ تازہ ترین ریکارڈ موسلا دھار بارشوں کا ٹوٹا ہے جو جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کو درہم برہم کرنے کے علاوہ سیلاب کے خطرات کا الارم بھی بنتا چلا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے اور بے رحم سیلابی ریلوں کا رخ عوام کی طرف سے موڑے ہی رکھے۔ ابھی تو گزشتہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثراتِ بد سے چھٹکارا نہیں ملا کہ دریا بپھرے چلے جا رہے ہیں۔ سیلاب ہوں یا طوفانی بارشیں‘ حکمرانوں اور ریاستی ہنرمندوں کے لیے تشہیر اور نمائش کے کیسے کیسے مواقع بھی ساتھ لاتے ہیں۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ کسی زمانے میں طوفانی بارشوں کے بعد گہرے پانیوں میں اتر کر معائنہ کیا کر لیا‘ آج تک ان کی نقالی اور پیروڈی جاری و ساری ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ نقل کے لیے عقل بھی ضروری ہے یعنی عقل نہ ہو تو نقل کا رِسک نہیں لینا چاہیے۔ ایک نگران صوبائی وزیر بھی نقالی کے لیے گہرے پانیوں میں اس طرح کودے کہ نقل بھی شرما گئی کہ میری ایسی درگت تو کبھی کسی نے نہیں بنائی۔ لمبے بوٹ پہن کر پانی میں یوں پھرتے رہے جیسے راستہ بھول گئے ہوں۔ ریکارڈ توڑنے کے چکر میں اپنا ہی ریکارڈ بنوا ڈالا۔ خیر! جس کا کام اسی کو ساجے۔
باقی نگران سرکار کے حالات اور معاملات بھی کوئی قابلِ فکر اور اتنے اچھے نہیں ہیں‘ کہیں مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے تو کہیں پہلے سے مری ہوئی مکھیوں کو مارا جا رہا ہے۔ انتخابات کی آڑ میں ہزاروں تبادلوں کے انڈے بچے نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ گورننس اور میرٹ کی درگت تو پہلے ہی بن چکی تھی‘ اب تو اس کا بھرکس بھی نکل چکا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے بھی سبھی ریکارڈ توڑے چلے جا رہے ہیں۔ نہ کوئی آئینی جواز ہے اور نہ قانون اور ضابطوں میں کوئی گنجائش‘ اخلاقی جواز کی تو خیر بات کرنا ہی بیکار ہے۔ گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے کے ٹوٹتے ہوئے ریکارڈ دیکھ کر اپنے ہی کئی کالم بے اختیار یاد آرہے ہیں کہ ماہ و سال گزر جائیں یا کتنے ہی شب و روز گزر جائیں۔ مملکتِ خداداد کے حالات کہیں جوں کے توں اور کہیں مزید اضافوں کے ساتھ بد سے بدتر ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے ہی ایک کالم کی چند سطریں پیشِ خدمت ہیں: ''نیا پاکستان بنانے والوں کے دعوؤں اور وعدوں کا چند فیصد بھی سچ ہو جاتا تو شاید پرانا پاکستان قصۂ پارینہ بھی بن جاتا۔ مائنس عوام فیصلے کرنے والوں نے وسیم اکرم پلس متعارف کروایا تو خود بھی مائنس ہوتے ہوتے آؤٹ ہوگئے لیکن مائنس پلس کا کھیل تاحال جاری ہے۔ وسیم اکرم پلس کے طعنے دینے والوں کو اب بزدار پلس کے طعنے سننا پڑ رہے ہیں‘‘۔
سرکاری اجلاسوں میں غیرمتعلقہ کاروباری شخصیات کی موجودگی اور امورِ حکومت میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ زبان زد عام ہے۔ ماضی کی سبھی بدعتوں کو برابر دوام بخشا جا رہا ہے۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل وزراء جس طرح ہر حکومت پر بوجھ اور سوالیہ نشان بنے رہے‘ آج بھی صورتحال ہرگز مختلف نہیں ہے۔ ماضی کے ادوار میں کم از کم یہ تسلی ضرور تھی کہ شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے یونہی نہیں آن بیٹھے۔ ان کے پَلے کچھ ہو نہ ہو لیکن حکمرانی کے لیے آئینی اور قانون جواز ضرور موجود رہے۔ آج آئین بھی خاموش ہے اور آئین کی تشریح کرنے والے بھی گم سم ہیں۔ قانون اور ضابطے سرنگوں ہیں تو اخلاقی جواز حیران اور شرمسار ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر یہ کوئی تجربہ کیا جا رہا ہے یا کوئی شوق پورا کیا جا رہا ہے۔ طول و عرض میں سناٹا اور خاموشی چھائی ہوئی ہے‘ نہ کوئی سوال کرنے والا ہے اور ناہی کوئی ملال کرنے والا۔ مل کر کھیلنے اور مل کر کھانے کی سبھی بدعتیں عام اور جاری ہیں۔ کیسی کیسی گھات اور کیسی کیسی نقب... کیسا کیسا شکار اور کیسے کیسے شکاری‘ کیسے کیسے جگاڑ اور کیسے کیسے ڈھونگ‘ اُف خدایا!
دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ مملکتِ خداداد میں موجیں صرف اونچے تعلقات والوں کی لگی ہوئی ہیں۔ جو اس معیار پر پورا اترتا ہے حکومت بھی اسی کی ہے اور حکمرانی بھی اسی کی ہے‘ کوئی بلواسطہ مزے میں ہے تو کوئی بلاواسطہ۔ دوسری طرف عوام کی حالت یہ ہے کہ:
خالق ہمیں حساب میں دیجیو رعایتیں
ارضِ وطن میں زندگی دشوار تھی بہت

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں