مملکتِ خدا داد ایک اور سنگِ میل عبور کرکے نیا موڑ مڑ چکی ہے‘ تاہم منزل کا کچھ اَتا پتا معلوم نہیں۔ سول اعزازات کی بندر بانٹکی روایت کو دوام بخشنے کے بعد حکمران اتحادی واپس لوٹ کر آنے کی حسرت دلوں میں لیے امورِ مملکت نگرانوں کو سونپ کر اپنے اپنے ٹھکانوں پر آچکے ہیں۔ شفاف انتخابات سے مشروط نگران سیٹ اَپ صوبائی ہو یا وفاقی‘ تاحال انتخابات سے ہی لاعلم ہے۔ وفاقی نگرانوں نے تو حلف اٹھاتے ہی کہہ ڈالا تھا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ۔
خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ پر تو الیکشن کمیشن نے برملا تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ ہی تبدیل کروا ڈالی لیکن پنجاب کے نگرانوں کے بارے میں الیکشن کمیشن بھی خاموش ہے اور شاید کچھ نہ کہنے کو ہی بہتر سمجھتا ہے۔ آئینی مدت پوری ہونے کے باوجود سرکار بھی جاری ہے اور الیکشن کمیشن اپنی ہی دی ہوئی تاریخ پر انتخابات بھی نہیں کروا سکا‘ تاہم شوقِ حکمرانی کہیں برابر تو کہیں اضافی طور پر پورے کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں راج نیتی کے حسن کے لشکارے سے باقی سب کچھ گہناچکا ہے۔ زبان زدِ عام ہے کہکئی معاملات میں مسلم لیگ(ن) جاتے جاتے نگران سیٹ اَپ میں کچھ اس طرح نقب لگا گئی ہے کہ اہم ترین محکموں کے قلمدان انہی کے پیاروں اور راج دلاروں کے پاس ہیں۔ ادھر ملک کی باگ ڈور نگرانوں کے ہاتھ میں آئی اور اُدھر الیکشن کمیشن نے آئینی مدت میں انتخابات کروانے سے معذوری ظاہر کر دی۔ یہ عذر‘ معذرتیں اور معذوریاں خدا جانے ملک کو مزید کیسے کیسے حالات سے دوچار کرنے والی ہیں۔
اُدھر اگلے روز نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر 47ویں سماعت کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اگر نیب ترامیم کیس پر فیصلہ نہ دے سکا تو یہ میرے لیے باعثِ شرمندگی ہو گا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت کے آغاز میں ہی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز پیش کر دی۔ اس تناظر میں نواز شریف کی وطن واپسی تو رہی ایک طرف‘ نیب ترامیم سے مستفید ہونے والوں کی اقتدار میں واپسی بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔ خدا کرے کہ چیف جسٹس صاحب جاتے جاتے تاریخ رقم کر جائیں تا کہ احتساب کے اُلٹائے ہوئے معانی سیدھے ہو جائیں۔ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے بھاگا پھر رہا ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے تدبیریں اور جگاڑ لگا رہا ہے۔ معاملات چلانے والوں کو دیکھ کر بجا طور پہ کہا جا سکتا ہیکہ عہدے ناموں کے ساتھ ہی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ کیسے کیسے مرتبے اور منصب پر کون کون آن بیٹھا ہے‘ کس کس کا نام لیجئے‘ کس کس کا رونا روئیے۔ جو اقتدار سے باہر بیٹھ کر سسٹم میں نقب لگانے کا ہنر جانتے تھے وہ اقتدار میں آکر سسٹم کا کیا حشرنشر کریں گے‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں‘ سب کو سبھی اور بخوبی جانتے ہیں۔
ان حالاتِ پریشاں میں مقامِ شکر ہے کہ مملکتِ خداداد میں کوئی سیاسی جماعت اور کوئی سیاستدان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر اسے موقع ملا ہوتا تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتا‘ آسمان سے تارے توڑ لاتا‘ فلاں توپ چلاتا وغیرہ وغیرہ۔ عوام سبھی کو آزما اور بھگت چکے ہیں۔ اکثر تو بار بار آزمائے جانے کے باوجود خرابی اور مسائل کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھہراتے ذرا نہیں شرماتے۔ چار بار وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹنے والے بھی ماضی کے ادوار پر کس ڈھٹائی سے تنقید کرتے اور آئندہ موقع ملنے کی صورت میں بڑے بڑے وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان آتے جاتے حکمرانوں میں ایک خوبی مشترک ہے کہ یہ وسائل کی بندر بانٹ اور قومی خزانے کی بربادی میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود اپنی دیانت کی قسمیں کھاتے پھرتے ہیں جبکہ صادق اور امین ہونے کے یہ سبھی دعویدار صادق کی ''ص‘‘ اور امین کی ''الف‘‘ سے بھی واقف نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن بارہا انتظامی تبادلوں پر پابندی کا ہدایت نامہ جاری کرچکا ہے لیکن ہدایت کار کب‘ کہاں‘ کسی کی ہدایت مانتے ہیں۔ تبادلے برابر جاری ہیں اور حالیہ تبادلوں میں موافق اور من پسند افسران کو ترقی کے باوجود مخصوص عہدوں پر کام جاری رکھنے کی ہدایات اور بیشتر کو ادھر اُدھر کر دیا گیا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں انتخابات کے تناظر میں غیرموافق افسران کوہٹانے کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے جبکہ موافق سرکاری بابوؤں کو اہم سیٹوں پر فٹ کرانے کی تدبیریں اور جواز بھی برابر گھڑے جا رہے ہیں۔ بڑے عہدوں پر چھوٹے گریڈ کے افسران کی تقرری پر عدالتی تحفظات اور احکامات کا حل یہ نکالا کہ وہ سبھی عہدے ڈاؤن گریڈ کر ڈالے جن پرجونیئر اور نچلے گریڈ کے افسران تعینات ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کے بیشتر اہم ترین انتظامی عہدے بندہ پروری اور بندر بانٹ کے استعارے بن چکے ہیں۔ اس تھیوری نے پورا صوبہ ہی ڈاؤن گریڈ کر ڈالا‘ سبھی نے مل کر صادق اور امین کے معانی اُلٹانے کے علاوہ گورننس کو شرمسار اور میرٹ بھی تار تار کر ڈالا ہے۔
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں‘ اسی طرح فیصلے اور اقدامات حکمرانوں کی نیت اور ارادوں کا بھید بھاؤ بھی آشکار کر دیتے ہیں۔ شہری سے ہزار‘ دو ہزار روپے لینے والے کانسٹیبل کو حوالات میں ڈالنے کے لیے صوبائی حکومت تھانے پر چڑھ دوڑی لیکن انسدادِ رشوت ستانی و بدعنوانی میں جو من مانی کا راج قائم ہے‘ اس نے محکمے کے نام کے معانی اُلٹانے کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جن کے جوابات تقرریاں اور تبادلے کرنے والے ہنرمندوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ چینی کمپنی سے مبینہ طور پر کروڑہا روپے کا بھتہ لینے کی دیدہ دلیری کا الزام پاک چین دوستی کا کون سا روپ ہے جبکہ اکثر کیسوں میں چوری اور سینہ زوری والے معاملات کی بازگشت بھی کان پھاڑے ہوئے ہے۔سرکاری افسران پر چارج شیٹ کے بغیر مقدمات کا اندراج اور مالی تعاون کے باوجود گرفتاریاں اور ہراساں کرنے کی داستانیں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر سے پرانا حساب چکتا کرنے کے لیے بابوؤں کی مخصوص لابی کی فرمائش پر جو 22 پرچے دیے گئے تھے‘ ان کا پرچہ بھی آؤٹ ہو چکا ہے۔ ان ماتحت افسران پر مقدمات درج کرنے کا مقصد محض انہیں بَلی کا بکرا بنا کر اس اعلیٰ افسر تک پہنچنا ہے جس کی رسوائی اور پسپائی مخصوص لابی کی اَنا کو تسکین پہنچا سکتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ سنگین اور رنگین الزامات کی پَنڈ سر پہ اٹھائے بیشتر سرکاری بابوؤں کا مطلوبہ معیار پر پورا اترنا کسی چمتکار اور اَچنبھے سے ہرگز کم نہیں ہے۔ طویل عرصہ چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی سیٹ بوجوہ خالی رکھنے کے بعد عارضی چیئرمین کی تعیناتی کا مقصد مبینہ طور پر صرف اُن بابوؤں کو پار لگانا تھا جن کی ناؤ ترقی کا اگلا گریڈ عبور کرنے کے قابل نہیں تھی۔ کرپشن کے بھنور میں پھنسی اور ہچکولے کھاتی کئی کشتیوں کو پار لگانے کا سہرا بھی مبینہ طور پر انہی صاحب کے سر ہے جبکہ شنید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں سرکاری امور انجام دینے والے بابوؤں کی ناؤ گہرے پانی میں ڈبونے کا منصوبہ بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔ پولیس سروس کے اعلیٰ افسران کے سیلابی ریلے میں بہتا ہوا ایک ایسا افسر سندھ میں آئی جی لگ چکا ہے جس پر عقل حیران ہے کہ ضرورتمندوں کے اس عہد میں راجہ رفعت کے نام کا قرعہ کس نے نکال ڈالا‘ جو نہ کسی سیاستدان کی آنکھ کا نور ہے اور نہ ہی کسی بزنس ٹائیکون کے دل کا سرور۔ قطعی پروفیشنل افسر اور سندھ میں؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!