سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننا‘ خان کی سیاست کو گہنانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے رچائے گئے ڈرامے کا سکرپٹ ہی آؤٹ کر ڈالا۔ حکومت بچانے کے لیے گمراہ کن بیانیہ سازی میں شریک سبھی کردار بے نقاب تو ہو رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کون کون وعدہ معاف گواہ بن کر چیئرمین تحریک انصاف کو مزید کڑے حالات سے دوچار کرتا ہے۔ سائفر پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی پہلے ہی اظہارِ خیال کر چکے ہیں کہ اس میں نہ کوئی صداقت ہے اور نہ ہی ایسی کوئی سازش ہوئی لیکن سابق پرنسپل سیکرٹری کا مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان فردِ جرم کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی افتادِ طبع انہیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ مقبولیت اور قبولیت کے باوجود کچھ بھی سنبھال نہ پائے۔ ان کی طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت دونوں کا بغور جائزہ لیں تو اس تھیوری کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انسان کا مزاج ہی بالآخر اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
امریکی سازش کا بیانیہ بے نقاب ہونے کے بعد سیکرٹ ایکٹ حرکت میں آچکا ہے۔ اپنے پرنسپل سیکرٹری کے اقبالی بیان پر سابق وزیراعظم نے ردِعمل کچھ یوں ظاہر کیا ہے کہ اعظم خان کے منہ سے نکلے الفاظ جب تک اپنے کانوں سے نہیں سن لیتے وہ ہرگزیقین نہیں کریں گے۔ سابق وزیراعظم راج نیتی کے بھید بھاؤ سے شاید واقف نہیں ہیں‘ اکثر جان سے پیارے دکھائی دینے والے بھی اپنی جان بچانے کے لیے دوسروں کی جان جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں۔ اعظم خان نے کون سا انوکھا کام کیا ہے‘ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا گویا: جو ہویا اے ہونا ای سی۔ بطور پرنسپل سیکرٹری وہ سابق وزیراعظم کے کانوں میں جو کہتے رہے‘ خان صاحب اسی پر تکیہ کیے رہے۔ جہانگیر ترین سے اختلافات کو ہوا دینے سے لے کر معاملات کو پوائنٹ آف نو رِیٹرن پر پہنچانے تک یہ سرکاری بابو پیش پیش اور ہمیشہ سرگرم ہی رہے۔ اسی طرح علیم خان کا پتا کاٹنے کے چکر میں ایسی کٹائی کی کہ ہرا بھرا درخت ہی ٹُنڈ مُنڈ کر ڈالا۔ اس کھیل میں اعظم خان ہی نہیں کئی اور چیمپئنز بھی برابر کھیلتے رہے ہیں۔ شہزاد اکبر اور اعظم خان کا گٹھ جوڑ پوری انصاف سرکار پر حاوی تھا۔ فیصلہ سازی اور اقدامات سے لے کر سبھی معاملات پر ان کی گرفت پوری کابینہ پر بھاری ہی رہی۔
چیئرمین تحریک انصاف ان حالات سے یونہی دوچار نہیں ہوئے‘ ان کی افتادِ طبع کے ساتھ ساتھ ان دو کرداروں کے علاوہ کئی وزیر اور مشیر بھی پیش پیش رہے۔ آئیے! ماضی کے کچھ اوراق پلٹنے کیلئے اپنے ہی ایک ایسے کالم سے کچھ سطریں مستعار لیتے ہیں جو اُنہی دنوں شائع ہوا تھا جس دوران بیانیے کا چورن امریکی سازش اور امپورٹڈ حکومت کی برانڈنگ کے ساتھ زور شور سے بِک رہا تھا اور خان سمیت سبھی شریک کردار مقبولیت کی ہواؤں میں اُڑتے نظر آتے تھے: ''امپورٹڈ حکومت‘ بیرونی مداخلت اور عالمی سازش جیسے بیانیے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو جگانے کے علاوہ عوام کو اکسانے‘ اشتعال دلانے اور تقسیم کرنے کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیان بازی تک‘ پوائنٹ سکورنگ سے لے کر غلبہ حاصل کرنے تک‘ مخالفین کے لتے لینے سے لے کر کردار کشی تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد‘ بغض اور دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے لے کر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے تک‘ ایک دوسرے کی وطن پرستی پر انگلی اٹھانے سے لے کر غداری کا طعنہ دے کر تار تار کرنے تک منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک کے سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف تک سب یکسر فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان سبھی سے انحراف کر کے بھی محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے اور بھلے کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں۔ تحمل‘ برداشت اور برد باری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو۔ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفادِ عامہ نصب العین بنایا ہو۔ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو۔ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے ہوں۔ داد رسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں۔ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں۔ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو۔ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو۔ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں۔ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو۔ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا ہو۔ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابلِ تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟ غداری کا فتویٰ جاری کرکے کسی کی حب الوطنی کو داغدار کرنے کا اختیار اور ٹھیکہ کسی جماعت کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ محض ایک بیانیے سے کسی کی حب الوطنی اور وطن پرستی کا فیصلہ کرنے والے قوم کو تقسیم اور انتشار کی آگ میں مت دھکیلیں۔ عوام کے پاس جانا ہے تو کارکردگی اور وہ توپیں لے کر جائیں۔ امریکہ مخالف بیانیہ مارکیٹ کرنے والے اپنے دورِ اقتدار میں امورِ حکومت چلانے کیلئے ان درآمدی ماہرین پر انحصار کرتے رہے ہیں جن کی اکثریت امریکہ سے آئی تھی۔ ان سبھی کی اہلیت تاحال نامعلوم اور کارکردگی صفر ہی تھی۔ ان درآمدی مشیروں نے کابینہ میں شامل اچھے اچھے وزیروں کو اس طرح نکڑے لگایا کہ وہ آج اپنے حلقۂ انتخاب میں جانے کے قابل نہیں۔ عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والے وزیروں پر امریکہ سے درآمدہ مشیروں کو فوقیت دینے والے کس منہ سے 'امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے‘ جیسے بیانیے مارکیٹ کررہے ہیں‘‘۔ اس کالم کا حوالہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ تحریک عدمِ اعتماد ناکام بنانے کے لیے بیانیے کا چورن عوام کی آنکھوں میں ڈال کر وہ سبھی حدیں پار کرتے چلے گئے اور نفرت کی ایسی آگ لگائی گئی کہ پورا ملک اَنگار وادی بنا ڈالا اور ان شعلوں میں اپنا نشیمن بھی جلا ڈالا۔
خان پر سیکرٹ ایکٹ لگ جائے‘ ان کے شریک اپنی گردن اور کھال بچانے کے لیے بھلے وعدہ معاف گواہ بنتے چلے جائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والا منظر نامہ ماضی کے عذابوں کا مداوا کر سکے گا؟ ہرگز نہیں! کیونکہ سبھی چہرے اور کردار بار بار آزمائے جا چکے ہیں‘ کسی بہتری اور استحکام کی امید ایک اور مرگِ نو کا باعث ہوگی۔ خوب ناخوب اور ناخوب خوب بنتے چلے جائیں گے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلے آتے جاتے اور شوقِ حکمرانی پورے کرتے رہیں گے‘ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے اور عوام اسی طرح گمراہ ہوتے رہیں گے اور ان سبھی پر اعتبار کی سزائیں اگلی نسلوں کو منتقل کرتے رہیں گے۔