زندگی ایک بار اور اقتدار بار بار! عجیب گورکھ دھندا ہے۔ قدرت زندگی کا موقع ایک بار دیتی ہے لیکن اقتدار کو کئی بار زندگی مل جاتی ہے۔ جس نے ایک بار اقتدار کا مزہ چکھ لیا‘ اسے ایسی لَت لگتی ہے کہ وہ اس لَت کو پورا کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اقتدار کے دلدادہ افراد عزتِ نفس سے لے کر غیرتِ قومی کے علاوہ نجانے کیا کیا داؤ پہ لگا کر اقتدار میں آنے اور اسے بچانے کی دُھن میں آئین سے لے کر قانون اور ضابطوں سمیت اخلاقی و سماجی اقدار تک سبھی کچھ تار تار کرتے چلے آئے ہیں۔ اقتدار کو مقصدِ حیات بنائے بیٹھے ان آتے جاتے سیاستدانوں نے ملک کو اس مقام پر لا پہنچایا ہے کہ جزا اور سزا سمیت مکافاتِ عمل کے تصورات دھندلاتے اور معانی بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اُدھم مچا ہوا ہے کہ زمین بھی پناہ مانگتی پھر رہی ہے کہ مجھے اپنے سینے پر اور کس کس کو برداشت کرنا ہے۔ سبھی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے‘ ایسے بھاگے پھر رہے ہیں جیسے کوئی بھونچال آنے کو ہے۔
اُف خدایا! آفرین ہے ان کی ترجیحات پر‘ زمین پر ٹوٹنے والی قیامتوں پر اس طرح خاموش ہیں گویا ان کی زبانوں پر قفل پڑ چکے ہوں۔ جانتے بوجھتے اور سبھی کچھ دیکھنے کے باوجود اس طرح اندھے بنے ہوئے ہیں جیسے انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کسی کو سیاست کی پڑی ہوئی ہے تو کسی کو ریاست کی‘ اس پر ستم یہ کہ قانون بھی سچی مچی کا اندھا بنا پھر رہا ہے۔ سیاستدان جس رعایا پر شوقِ حکمرانی پورا کرتے ہیں انہیں اسی کی فلک شگاف چیخیں‘ آہیں اور سسکیاں سنائی ہی نہیں دیتیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے مظلوم کی پکار پر کان دھرنے کے بجائے ظالموں کے سہولت کار اور مددگار بن جائیں تو چشمِ فلک بھی حیران اور پریشان ہونے کے بجائے ایسے بھیانک مناظر کی عادی ہوتی چلی جاتی ہے۔ شاید اسی لیے نہ کہیں زمین پھٹتی ہے‘ نہ آسمان گرتا ہے۔ اس گرے ہوئے سماج میں دور دور تک کہیں شرم کا شائبہ ہے نہ غیرت کا۔ ایسا ظلم‘ ایسی بربریت اور ایسی درندگی کہ زمانۂ جاہلیت شرما جائے۔ قبل از اسلام بچیوں کو زندہ دفنانے والے سفاک بھی ایسی ذلیل اور مکروہ حرکت کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ رانی پور میں ایک ڈھونگی پیر نے دس سالہ فاطمہ کو جس درندگی کا نشانہ بنایا اس پر کچھ اظہارِ خیال کرنا بھی چاہوں تو الفاظ کا قحط دکھائی دیتا ہے۔ مملکتِ خداداد کے کونے کونے میں ایسے ڈھونگی پیر اور عامل صبح و شام نجانے کیسے کیسے مکروہ اعمال اور درندگی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قلم سے نکلنے والی سیاہی خون بن کر کاغذ پر بکھر رہی ہے۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی زار و قطار روتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ اعصاب شل اور دماغ ماؤف ہے کہ اس دس سالہ مظلوم بچی پر ٹوٹنے والی قیامت کو قلمبند کیسے کروں۔ بے دردی سے ناحق مارے جانے والوں کی روحیں آسمانوں پر بھٹکتی اور بارگاہِ الٰہی میں ہی فریاد کرتی ہیں کہ اے باری تعالیٰ بے شک تو بہتر انصاف کرنے والا ہے لیکن تیری خدائی میں زمین پر خدا بنے بیٹھے لوگ مجھے انصاف دینے سے قاصر اور گریزاں ہیں۔
تعجب ہے کہ یہ ڈھونگی پیر اور عامل ہمارے ملک میں ہی عام کیوں ہیں‘ دیگر ممالک میں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ کرامات اور معجزے تو نبیوں‘ ولیوں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں سے منسوب ہیں۔ خدا جانے ضعیف عقیدے‘ توہم پرستی اور شرک کے اردگرد گھومنے والے نجانے کب تک ان ڈھونگی پیروں کا نشانہ بنتے رہیں گے جو دینی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔ عوام جب تک ایسے ڈھونگی پیروں کے پاس حاجت روائی کے لیے جاتے رہے ہیں گے تب تک یہ درندگی اور بھیانک کھیل جاری ہے گا۔ کوئی اولاد کے چکر میں عزتیں گنوا رہا ہے تو کوئی شریکے کو نیچا دکھانے کے لیے‘ ضرورت اور غرض کے مارے کوئی اقتدار کے لیے تو کوئی من چاہے عہدے کے لیے۔ عوام تو عوام اشرافیہ بھی حاجت روائی کے لیے نجانے کہاں کہاں اور کس کس کے در پہ جا کر حاضری دیتی ہے۔ جس معاشرے میں سیاسی و انتظامی اشرافیہ ایسے ڈھونگی پیروں کو مانتی اور ان کے در پر حاضری دیتی ہو وہاں ایسے پیروں کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟ عقل کے اندھے عقیدت مندوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہو تو قانون نافذ کرنے والے اندھا بننے کی ایکٹنگ کیوں نہ کریں؟ اندھوں کا یہ گٹھ جوڑ معاشرے میں جو تباہی اور بربادی پھیلا رہا ہے‘ اس پر لکھنے بیٹھوں تو ایسے درجنوں کالم بھی کم پڑ جائیں۔
قراردادیں‘ قانون سازیاں‘ فیصلے‘ اقدامات اور اصلاحات‘ کس کے لیے؟ یہ مقدمے‘ گرفتاریاں‘ ریمانڈ‘ پیشیاں کس کے لیے‘ ان سبھی کا تو عوام اور ان پر ٹوٹنے والے عذابوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سبھی بھاگ دوڑ اور جھمیلے تو صرف راج نیتی اور اس سے جڑے نیتاؤں کے مفادات اور تحفظ کے لیے ہیں۔ بے کس اور لاچار عوام تو کل بھی غیر محفوظ تھے اور آج بھی غیر محفوظ ہیں۔ ان کے لیے نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی قانون بنانے والوں کو توفیق ہوتی ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی پاسداری کر لیں۔ جہاں آئین گم سم‘ قانون اور ضابطے سرنگوں ہوں‘ وہاں بسنے والی رعایا کیونکر سر اٹھا کر جی سکتی ہے۔ رُعب و دبدبہ‘ عزتیں اور اونچے شملے لیے پھرنے والے عوام کی تذلیل اور بربادی کے مناظر خوب انجوائے کرتے ہیں۔
بہاولپور یونیورسٹی کے سکینڈل پر بے حسی کی خاموشی اختیار کیے ہنرمندانِ ریاست و سیاست کو خبر ہو کہ اس مکروہ دھندے کو چلانے والے صرف ایک یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں‘ ملک کے طول و عرض پر بھیانک اور مکروہ کھیل کب سے جاری ہے۔ کسی ادارے کی نشاندہی یا نام لینا ضروری اس لیے نہیں کہ سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ کس کے ہاتھ کہاں رنگے ہوئے ہیں اور کون اس گھناؤنے کام میں شریک اور ملوث ہے۔ خدارا! قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو ورغلانے اور بلیک میل کرنے والے نیٹ ورک کے پیچھے چھپے پردہ نشینوں کو بے نقاب نہ کیا تو یہ آگ بجھائے نہ بجھے گی۔ حکومتی ایوانوں میں چھائی بے حسی کی خاموشی چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ یہ خاموشیاں بھی بوجوہ ہیں اور زبانوں پر تالے بھی یونہی نہیں پڑے۔ تعلیمی اداروں میں ایسے شرمناک واقعات کے تانے بانے ان پردہ نشینوں تک جا پہنچتے ہیں جو بے پردہ ہو کر بھی پسِ پردہ ہیں۔ کسی کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے یہی سوچ کر ڈال دینے چاہئیں کہ کہیں اس کے شعلے میرے گھر نہ آن گریں اور اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو کس کو معلوم یہ آگ کہاں تک پہنچے؟
ہنرمندانِ ریاست اور سیاست کو یہ خبر بھی ہونی چاہیے کہ جس معاشرے میں اخلاقی و سماجی قدریں آئے روز پامال ہوتی ہوں‘ حوا کی بیٹی قبر میں غیر محفوظ اور زندہ مخلوق کی جان و عزت کی قیمت ارزاں ہو‘ دو وقت کی روٹی مصلحتوں کو مجبوری بنا دے‘ آمدن ضروریاتِ زندگی کے آگے حقیر اور بے معانی ہو کر رہ جائے‘ دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی طرزِ زندگی بن جائے‘ قانون اور ضابطے ظالم کے آگے بے بس اور سرنگوں ہوں‘ جہاں دس سالہ فاطمہ ایک ظالم شخص کی درندگی کی بھینٹ چڑھ جائے وہاں کون سی ریاست اور کہاں کی سیاست؟؟