"AAC" (space) message & send to 7575

بابوؤں کا موازنہ

عمران خان کی خوش فہمی دور ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اعظم خان کے اقبالی بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک میں ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اپنے کانوں سے نہ سن لوں‘ یقین نہیں کر سکتا‘ لیکن اعظم خان تو چلتی پھرتی چارج شیٹ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ صرف نیب پہنچ گئے بلکہ 190ملین پاؤنڈ کے معاملے میں خود کو عینی شاہد کے طو رپر بھی پیش کر دیا۔ سابق پرنسپل سیکرٹری نے مزید پینڈورا باکس کھولتے ہوئے مرکزی کردار شہزاد اکبر سمیت سبھی پردہ نشینوں کو بے پردہ کر ڈالا۔ گویا عمران خان جسے گھر کا چراغ سمجھتے رہے اسی چراغ نے گھر کو آگ لگا ڈالی۔ ''خاناں دے خان پرؤنے‘‘ تو سنتے چلے آئے تھے لیکن ''خان دے خان ویری‘‘بھی دیکھ لیے ہیں اور ویری بھی وہ خان ہوا ہے جس کے لیے عمران خان نے پوری انصاف سرکار داؤ پہ لگا ڈالی۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کو قربان کرنے کے علاوہ کسی وزیر اور مشیر کی مفید سے مفید اور منطقی رائے بھی اعظم خان کے آگے رد کرتے چلے آئے۔ اعظم خان اور شہزاد اکبر کا جادو عمران خان پر اس طرح سر چڑھ کر بولتا رہا کہ وزیراعظم صرف انہی کی بولی بولتے اور سمجھتے تھے۔ کانوں میں گھولا ہوا زہراَب اثر دکھا رہا ہے۔
اُس وقت بھی برابر باور کرواتا رہا ہوں کہ حضورِ والا! یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں‘ سرچڑھے مشیر اور سرکاری بابو آج نہیں تو کل جناب کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بن جائیں گے۔ بیڑیوں کے سبھی انتظام تو اعظم خان انتہائی برق رفتاری سے کیے چلے جا رہے ہیں جبکہ بند کمروں کے سبھی راز و نیاز بھی گلے کے طوق بنا ڈالے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں‘ اسی طرح بااختیار شخصیات کے فیصلے اور اقدامات ان کی نیت اور ارادوں سمیت دلوں کے بھید بھی کھول دیتے ہیں۔
اسی تناظر میں نجانے کیوں احد چیمہ اور فواد حسن فواد بے اختیار یاد آرہے ہیں جو بالترتیب ساڑھے تین سال اور انیس ماہ قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ اہل خانہ پر آنے والے شدید دباؤ کے باوجود ثابت قدم رہے۔ فواد حسن فواد تو دورانِ اسیری ہی ملازمت کے ماہ و سال بھی پورے کر بیٹھے۔ ایک وہ پرنسپل سیکرٹری تھے اور ایک اعظم خان۔ دونوں کا فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ احد چیمہ نے حکمرانوں کی قربت کی قیمت طویل ترین اسیری کی صورت میں چکائی۔ اعظم خان جلد ہی گھبرا گئے تبھی تو فر فر بولے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان اور شریف برادران کے قریبی سرکاری بابوؤں کے موازنے کے ساتھ ساتھ کچھ موازنہ پارٹیوں کا بھی ہو جائے۔ 2018ء میں نواز شریف کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے آغاز سے لے کر نااہلی اور وزیراعظم ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد عام انتخابات میں ریاستی جبر سمیت گرفتاریوں‘ ریمانڈ اور پیشیوں کے باوجود ان کی پارٹی نہ ٹوٹی اور عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد نیب کا دائرہ وسیع پیمانے پر پھیلانے کے باوجود (ن)لیگ میں موجود خاص و عام اپنی قیادت کے ساتھ رہے۔ عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر روز احتساب تماشا کرتے تھے اور شریف خاندان سمیت مسلم لیگ(ن) کے سرکردہ رہنماؤں کی کردار کشی کر کے بڑے زور و شور سے ان کی کرپشن کہانی سنایا کرتے تھے۔ گرفتاریوں کی پیشگی اطلاعات سے لے کر زیر حراست شخصیات کو دبانے کے لیے خوب بڑھکیں بھی مارا کرتے تھے لیکن ان سبھی عوامل اور جبر کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا خواب خواب ہی رہا اور انصاف سرکار ایسے کئی خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں بھٹکتی رہی جبکہ تحریک انصاف کا معاملہ یکسر الٹا پایا گیا۔ پارٹی اس طرح ٹوٹی جس طرح بیچ چوراہے میں توڑی کی پنڈی کھل جائے اور آندھی چل پڑے۔ انصاف سرکار میں شریک ِاقتدار وزیروں اور مشیروں سے لے کر اعظم خان جیسے دبنگ اور بااختیار سرکاری بابو تو گرم ہوا کا ایک تھپیڑا نہ سہہ سکے۔ متوقع مشکلات اور سختیوں سے خائف سبھی عمران خان کی طرزِ سیاست اور طرزِ حکومت دونوں پر اس طرح تنقید کرتے پائے گئے ہیں گویا یہ سبھی کسی اشارے یا بہانے کے منتظر تھے اور پارٹی ٹوٹنے کا احوال تو اس قدر ڈرامائی ہے کہ سبھی نامی گرامی نئی پارٹی میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ تاہم اپنی پارٹی میں پناہ دینے والوں کے لیے یقینا ایک مشکل مرحلہ ہے کہ نومئی کے سنگین الزامات سمیت کئی رسوائیوں اور بدنامیوں کی پنڈ اٹھائے آنے والے یہ سبھی تو پارٹی کے نام کی ضد نظر آتے ہیں۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ کہیں ہاتھ تو نہیں ہو گیا؟ یہ دونوں ایک بار پھر استعمال تو نہیں ہو رہے ؟کیونکہ استحکام پارٹی تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر آنے والوں کے بل پر زیادہ سے زیادہ کیا کر پائے گی؟ ان کے لیے تو حلقوں میں جانا محال اور الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ برسر اقتدار آنے کا خواب تو تعبیر سے محروم ہی نظر آتا ہے‘ تاہم چند ایک کے بارے میں ضرور کہا جا سکتا ہے کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں اپنی سیٹیں نکال سکیں۔
پی ٹی آئی اور (ن)لیگ کے اس موازنے کے دوران اخبارات کے ڈھیر میں ایک خبر برابر منہ چڑائے چلے جا رہی ہے کہ پنجاب کی نگران سرکار سرکاری بابوؤں کے لیے دواَرب تیتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم گاڑیوں پر اُڑانے جا رہی ہے۔ جو ملک امور حکومت چلانے کے لیے قرض دینے والوں کے ترلے منتیں کرنے پر مجبور ہو‘ دو وقت کی روٹی اور دیگر اشیائے ضروریہ عوام کی قوتِ خرید سے کوسوں دور ہوتی چلی جا رہی ہوں‘ یوٹیلٹی بلز جہاں عوام کے ہوش اُڑا ڈالیں‘ اچھے بھلے کھاتے پیتے بھی مہنگے پٹرول کی وجہ سے گاڑیوں کا استعمال کنجوسی سے کرتے ہوں‘ موٹر سائیکلوں میں پٹرول ڈلوانے والے سو پچاس کا پٹرول خرچ کر کے سیدھے گھر جانے کی کرتے ہوں‘ اور وہ ملک جہاں حکومتی سطح پر کفایت شعاری مہم جاری ہووہاں افسروں کے لیے نئی کاریں اور ڈبل کیبن ڈالے خریدنے کی کون سی مجبوری آن پڑی ہے؟ زیر استعمال گاڑیوں میں کون سی گورننس اور قومی خدمات سرانجام دی جا رہی ہیں؟ عوام کو ان سرکاری بابوؤں کے در سے دھتکار‘ پھٹکار اور ذلت و رسوائی کے سوا ملتا ہی کیا ہے؟ ان افسران سے پچھلی گاڑیوں کا حساب تو لے لیں۔ ان گاڑیوں میں بیٹھ کر کون سی توپیں چلائی تھیں جو اَب انہیں نئی گاڑیاں دی جا رہی ہیں۔ عوام کی حالتِ زار اور افسر شاہی کی مراعات اور ٹھاٹھ باٹھ ایسے ہی ہیں جیسے گھر کی بجلی کٹی ہو‘ بوڑھی ماں دوائی کی منتظر بیٹھی ہو‘ بچے چولہے پہ چڑھی ناکافی دال کے پکنے کا انتظار کر رہے ہوں اور گھر کا سربراہ کہیں سے ادھار نئے ماڈل کا ٹیلی ویژن سیٹ اٹھا لائے کہ اس پر ڈرامے دیکھا کریں گے۔ خدا جانے یہ فاقہ مستی کیاکیا رنگ دکھائے گی‘ کیونکہ قرض کی مئے تو سبھی کے منہ کو لگی ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں