کالم آرائی تو بخدا ایک معرکہ ہی بنتا چلا جا رہا ہے‘ جابجا بدحالیوں‘ بربادیوں اور نت نئے عذابوں سمیت حالاتِ پریشاں کے روپ بہروپ کو روز الفاظ کے لبادے چڑھا کر بیان کرنا ہو یا ماتمی حالات کے اظہار کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کرنا ہو جو قیامت خیز مناظر کی عکاسی کر سکیں۔ روز روز کہاں سے وہ الفاظ لاؤں جو مملکتِ خداداد میں مچے اُدھم کو بیان کر سکیں۔ دھرتی ماں کو مل کر بھنبھوڑنے اور کھانے والے ہوں یا خون پینے والے‘ یہ سبھی کیا جانیں کہ بھوک سے بلکتے بچوں کو بنا کھلائے سلانا بھوکے ماں باپ کے لیے کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ دو کلو آٹے کی چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے والے نوعمر بچے سے غیر انسانی سلوک پر سناٹے دیکھ کر آسمان توضرور رو پڑا ہوگا‘ زمین بھی یقینا تڑپی ہوگی لیکن وسائل پر قابض اور دسترس رکھنے والے کب کسی بھوک‘ محتاجی اور بے بسی کو مانتے ہیں۔ سڑکوں پر کہیں بجلی کے بلوں کا ماتم جاری ہے تو کہیں پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں لگی ہوئی آگ کے شعلے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ ایسے میں ایک صوبے کا گورنر پون کروڑ روپیہ صرف خشک میوہ جات‘ گھی‘ مکھن اور کافی وغیرہ کی خریداری میں اُڑا ڈالے تو اس تماشے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کہاں تک ساتھ دے سکتے ہیں۔
خیر! گورنر صاحب تو اپنی اور اپنے مہمانوں کی توانائیاں بچانے اور بحال کرنے کی غرض سے یہ قوت بخش غذائیں کھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اشرافیہ کے کتے‘ گھوڑے اور دیگر پالتو جانوروں کی خوراک اور رہن سہن پر اس سے کہیں زیادہ اخراجات آجاتے ہیں۔ بالخصوص کراچی کی سڑکوں پر لگژری گاڑیوں میں گھومتے کھڑکی سے منہ نکالے کتے راہ چلتے انسانوں کو دیکھ کر یقینا پروردگار کا شکر بجا لاتے ہوں گے کہ اللہ نے انہیں کتا بنایا ہے‘ اگر انسان بنا ڈالتا تو انہیں بھی آج اسی دھتکار‘ پھٹکار سمیت ان سبھی ذلتوں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑتا جس کا شکار مملکتِ خداداد میں حضرتِ انسان نسل در نسل ہوتا چلا آرہا ہے۔
اکثر حلقے ملک بھر میں نگران سیٹ اَپ کی تشکیل کے بعد اب صوبوں کے گورنرز کی تبدیلی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ گورنر صاحبان کو ہرگز تبدیل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وطنِ عزیز میں آنے والے صاحب جانے والوں کی طرف سے ملنے والے صدموں کو ناصرف بھلا دیتے ہیں بلکہ کئی اضافوں کے ساتھ مزید بھاری صدمات سے دوچار بھی کر ڈالتے ہیں۔ گورنر صاحبان کی تبدیلی کے خواہشمندوں کو خبر ہونی چاہیے کہ اب قوم مزید صدمات سہنے کی سکت کھو چکی ہے۔ نئے آنے والے تو نیا تاوان بھی وصول کریں گے تاہم مزید عذابوں کے بجائے عوام گورنری کے انہی روپ بہروپ پر گزارا کرنے کو تیار ہیں۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب شہرِ خموشاں پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں‘ جدید قبرستان کو وقت کا اہم تقاضا بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارے دین میں میتوں کی حرمت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں مردوں کی خبرگیری گورننس کا ایک نیا پہلو ہے تاہم شہرِ خموشاں کے ساتھ ساتھ ان زندہ شہریوں کی طرف بھی کچھ نظرِ کرم ہو جائے جو زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ نمائشی گورننس جن کے حالات بدلنے میں مسلسل حائل اور رکاوٹ ہے‘ اعلانات اور بھاشن ان کے دن بدلنے سے قاصر ہیں۔ دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی جن زندہ شہریوں کا طرزِ زندگی بن چکا ہے‘ دادرسی کے لیے مارے مارے پھرنے والے ہوں یا علاج معالجہ کی حسرت میں مرضِ موت کا شکار مخلوق‘ یہ سبھی جناب کی اس توجہ کے مستحق اور طلبگار ہیں جس کی تمنا لیے کئی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔
ہسپتالوں کے پے در پے دوروں کے باوجود مطلوبہ نتائج میں ناکامی کی وجوہات اپنے اردگرد بھی تلاش کریں۔ شعبدے بازوں کے جھرمٹ میں ہنگامی دورے گورننس کے معانی الٹا دیتے ہیں۔ سب کو سبھی جانتے ہیں‘ ہر دور میں الفاظ کے گورکھ دھندے اور جعلی اعداد و شمار کے ساتھ حکمرانوں کی چاپلوسی کر کے اپنے قد سے بڑے عہدے حاصل کرنے والوں کے شملے جناب نے اس قدر اونچے کر دیے ہیں کہ انہیں اصل مسائل اور خرابیاں بوجوہ نظر نہیں آرہیں۔ ان کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ سے گمراہ ہونے کے بجائے ان پروفیشنلز پر انحصار کریں جن کی ذمہ داری ہے۔ اگر ذمہ داری دی ہے تو چیئرمین کو اپنے ویژن‘ تجربے اور مہارت کو بروئے کار لانے کے لیے فری ہینڈ دے کر تو دیکھیں‘ وزیر موصوف کے مشوروں سے بچ کر ہی ہسپتالوں کی استعدادِ کار اور حالاتِ زار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کورونا کے ہلاکت خیز حالات میں اعلیٰ سطحی علاج کے دوران وزیراعلیٰ کو ویکسین کی تیاری کا جھانسہ دے کر پوری حکومت کی سبکی اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے چیمپئنز نگران سرکار کے لیے بھی آئے روز جوابدہی اور شرمساری کے اسباب کا باعث ہیں۔ پی آر ماسٹر کبھی خاندانی پس منظر کی بنیاد پر تو کبھی رشتے داریوں کو سیڑھی بنا کر عہدے اور اہداف حاصل کرتے چلے آئے ہیں۔ خدارا! شہرِ خموشاں کو جدید تقاضوں سے ضرور ہم آہنگ کریں لیکن جیتے جاگتے شہریوں اور اداروں کو شہرِ خموشاں کا استعارہ ہرگز نہ بنائیں۔
صوبائی دارالحکومت میں امراضِ قلب کے معاملات اور مسائل پہلے ہی مریضوں کے دلوں کا کام تمام کیے ہوئے ہیں۔ آپریشن تھیٹرز کے انفیکشنز کی شرح شرمناک حدوں کو کراس کر چکی تھی۔ اب جگاڑ لگا کر کب تک کام چلائیں گے۔ بین الاقوامی معیار کے تھیٹر اور ماہر سرجنز اس علاج گاہ کی وہ اوّلین ضرورت ہے جو نجانے کب سے مجرمانہ غفلتوں اور مصلحتوں کا شکار تھی۔ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم ٹاسک کے ساتھ فری ہینڈ دیکر ہی گارے میں پھنسی ہوئی یہ گاڑی ہموار سڑک پر لائی جا سکتی ہے۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر ہسپتال میں جمع تفریق سے ان مریضوں کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے جو علاج کی غرض سے ہسپتال آتے ہیں اور بامراد لوٹتے ہیں۔ اپنی ہمت اور دستیاب سہولیات سے کہیں زیادہ مریضوں کا بوجھ اٹھائے اور ان کی تکلیفوں کا مداوا کرنے والے مسیحاؤں کو ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے ایجنڈے مریض دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ باقی ؎ جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔
اسی طرح سانحۂ جڑانوالہ جیسے غیر انسانی واقعہ کو جھٹ سے بیرونی ہاتھ اور ہمسایہ ملک کی سازش قرار دینے والے افسر صاحبان اگر کثرتِ بیانی پر نظرِ ثانی کر لیں تو اس شرمناک واقعہ کی اصل وجوہات سامنے آنے کے بعد سناٹے نہ چھائے ہوتے۔ صوبائی دارالحکومت کی آپریشن فورس کو جس ماڈل پر چلایا جا رہا ہے وہ قطعی غیر انسانی اور غیر منطقی ہے۔ 21گھنٹے پولیسنگ اور آدھی آدھی رات تک جاری رہنے والی لا اینڈ آرڈر کی میٹنگز نے فیلڈ افسران کو چڑچڑے پن کا مریض بنا ڈالا ہے۔ ریفارمز کے نام پر ڈیفامز کے جابجا ڈھیر اور شبینہ پولیسنگ جیسے تجربات کے نتائج پر غور کرنے کے بجائے فیلڈ فورس بالخصوص ایس ایچ او حضرات کو اہداف کے حصول میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراہا جا رہا ہے۔ تبادلہ پالیسی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ باریاں لگائی اور پارٹیاں بھگتائی جا رہی ہیں۔ جب ایس ایچ او کو علاقے کی سمجھ آنے لگتی ہے تو نیا افسر تبادلے کا پروانہ لیے چارج لینے سر پہ کھڑا ہوتا ہے۔ شہر خموشاں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ویژن رکھنے والے وزیراعلیٰ پولیس افسران کو وہ تقاضے بھی باور کروا دیں جو ان کی تقرری سے مشروط ہونے کے باوجود برابرصدا دے رہے ہیں کہ: حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘ ورنہ شہرِ خموشاں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تو کر ہی دیں گے۔