عجب تماشا ہے‘ ملک دیوالیہ ہوا پڑا ہے اور کرتے دھرتوں کے ہاں دیوالی کا سماں ہے۔ سرکاری ادارے خسارے میں اور سرکاری بابو خوب مزے میں۔ خزانے پر وزیر خزانہ کا نہ کوئی کنٹرول ہے نہ عمل دخل‘ اسی طرح وزیر قانون کا قانون اور ضابطوں پر عملدرآمد اور پاسداری سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی اختیار۔ وزیرتعلیم عصری تقاضوں اور جدید علوم کے بجائے پہلے سے گھسے پٹے نظامِ تعلیم کو مزید گھسیٹے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح وزیر صحت کی ترجیحات میں صحت عامہ اور دیگر ناگزیر سہولیات کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں۔ باقی سبھی محکمے بھی اسی طرز پر نہلے پہ دہلے اور ایک سے بڑھ کر ایک ہی پائے گئے ہیں۔ بقول شاعر
نظامِ میکدہ بگڑا ہوا ہے اس قدر ساقی
اُسی کو جام ملتا ہے جسے پینا نہیں آتا
یوں لگتا ہے کہ بات جام سے بڑھ کر کہیں آگے نکل چکی ہے کہ پورا میکدہ ہی ان کے حوالے کر ڈالا ہے جو ادب آداب سے لے کر دیگر سبھی تقاضوں سے نابلد ہیں۔ ناقابلِ برداشت بجلی کے بلوں اور پٹرول کی ہوشربا قیمتوں کے علاوہ مہنگائی کے بھڑکتے الاؤ کے خلاف ملک گیر ہڑتال کے باوجود حکمران مطمئن اور نازاں ہیں۔ تاہم وزیراعظم کا عالمِ طمانیت دیدنی ہے۔ موصوف کے بے نیاز بیانیے اور حالاتِ بد پر ثانوی سے بھی کم توجہ ان کی ترجیحات اور آئندہ کے لائحہ عمل کا بھرپور استعارہ ہے۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح حکمرانوں کے زبان و بیان کے ساتھ ساتھ فیصلے اور اقدامات ان کی نیت اور ارادوں کا پول کھول دیتے ہیں۔ نگران وزیراعظم کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے قوم کو ابھی تک کوئی ایسا سرپرائز نہیں دیا جس پہ یقین کرنے کے لیے قوم ایک دوسرے کو چٹکیاں کاٹتی پھرتی۔ انہوں نے ماضی کے سبھی ادوار کی حکمرانی کوہی ماڈل قرار دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ گلشن کا کاروبار ماضی کی سبھی بدعتوں میں اضافے کے ساتھ یونہی چلتا رہے گا۔
ملک چھوڑنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر ان کا ردِعمل اور ہلاکت خیز مہنگائی پر یہ فرمانا کہ حالات اتنے بھی برے نہیں۔ قابل غور ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے اس طرزِ فکر پر کافی لے دے بھی ہو رہی ہے‘ لیکن ناسمجھوں کو وزیراعظم کی اتنی سادہ سی بات سمجھ نہیں آئی کہ حالات تو واقعی اتنے بُرے نہیں کہ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کا مزہ کِرکرا کر ڈالیں۔ بالخصوص وزیراعظم کے لیے تو حالات پہلے سے یکسر مختلف اور غیر معمولی حد تک بہتر ہو چکے ہیں۔ اب عوامی احساس کے چکر میں چار دن کی چاندنی میں بھی کوئی نہ نہائے تو کفرِان نعمت کا احساس انہیں ساری زندگی بے چین رکھے گا۔ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا دعویٰ کر رہے ہیں کہ کاکڑ صاحب تو وہ کڑا کے بھی نکال کر جائیں گے جو شاید معین قریشی اور شوکت عزیز بھی نہ نکال سکے۔ حالانکہ دونوں صاحبان کا پاکستان اور پاکستان کے عوام سے نہ کوئی لینا دینا تھا اور نہ ہی کوئی لگاؤ‘ وہ تو بس ڈیوٹی پر بھیجے گئے تھے ایجنڈے کے مطابق اپنا کام کر کے چلتے بنے۔
وزیراعظم صاحب کا اعتماد(Confidence) دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹو بے اختیار یاد آگئے کہ تقریر کے دوران مجمعے سے جب انہیں جوتے دکھائے گئے تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھ جانے اور تسلی کی تلقین کرتے ہوئے کہا ''مجھے معلوم ہے چمڑا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔‘‘ لیکن اب تو بات چمڑے سے کہیں بڑھ کر عوام کی چمڑی تک آن پہنچی ہے‘ جو روز اترتی اور ادھڑتی ہے۔ عوام اس طرح ٹکے ٹوکری ہو چکے ہیں کہ پاپوش کی فکر چھوڑ کر دستار کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عزتِ نفس سے لے کر اَنا اور غیرت ضرورتوں کے آگے سمجھوتوں پر مجبور ہے۔ وزیراعظم صاحب کا ایک اور کمال عذر بھی پیش کرتا چلوں‘ فرمایا ہے کہ بجلی کے بل جولائی کے ہیں اور ہم اگست میں آئے ہیں گویا انہیں حلف اٹھانے سے پہلے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی عوام کی اوقات اور بساط سے کہیں بڑا مرحلہ ہے۔ چلیں اگست تو گزر ہی گیا‘ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ اگست کے بلوں کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے لیے کیا عذر تراشتے ہیں۔
بھارت کی چاند پر لینڈنگ کا ہمارے ہاں کافی چرچا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تقابلی جائزوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے سبقت لے جانے پر بھی بحث کا سماں تھا۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ چاند تک رسائی ابھی منصوبوں میں ہی بھٹک رہی ہے۔ اگر یہ چاند تک پہنچ جاتے تو یقینا بجلی کے بلوں میں دیگر غیر منطقی اور بلاجواز ٹیکسوں کے علاوہ ''چاند ٹیکس‘‘ بھی ضرور شامل ہوجاتا۔ ویسے بھی ملک کے بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں میں انڈر ایج ڈرائیور خستہ حال چاند گاڑیاں (چنگ چی) تو دوڑائے ہی پھر تے ہیں‘ فی الحال چاند پر لینڈنگ کے بجائے ان چاند گاڑیوں پر اکتفا کریں‘ کیونکہ جس دن ان سے سچی مچی کا کوئی بڑا کارنامہ انجام پا گیا تو اس کی مد میں بل کی رقم کے مساوی ایک اور اضافی ٹیکس ضرور ٹھوک دیں گے۔ کوئی تو ان سے پوچھے کہ مسجد کے بل میں ٹی وی ٹیکس کو کیسے جائز قرار دوگے اور ملک بھر میں سرکاری ٹی وی دیکھا کہاں جاتا ہے؟ اسی طرح دیگر ٹیکسوں کے نام پڑھنا شروع کریں تو منہ سے اول فول کے علاوہ بلڈ پریشر بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
قوم اپنے خلائی ماہرین کی شکر گزار ہے کہ وہ اسے تاحال'' چاند ٹیکس‘‘ سے بچائے ہوئے ہیں۔ ہم بھارت سے ریس کے چکر میں مزید ٹیکس لگوا کر آخر کب تک ہڑتالیں کرتے رہیں گے کیونکہ حکمرانوں کو نہ ہڑتالوں سے فرق پڑتا ہے‘ نہ مظاہروں اور احتجاجوں سے۔ یہ سبھی مناظر تو ان کے اندر حکمرانی کے شوق اور جنون میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دھتکار اور پھٹکار کی ماری عوام کو دیکھ کر حکمرانوں کے اس اطمینان کو بھی مزید تقویت ملتی ہے کہ عوام سے ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ عوام تو خود دو وقت کی روٹی کے لیے افتاں و خیزاں ہیں۔ بمشکل روٹی پوری کر لیں تو بجلی کے بل اور پٹرول کے بھاؤ سے کیونکر بچ پائیں گے؟ بچوں کی تعلیم و تربیت‘ علاج معالجہ‘ خوشی غمی اور جینا مرنا تو طرزِ حکمرانی نے ویسے ہی بھلا ڈالا ہے۔
عوام بھی اتنے سادہ اور سیدھے ہیں کہ ہر دور میں حکمرانوں کی توقعات پراسی طرح پورا اترتے آئے ہیں کہ نہ کبھی حکمرانوں کے لیے خطرہ بنے اور نہ ہی انہوں نے اپنے ان بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھائی‘ جو بحیثیت انسان ان کا پیدائشی حق بھی ہے۔ عوام کا یہ خصوصی تعاون حکمرانوں کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے عوام کو دائرئہ انسانیت ہی سے خارج کر ڈالا۔ اگر عوام کو انسان کے منصب پر فائز کرنے کا رسک لیں گے تو انہیں تمام بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ وہ حقِ حکمرانی بھی ادا کرنا پڑے گا جو عوام ہی کے مرہونِ منت ہے۔ لہٰذا عوام کو انسانیت کے دائرے سے خارج رکھ کر ہی یہ حکومتی ایوانوں اور اپنے محلات میں موجیں اور مستیاں مارتے رہیں گے ؎
اِک اِک کر کے مرگئے سارے‘ سب چیخیں خاموش ہوئیں
بستی کا رکھوالا سمجھاروگ کٹے بیماروں کے