خدا جانے کوئی آفت ہے یا آسیب‘ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر لمحۂ موجود تک برسرِ اقتدار آنے والوں کا ایک ہی عذرِ مشترک رہا ہے کہ ''حالات ان کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ خراب ہیں‘‘۔ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بھی بالآخر یہ الفاظ دُہرا ڈالے کہ معاشی حالات اندازوں سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ حالات بھلے خراب نکلتے رہیں لیکن حکمرانوں کے ارمان تو برابر اور خوب نکلتے رہتے ہیں۔ یوں جتلاتے ہیں جیسے انہوں نے منصب کا حلف اٹھا کر قوم پر کوئی احسانِ عظیم کر ڈالا ہو۔ عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ملک میں افراتفری کا سماں بنائے رکھا۔ صبح شام شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی کی مبینہ لوٹ مار کے دستاویزی پلندے اور وائٹ پیپر دکھایا کرتے تھے۔ 126دن کے طویل ترین دھرنے میں سول نافرمانی کی کال دینے سے لے کر خون گرمانے تک وہ دھما چوکڑی مچائے رکھی کہ عوام کی مت ہی مار ڈالی۔ خان صاحب عوام کو صبح شام ایک ہی ریکارڈ سنایا کرتے تھے کہ تحریک انصاف ہی واحد جماعت ہے جو ملک کو درست سمت میں ڈال سکتی ہے۔ یہ خوشخبری بھی قوم کو برابر دی جاتی تھی کہ ماہرین کی ایسی ٹیم مصروفِ عمل ہے جو برسرِ اقتدار آتے ہی ملک کی کایا پلٹ دے گی۔
2018ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے بھی وہی رَٹا رَٹایا عذر اختیار کیا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ معاشی حالت اس قدر نازک اور دیگر معاملات بھی بگڑے ہوئے ہیں۔ خدا جانے پی ٹی آئی کی ٹیم اقتدار میں آنے سے پہلے کس تیاری میں مصروف تھی لیکن اس تیاری کا عقدہ بھی اس طرح کھلا کہ جیسے توڑی کی پَنڈ بیچ چوراہے کھل گئی ہو۔ معاشی اصلاحات سمیت گورننس اور میرٹ کے سبھی دعوے خان صاحب کی ٹیم کے قد سے کہیں بڑے نکلے۔ بالخصوص وزیرخزانہ تو خزانے کی ''خ‘‘ سے بھی واقف نہ نکلے اور وزارت سے نکال دیے گئے۔ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کے بعد پی ڈی ایم برسرِ اقتدار آئی تو انہوں نے بھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہراتے ہوئے عین وہی عذر اختیار کیا کہ حالات اندازوں سے کہیں زیادہ خراب نکلے۔
معاشی سقراط اسحاق ڈار کو سنگین ترین الزامات کا سامنا ہونے کے باوجود بڑے چاؤ سے سرکاری طیارے پر پاکستان لا کر مملکتِ خداداد کے اقتصادی اور معاشی امور انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کیے گئے۔ انہوں نے ماضی کے سبھی ادوار کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سارے ریکاڈز دنوں میں ایسے توڑنا شروع کیے کہ سبھی کچھ اس طرح ٹوٹتا ہی چلا گیا کہ عوام کی قوتِ خرید سے لے کر گورننس اور میرٹ بھی چکنا چور ہوگئے۔ پی ڈی ایم نے اپنے سوا سالہ دورِ اقتدار میں مکافاتِ عمل اور جزا و سزا سے لے کر صادق اور امین کے ایسے ایسے روپ بہروپ دِکھائے کہ خدا کی پناہ! اگر کرنی کا پھل عوام کا اور خواص کا اور ہے تو کیسی کرنی اور کیسا پھل؟ جب بھی اعمال کی کھیتی کاٹنے کا وقت آتا ہے یہ سبھی نئی فصل لگا جاتے ہیں۔ اُنہوں نے تو اپنے کرموں کی آج تک کھیتی تو درکنار کبھی خوشہ تک نہیں کاٹا۔ البتہ ان کی لگائی جنگلی بیلوں اور کانٹے دار جھاڑیوں کو کاٹتے کاٹتے عوام ہلکان اور ان کے ہاتھ لہولہان ہو چکے ہیں۔
ان شوقِ حکمرانی کے ماروں سے کوئی تو پوچھے کہ تمہیں کس نے حلف اٹھانے پر مجبور کیا تھا؟ کس کا دباؤ تھا کہ تم نے بھاگ کر قلمدان سنبھال لیا؟ اور اب ایسی کیا مجبوری ہے کہ حالات خراب اور نازک ہونے کے باوجود بھی اقتدار سے چمٹے ہوئے ہو۔ جب تمہارے بس میں ہی کچھ نہیں ہے‘ تم کچھ سدھار بھی نہیں سکتے‘ تمہاری اہلیت اور قابلیت درپیش چیلنجز کے سامنے بے بس ہے تو خطیر سرکاری وسائل پر تام جھام‘ موج مستی‘ آنیاں جانیاں اور اللے تللے کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی عین منطقی ہے کہ جب وہ کام ہی نہ کر سکے جس کی انجام دہی سے یہ سبھی حکمرانیاں اور فراوانیاں مشروط تھیں تو قلمدان کی سیاہی سے کون سے کیڑے مکوڑے بنا رہے ہو؟ جب تم کچھ لکھ نہیں سکتے‘ تمہارے تحریری و زبانی احکامات کی سسٹم اور مافیاز کے سامنے کوئی حیثیت اور وقعت ہی نہیں ہے تو پھر اس قلم کی حرمت کو مزید بے توقیر کیوں کیے چلے جا رہے ہو؟
باریاں لگا کر اقتدار کے مزے لینے والے بھی خرابی اور بگاڑ کا ذمہ دار سابق ادوار کو ٹھہراتے نہ شرماتے ہیں‘ نہ ہچکچاتے ہیں۔ حالاتِ بد کے ذمہ دار ہونے کے باوجود حالات کا رونا روتے یہ سیاسی رہنما بخدا کسی اداکار سے کم نہیں۔ ان کے بھاشنوں پر پہلے پہل تو ہنسی آجایا کرتی تھی اب تو بے اختیار منہ سے وہ بھی نکل جاتا ہے جسے احاطۂ تحریر میں لانا بھی ممکن نہیں ہے۔ بھاگم بھاگ حلف اٹھانے والے نگرانوں نے بھی کہیں گھڑے گھڑائے تو کہیں نت نئے جواز اور عذر اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں۔ سرکاری گاڑیوں میں اترائے پھرنے والوں کے قلمدان سے ابھی تک تو کوئی ایسا حکم جاری نہیں ہوا جسے کہا جا سکے کہ یہ غیر روایتی اور ماضی کے حکمرانوں کے کرتوتوں کا مداوا اور ازالہ ہے۔ انتظامی اور سیاسی حالات کا مطلع اس اقدر ابر آلود اور غیر شفاف ہے کہ الیکشن کا چاند تو الیکشن کمیشن کو بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اس تناظر میں نگرانوں کا دورِ اقتدار آئینی مدت سے اسی طرح تجاوز کرتا نظر آرہا ہے جس طرح پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کے پاس حکمرانی کا کوئی آئینی‘ قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ آنے والے وقت میں نگران وفاقی حکومت بھی حکمرانی کے جواز سے محروم اور غیرآئینی ہونے کے باوجود شوقِ حکمرانی برابر پورے کرتی رہے گی جبکہ پنجاب میں تو سبھی شوق پورے کرنے کے بعد‘ کئی شوق نئے ایڈیشنوں کے ساتھ جاری ہیں۔ گویا شوق پورا ہونا چاہیے بس! بھلے کتنا ہی مہنگا اور کوئی بھی مول کیوں نہ ہو‘ اسی طرح شوقِ حکمرانی کے ماروں کو کیا خبر کہ ان کے شوق عوام پر کتنے بھاری اور مہنگے پڑتے چلے آرہے ہیں۔
جس ملک میں لوگ شریکِ اقتدار ہونے کے لیے اخلاقی و سماجی اقدار کی پروا کیے بغیر سہولت کاری کے سبھی مراحل سے بہ آسانی گزر جاتے ہیں اور مخصوص خدمات کے عوض کوئی نہ کوئی منصب اور قلمدان بھی پا لیتے ہیں وہاں ان کے شوقِ حکمرانی کی سبھی قیمتیں ملک و قوم کو ہی چکانا پڑتی ہیں۔ نگران سیٹ اَپ میں شامل ہونے کے خواہشمندوں کی میراتھن اب کہیں تھمی ہے ورنہ ریس کے ساتھ ساتھ منڈی کا سماں بھی زوروں پر رہا ہے۔ وزارتوں اور عہدوں کی بھاری بولیوں کے ساتھ ایسے ایسے نامی گرامی ٹھگ اڈے جمائے بیٹھے رہے ہیں کہ جن کے نام لکھنا شروع کروں تو پڑھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں کہ سرکاری دفاتر میں چھوٹے بڑے کاموں کے لیے صبح شام جوتے چٹخانے اور افسران کی چاپلوسی کرنے والے ضرورت مند بھی وزارتوں اور عہدوں کی منڈی لگائے بیٹھے تھے۔ عوام کو لوٹ پوٹ ہونے سے بچانے کے لیے ناموں کو صیغۂ راز میں رکھنا ہی بہتر ہے تاہم وزارتوں اور عہدوں کے حصول کے چکر میں اکثر کے لٹنے کی اطلاعات اور خبریں بھی خوب گرم رہی ہیں اور لٹنے والے تو لُوٹنے والے کا نام بتانے سے بھی کتراتے اور اس لیے گزراں ہیں کہ: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔