عمران خان کی سزا‘ نااہلی اور گرفتاری کے بعد حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ(ن) میں اُسی جشن کا سماں ہے جو پانچ سال قبل نواز شریف کی نااہلی پر تحریک انصاف میں تھا۔ مبارکبادیں‘ مٹھائیاں اور حق سچ کی فتح کے نعرے برابر جاری ہیں۔ ایک دوسرے کی مصیبتوں اور زوال پر جشن منانے کی بدعت ہماری سیاست کا خاصہ ہے۔ وقت کا پہیہ ان سبھی کو برابر باور کروائے چلا جا رہا ہے کہ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں‘ نہ تم‘ نہ تمہارا اقتدار اور اختیار۔ زمینی حقائق سے آنکھیں چراتے چراتے یہ سبھی راج نیتی کا ایندھن بن چکے ہیں جو حسبِ ضرورت استعمال کے بعد فارغ کر دیا جاتا ہے۔ بار بار استعمال ہونے والے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے استعمال کی قیمت ملک و قوم سے وصول کرنا زیادہ مقدم سمجھتے چلے آئے ہیں۔ مملکتِ خداداد کوUn-Governable کرنے والوں نے امورِ ریاست کواس طرح اپنے جوگا کر ڈالا ہے کہ حقیقی حکمرانی و گورننس جیسے الفاظ بس کتابوں اور خطابوں ہی میں رہ گئے ہیں۔ سیاسی دیگ میں اتنے مصالحے اور ترکیبیں آزمائی جا رہی ہیں کہ پکانا کچھ ہوتا ہے پکتا کچھ اور ہی چلا جاتا ہے۔ نئے سیاسی پکوان کے ذائقے اور لذت کب تک برقرار رہتے ہیں اس کا انحصار مصالحے ڈالنے والوں پر ہے کہ کب کہاں نئی ریسیپی (ترکیب) آزمانی پڑ جائے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے خواہشمند شاہ محمود قریشی کا انتظار ختم ہوا۔ کب سے منتظر اور نظریں لگائے ہوئے تھے کہ عمران خان گرفتار ہوں تو پارٹی معاملات سنبھالیں۔ بات شروع ہوئی تھی عمران خان کی گرفتاری پر جاری جشن سے‘ یہ گرفتاریاں اور جشن لازم و ملزوم بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گرفتاری پر مخالفیں میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ جس طرح پانامہ ایک بہانہ ثابت ہو چکا ہے‘ اس طرح توشہ خانہ بھی محض شوشہ بن کر رہ جائے گا۔ اصل مقصد تو کوئے اقتدار سے نکالنا اور دور کرنا ہوتا ہے۔ عذر بھلے پانامہ بنے یا توشہ خانہ۔
گزشتہ رات ایک محفل میں کسی دل جلے نے نرالی ہی بات کہہ ڈالی کہ عمران خان کی گرفتاری پانچ اگست کو اس لیے ہوئی ہے کہ انہوں نے پانچ اگست 2019ء کو کشمیریوں کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کی بھارتی واردات پر خاموشی میں عافیت اور مصلحت سمجھی تھی۔ اس منطق پر اختلاف کے جواب میں موصوف نے مجھے میرا ہی کالم ''امریکہ سے بڑی خبر‘‘ یاد دلا ڈالا۔ جولائی 2019 ء کے آخری عشرے میں عمران خان بطور وزیراعظم امریکی دورے پر تھے کہ اچانک بڑی خبر بریک کی گئی کہ ''ٹرمپ نے کشمیرپر ثالثی کی پیشکش کی ہے‘‘۔ جس پر انصاف سرکار میں جشن کا سماں اور اس امریکی دورے کو خارجی محاذ پر بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا جا رہا تھا۔ میڈیا پر اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے علاوہ کالمز اور ٹاک شوز بھی زوروں پر تھے۔ میں نے اُس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش ہرگز بڑی خبر نہیں ''عمران خان کے دورۂ امریکہ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ آنے ولا وقت ہی کرے گا کہ عمران خان ملک و قوم کے لیے کیا لے کر آتے ہیں اور اس کے بدلے میں کیا دے کر آتے ہیں وہی بڑی خبر ہوگی‘‘۔
عمران خان کی وطن واپسی کے چند دن بعد ہی پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370 سے منحرف ہو کر کشمیریوں کو واپس 1947ء کی پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ ثالثی کی پیشکش کا چورن اور سبھی خوشیاں چند دن کی مہمان اور خوش فہمیاں ہی ثابت ہوئیں۔ محفل میں موجود دل جلے کا اصرار تھا کہ عمران خان کو کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموشی کی سزا پانچ اگست کو گرفتاری کی صورت میں ہی ملی ہے۔ عمران خان نے مصلحت اختیار کی یا خاموشی یہ ایک الگ بحث ہے۔ میں نے اس وقت بھی یہی باور کروایا تھا کہ ''خدارا ہوش کے ناخن لیں‘‘ اور امریکی رومانس کا نشہ اپنے حواس پر سوار نہ کریں۔ وزیراعظم کے دورئہ امریکہ پر شادیانے ضرور بجائیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی پس منظر اور فلسطین پر امریکی ثالثی بھی یاد رکھیں۔ ثالثی کی پیشکش دراصل وہ پیشگی اطلاع ثابت ہوئی جو چند دن بعد بھارت آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی صورت میں کرنے جا رہا تھا۔ خدا جانے اس وقت عمران خان کس کیفیت میں تھے۔ ٹرمپ نے کیا کہا اور وہ کیا سمجھے۔
خیر! عمران خان کی گرفتاری کی تاریخ کو پانچ اگست 2019ء سے منسوب کرنے میں کوئی منطق نظر نہیں آتی لیکن دل جلوں کا کیا کریں‘ ان کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ جس طرح عمران خان نے ٹرمپ کی پیشگی اطلاع کو بڑی خبر بنا ڈالا اس طرح دل جلے بھی پانچ اگست کو عمران خان کی گرفتاری کشمیریوں کی دل آزاری سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ پاکستان کا زبانی جمع خرچ کے سوا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ہی کوئی چارہ۔
سیاسی دیگ کے مزید مصالحوں کی طرف چلتے ہیں۔ اقتدار کے اختتامی دنوں میں فیڈرل پروموشن بورڈ میں ایسا مصالحہ لگایا گیا ہے کہ جنہیں ترقی سے محروم کرنا مقصود تھا انہیں تیکھا مصالحہ لگا کر آؤٹ کر دیا گیا ہے جبکہ کرپشن کے سنگین الزامات کی پنڈ اٹھائے چارٹرڈ طیارے میں ملک سے فرار ہونے والے واپس لوٹ کر نہ صرف دودھ کے دھلے بن کر موجیں مارتے پھرتے ہیں بلکہ حالیہ بورڈ میں ترقی بھی پا گئے ہیں۔ کئی ماہ سے بوجوہ خالی فیڈل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی سیٹ پر عجلت میں غیر مستقل اور عارضی چیئرمین لگانے کا عقدہ بھی کھل چکا ہے کہ جاتے جاتے اپنے قریبی سرکاری بابوؤں کی ترقی ہی کر جائیں۔ یہ بدعت ہر دور میں اسی طرح دوام پکڑتی چلی آرہی ہے کہ چہیتے اور منظورِ نظر سرکاری بابوؤں کی ترقیوں اور تقرریوں کے لیے سبھی راستے کھلے ہیں جبکہ حریف حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسران زیرعتاب رہتے ہیں۔ حالیہ پروموشن بورڈ میں بھی اس روایت کو دوام بخشا گیا ہے۔
اُدھر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے سیاسی دیگ کے سبھی پکوان مزید تیکھے کر ڈالے ہیں۔ تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو جمہوریت کی پٹری سے اتارنے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے دوٹوک کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پنجاب میں انتخابات کی تاریخ ازخود بڑھانے کا مجاز نہیں ہے اور الیکشن کروانے سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہی اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تختِ پنجاب پر براجمان نگران سرکار کے آئینی اور قانونی جواز پر پہلے سے موجود سوالات مزید کڑے ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں انتظامی بالخصوص مالی امور کے حوالے سے فیصلے اور اقدامات پر قانونی پیچیدگیاں کب رنگ لاتی ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
انتخابات کی آڑ میں ہزاروں انتظامی تبادلے اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نے گورننس اور میرٹ کے معانی تو پہلے ہی الٹا ڈالے ہیں۔ انتخابات کروانے کی نیت اور ارادے سے عاری نگران سرکار ان تبادلوں اور ان پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات کے معقول جواز سے بھی محروم ہے۔ تاہم شہریوں سے پیسے لینے والے کانسٹیبل کی گرفتاری یقینا عوام دوستی کا نمونہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کرپشن کے خاتمے کا سفر اوپر سے نیچے کی طرف جاتا۔ پیسے لینے والے چھوٹے ملازمین اور نسلیں سنوارنے کیلئے لوٹ مار اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے سرچڑھے بابوؤں میں کچھ فرق تو ہونا چاہیے۔