قارئین اور اکثر احباب کو حالیہ کالم کے بارے نہ صرف خاصا تجسس ہے بلکہ یہ اصرار بھی ہے کہ منو بھائی کے کالم ''بعنوان ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘ ایس ایس بوس وکنار‘‘ کی تفصیل ضرور شیئر کروں تاکہ آخر پتا تو چلے کہ منو بھائی نے ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ جس کے ردِ عمل میں لاہور پولیس ان کو سبق سکھانے پہ تل گئی تھی۔ واقعہ پیشِ خدمت ہے کہ اُن دنوں جا بجا پولیس ناکوں پر عوام کو روکنا اور پریشان کرنا معمول بنتا چلا جا رہا تھا۔ ان پولیس ناکوں پر عوام کو روک کر نہ صرف منہ سونگھا جاتا تھا بلکہ اکثر جوڑوں/ فیملیز سے بھی ان کے رشتے اور تعلق کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔ شدید عوامی ردِ عمل پر منو بھائی نے کالم میں اعلیٰ پولیس افسران کو مشورہ دیا کہ اس طرح بے جا عوام کو پریشان کرنے کے بجائے پولیس فورس میں سینئر افسران کی سربراہی میں دو نئے وِنگ بنا دیے جائیں جن میں سے ایک بوس و کنار کی روک تھام جبکہ دوسرا عوام کے منہ سونگھ کر شراب نوشی کی تصدیق کرے۔ انہوں نے ذمہ داری کے تعین کی مناسبت سے کالم کاعنوان ''ایس ایس پی بوس و کنار اور ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘‘ ہی رکھ ڈالا جس پر لاہور پولیس کی کمان اور کئی سینئر افسران سیخ پا ہوگئے اور منو بھائی کو سبق سکھانے کے لیے جواز تلاش کرنے لگے۔ منو بھائی کو پولیس سے بچانے کے لیے ان کے دوست ڈی آئی جی نے کیا کردار ادا کیا اور ڈی آئی جی کانفرنس میں ہونے والی پلاننگ چیف سیکرٹری کی بروقت مداخلت سے کس طرح ناکام ہوئی‘ اس کا احوال حالیہ کالم میں پہلے ہی شیئر کر چکا ہوں۔
اب چلتے ہیں اپنے اصل موضوع اور کالم کی طرف۔ وزیراعظم نے عندیہ دیا ہے کہ 14اگست کو حکومتی مدت پوری ہونے پر اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ انتخابات اکتوبر میں ہوں یا نومبر میں‘ اس کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا۔ حضورِ والا! جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ الیکشن کمیشن نے تو پنجاب میں بھی انتخابات کی تاریخ دی تھی لیکن نگران حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے باوجود انتخابات کروانا تو درکنار کسی نے ہامی تک نہیں بھری۔ عدالتِ عظمیٰ کی بھرپور کوششوں اور برابر سماعت کے باوجود الیکشن کمیشن کی دی ہوئی تاریخ پر وفاقی حکومت اور نگران سیٹ اَپ انتخابات سے گریزاں اور انکاری ہی رہے۔ وزیراعظم نے گیند ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ڈال دی ہے لیکن دور کی کوڑی لانے والوں کو انتخابات دور دور تک نظر نہیں آرہے جبکہ حلیف جماعت پیپلز پارٹی انتخابات میں تاخیر سے گریزاں بھی لگتی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ لیکن جب تک چیئرمین پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں جاتا‘ انتخابات سالِ رواں میں واقعی نظر نہیں آرہے۔ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کا اونٹ بیٹھتے ہی حکمران اتحاد کا ذاتی مفادات کا بیٹھا ہوا اونٹ کہیں کھڑا نہ ہو جائے۔
ایک طرف انتخابات سے قبل اصلاحات کی بات چل رہی ہے‘ دوسری طرف الیکشن کمیشن سے انتخابات کے انعقاد کی توقع کی جا رہی ہے‘ ان حالات میں حکومت نجانے کسی کنفیوژن کا شکار ہے یا غیریقینی کا‘ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر قرضے کی منظوری اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی پہلی قسط کی وصولی‘ سعودی عرب سے دو ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے ایک عرب ڈالر کی وصولی کے باوجود اعتماد اور یقین کہیں نظر نہیں آرہا۔ رہی بات 14اگست کے بعد متوقع وفاقی نگران حکومت کی تو خاطر جمع رکھیے‘ یہ پنجاب کے نگران سیٹ اَپ کے ایکشن رِی پلے کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ نگران حکومت انتخابات کروانے کے بجائے انتخابات ٹالنے کا مینڈیٹ لے کر آئے۔ خیر! انتخابات سے بھاگنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں زیادہ عرصے کے لیے نہیں ٹالا جا سکتا۔ انتخابات بروقت ہوں یا تاخیری حربوں کے بعد‘ دونوں صورتوں میں عوام کے لیے مرگِ نو کا ہی باعث ہوں گے۔ مسلسل باور کرائے چلے جا رہا ہوں کہ وہ مقام آن پہنچا ہے کہ مملکتِ خداداد کو اب نگرانوں کی نہیں‘ نگہبانوں کی ضرورت ہے۔ انتخابات کا انعقاد ہو یا اقتدار اور وسائل کا بٹوارہ‘ یہ سبھی عوامل ملک کو درپیش چیلنجز اور عوام کی کڑی آزمائشوں کا مداوا نہیں کر سکتے کیونکہ نگران سیٹ اَپ کے لیے جو نام گردش کر رہے ہیں‘ وہ کچھ اور تو ہو سکتے ہیں لیکن نگہبان ہرگز نہیں۔ زیر گردش نام گردشِ ایام تو بڑھا سکتے ہیں لیکن ملک و قوم کو گردش سے نہیں نکال سکتے۔
ماضی میں ایک نگران سیٹ اَپ پر انتخابات کے دوران 35پنکچر لگانے کا الزام لگتا رہا ہے لیکن اس بار تو ٹیوب بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ انہی 35پنکچروں کے ردِعمل میں چیئرمین تحریک انصاف چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وفاق اور پنجاب میں حکومت بننے کے باوجود مسلم لیگ(ن) مذکورہ چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کروانے سے انکاری رہی۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) ان چار حلقوں میں رِی پول کروا دیتی تو شاید سیاسی ماحول میں غیرمعمولی شدت نہ آتی۔ انہی چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ لے کر چیئرمین تحریک انصاف نے 126دن کا دھرنا بھی دے ڈالا تھا۔ خیر! یہ تو ایک تھیوری اور آوارہ خیالی ہے‘ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ:
جو ہویا اے ہونا اِی سی
ہونی روکیاں رُکدی نئیں
ہنرمندانِ ریاست و سیاست کو خبر ہونی چاہیے کہ انتخابات جب بھی ہوں‘ اس کا نتیجہ بعد ازاں حالات کی صورت نوشتۂ دیوار ہے۔ زمینی حقائق اور تاریخ سے مسلسل آنکھیں چرانے والوں نے کیا نہیں چرایا‘ مینڈیٹ چرانے سے لے کر مینڈیٹ کی بولیاں اور منڈی لگانے تک‘ سبھی کچھ تو کر گزرے ہیں۔ اس بار انتخابات اور نگرانوں کے بجائے صرف نگہبانوں کو تلاش کر لیا جائے تو شاید قدرت کو بھی رحم آجائے۔ ماضی کے سبھی انتخابات کے نتائج اور اثراتِ بد آج بھی منہ چڑا رہے ہیں۔ نئے انتخابات کے نتائج ماضی سے زیادہ متنازع اور بھیانک ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں غیرمتنازع نیشنل ایجنڈے کی تکمیل سے مشروط وہ نگہبان تلاش کر لیے جائیں جو اس قومی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
اگر آج یہ مشکل فیصلے نہ کیے گئے تو اس ملک میں انتخابات بھی ہوتے رہیں گے‘ پنکچر بھی لگتے رہیں گے‘ ٹیوبیں بھی غائب ہوتی رہیں گی‘ مینڈیٹ کی منڈیاں اور بولیاں بھی اس طرح لگتی رہیں گی‘ یہ سبھی سماج سیوک نیتا باریاں لگا کر آتے جاتے رہیں گے‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے بھی یونہی جاری رہیں گے‘ سرکاری جھوٹ زور و شور سے بولا جاتا رہے گا ‘گمراہ کن اعداد و شمار اور دلفریب جھانسے ہی راج نیتی کا گر رہے گا۔ گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہوتا رہے گا‘ اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر ہی رہے گی‘ حکومتیں بنتی ٹوٹتی رہیں گی‘ یہ روپ بہروپ بدلتے رہیں گے‘ حریف حلیف اور حلیف حریف بنتے رہیں گے‘ یہ گورکھ دھندا یونہی پروان چڑھتا رہے گا لیکن عوام کے حالات جوں کے توں بلکہ بد سے بدترین ہوتے چلے جائیں گے۔ پون صدی سے جاری مشقِ ستم کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔ ملک و قوم سے بیوفائی اور کھلواڑ کا کوئی تو انجام ہونا چاہیے۔ پہلے بھی عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ برسرِ اقتدار ہوں یا ان کے شریک اقتدار‘ یہ کوئی دیوتا اور نجات دہندہ ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سبھی موقع پرست اور وہ خون شریک بھائی ہیں جو مل کر دھرتی ماں کا خون پیتے چلے آئے ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ ہے نہ کوئی منشور‘ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے پورا ملک ویسے ہی منڈی بنا ڈالا ہے۔