کرۂ ارض پر کس کی مجال کہ وہ میرے پیارے نبیﷺ اور ان کے پھیلائے ہوئے دین کی توہین کا تصور بھی کرے۔ توہین کے نام پر بھیانک ترین تشخص اُجاگر کرنے والوں پر اگر دینِ اسلام کی تعلیمات کا ذرا سا بھی اثر ہوتا تو یہ آئے روز دنیا بھر میں ہمارا تماشا بنائے نہ پھرتے۔ اصل توہین تو ان تعلیمات سے غفلت اور مسلسل فرار ہے۔ ناپ تول میں کھلے عام ڈنڈی مارنے سے لے کر دودھ جیسے نور سمیت دیگر اشیائے خورونوش اور جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ تک‘ لین دین اور دیگر معاملات میں جھوٹ‘ دھوکا اور فریب کو کاروباری گُر قرار دینے سے لے کر امانت میں خیانت کرنے تک‘ مردار اور نجس گوشت کو حلال بتا کر فروخت کرنے سے لے کر بہن بھائیوں‘ رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق غصب کرنے تک‘ کھچا کھچ بھری عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی وجوہات اور نوعیت کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ لالچ اور کمینگی نے خونی رشتوں کی تمیز بھلانے کے ساتھ ساتھ انہیں اس قدر سفاک بنا ڈالا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے بڑے بڑے گناہوں کا بوجھ اٹھائے شاداں اور نازاں پھر رہے ہیں۔ یہ سبھی اعمال اور کھلی توہین اور نافرمانی نہیں تو اور کیا ہے؟
سورۃ الانعام کی آیت نمبر 108کا واضح مفہوم کچھ یوں ہے کہ: ''تم ان کے جھوٹے خداؤں کو برا بھلا مت کہو تاکہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا نہ کہیں‘‘۔ اسی طرح سورۃ الکافرون کی آیت نمبر 6 میں ارشادِ ربانی ہے کہ: ''تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے‘‘۔ اسی طرح دو قومی نظریے کی بنیادی پر ملنے والی آزادی کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ مذہب کو بنیاد بنا کر دھرتی پہ اُدھم مچایا جائے۔ مملکتِ خداداد میں اقلیتوں کے حقوق اور آزادانہ مذہبی عقائد و رسومات کی ادائیگی بانیٔ پاکستان کی اوّلین ترجیحات میں شامل تھا۔ جو قوم مذہبی تعلیمات سے بہرہ مند نہ ہو سکی وہ قائد کے فرمودات کو کہاں خاطر میں لاتی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں ایسے المناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جو دنیا بھر میں وطنِ عزیز کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔
اسلامی تصورات اور تعلیمات کا وہ چہرہ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جو قطعی غیر حقیقی اور غیر اسلامی ہے۔ شہر اقبال میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک نہتے سری لنکن شہری کی موت کے بعد ایسے واقعات کا سلسلہ رک جانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ سانحہ سیالکوٹ کے اسباب اور حالات آج بھی حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ اسلام تو حق و باطل کے معرکہ میں انسانی حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ عورتوں اور بچوں‘ مال مویشیوں حتیٰ کہ فصلوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لشکر روانہ کرنے سے پہلے چند نصیحتیں ضرور فرماتے: (1) خیانت نہ کرنا (2)بد عہدی نہ کرنا (3)کسی کو دھوکا نہ دینا (4)مقتولوں کا مصلہ نہ کرنا یعنی ان کے ناک‘ ہاتھ پاؤں و دیگر اعضا نہ کاٹنا (5) پھل دار درخت نہ کاٹنا (6)کسی بکری‘ گائے اور اونٹ کو صرف کھانے کے لیے ذبح کرنا (7) تم ایسے لوگوں کے پاس سے بھی گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو اپنی عبادتگاہوں کے لیے وقف کر رکھا ہے انہیں کچھ نہ کہنا‘ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دینا۔
رحمت للعالمینﷺ پر روز کوڑا پھینکنے والی عورت نے جب چند روز کوڑا نہ پھینکا تو سرکارِ دو عالم ﷺ خود خیریت دریافت کرنے تشریف لے گئے۔ طائف کے بازاروں میں پتھر برسا کر لہولہان کرنے والے ہوں یا عزیز ترین چچا حضرتِ حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی عورت‘ انتقام تو درکنار کسی کے لیے بد دُعا تک نہیں فرمائی۔ فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر کے ایسے ایسے عظیم الشان مناظر دیکھنے میں آئے کہ انسانی تاریخ میں ایسی عام معافی کی مثال نہیں ملتی۔ خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل کا پیغام دیتے ہوئے آپﷺ نے تو پورا ضابطۂ حیات مرتب فرمایا تھا اور تقلید کے لیے تو اسوۂ حسنہ ہی کافی ہے۔ اس کے برعکس جو بھی ہو‘ طرزِ عمل ہو یا طرزِ فکر‘ سبھی تعلیماتِ شرعیہ سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ اس تناظر میں انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ نبیﷺ کو ماننے والے نبیﷺ کی تعلیمات سے اتنا دور کیوں ہیں۔
ابھی چند روز پہلے ہی نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے ملکی سمت درست کر ڈالنے کی خوشخبری دی تھی‘ اس پر بھی خاکسار نے بذریعہ کالم استفسار کیا تھا کہ حضور قوم کو کم از کم درست ہونے والی سمت کا رُخ ہی بتا دیں۔ ماضی میں طرزِ حکمرانی کے مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ لگانے والی دوائی کھا رہے ہیں اور کھانے والی دوا مسلسل لگائے چلے جا رہے ہیں۔ قوم کی سمت درست کرنی ہے تو دھندلائے ہوئے تصورات اور نظریات پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑنا ہوگا۔
درگاہوں و مزارات پر نذرانے اور دیگیں چڑھانے کے لیے ایپ تو تیار کر لی لیکن نسل در نسل شدت پسندی میں جکڑے ہوئے ذہنوں کے لیے ایپ نہ سہی وہ زمین ہی فراہم کر دیں جس سے ماضی کے سبھی حکمران بوجوہ گریزاں رہے ہیں۔ نگران حکومت تو سیاسی اور دیگر مجبوریوں میں ہرگز جکڑی ہوئی نہیں ہے۔ ماضی کے سبھی ادوار تو مصلحتوں اور مجبوریوں کے آگے اس قدر مجبور رہے ہیں کہ یہ سب عوامل عمومی رویہ بنتے چلے گئے اور یہ رویہ اب ہمارا وہ بھیانک چہرہ بنتا چلا جا رہا ہے جو اقوامِ عالم میں شرمندگی اور رسوائی سمیت نجانے کس کس کا استعارہ ہے۔ ملکی سمت درست کرنے کی خبر تو آپ قوم کو دے ہی چکے ہیں‘ اگر ہو سکے تو کچھ سبیل بھی کر ڈالیں۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ اور بڑا بھائی ہے‘ اگر بڑے بھائی کی سمت درست ہو گئی تو سمجھیں آدھے سے زیادہ ملک کی سمت درست ہو جائے گی۔ فکری رجحانات کی سمت اگر درست ہو گئی تو ایک نارمل اور متوازن معاشرہ بن سکتا ہے۔
حالاتِ پریشان اور ملک میں مچے اُدھم نے دھرتی کو ماتمی بنا ڈالا ہے۔ کونے کونے سے آہ و بکا اور بین کرتی آوازیں اعصاب اور سماعتوں کے لیے عذابِ مسلسل بن چکی ہیں۔ ملک کے طول و عرض کے مناظر ہوں یا آنے والی خبریں‘ سبھی ملامتی اور ماتم کا باعث ہیں۔ اعصاب شل اور ذہن ماؤف ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شرمندگی اور احساسِ ندامت کے سائے اس قدر طویل ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ پوری قوم بونا محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے میں گھبرا کر ٹیلی ویژن پر جنگلی حیات کے چینل میں پناہ ڈھونڈتا ہوں کہ جنگل کا کوئی قانون تو ہوتا ہے۔یہاں مجھے زہرا نگاہ کی نظم کے کچھ اشعار یاد آ رہے ہیں۔
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!